ہم کب جاگیں گے
ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا بھی آزادی رائے کےنام پرسب کچھ کہنے یاکرنیکی اجازت نہیں دیتی۔
لاہور:
آج سے پندرہ برس قبل جب نئی ہزاروی(millennium) کا آغاز ہواتو دنیا کا جوش و خروش دیدنی تھا ۔ خوب جشن منائے گئے اور ایک دوسرے کو یوں مبارکبادیں دی گئیں جیسے کیلنڈرتبدیل ہوتے ہی دنیا سے سب دکھ درددور ہوجائیں گے۔ افسوس کہ ان تمام تر خواہشوں اور تمناؤں کے برعکس 21 ویں صدی اپنے ساتھ بد امنی اور انتشار لائی ۔ نائن الیون کے دلخراش سانحے کے بعد دنیا یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی۔ اپنا وقار مجروح ہونے پرسپر پاورنے افغانستان پر پوری طاقت سے حملہ کر کے ایک ایسی جنگ کا آغاز کردیا جس نے دنیا کو پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ بنادیاہے اوراب اِس کونے سے اُس کونے تک دہشت اپنا رقص کر رہی ہے۔
آئے روز ہونے والے پر تشدد واقعات میں ایک نیا اضافہ اس وقت ہوا جب کچھ ہی روز قبل یعنی 7 جنوری کو فرانس کے ایک جریدے''چارلی ایبڈو '' پر دو مسلح افراد نے حملہ کردیا اور 12 افراد کو اپنے غصے کا نشانہ بناڈالا جن میں اس جریدے کے صحافیوں کے علاوہ دو پولیس افسران بھی شامل تھے۔ حملہ آوروں نے پانے اِس فعل کو کو جریدے میں کچھ برس قبل توہین آمیز خاکے شائع کو قرار دیا۔
کل یعنی 11 جنوری کو پیرس میں فرانسیسی عوام نے اس سانحے کے خلاف لاکھوں افراد کی ایک بڑی ریلی ''یونیٹی مارچ''منعقد کی۔ اس ریلی کی خاص بات اس میں 40 ممالک کے سربراہان کی شرکت تھی جس میں اردن کے شاہ عبد اللہ کے علاوہ اسرائیلی وزیر اعظم اور اور فلسطین کے صدر بھی شامل تھے۔ اس ریلی کا مقصد ہلاک شدگان کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور دہشت گردی کی مذمت تھا۔ یہ یقینی طور پر ایک اچھا قدم تھا لیکن افسوس تو یہ کہ کسی نے اِس بات کی مذمت نہیں کی کہ آزادی صحافت کے نام پر کسی مذہب کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔
پیرس حملے نے جہاں دنیا بھر کے سربراہان کو ایک جگہ اکٹھا کیا وہیں کچھ اہم نکات کو بھی از سر نو جنم دیا ہے اور یہ ایک مناسب وقت ہوگا اگر ہم ان پر بھی کچھ غور کر سکیں تاکہ مستقبل میں ہم مزید سانحوں سے بچ سکیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا سے دہشت گردوں اور دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ القاعدہ، بوکوحرام، داعش، تحریک طالبان اور اس جیسی درجنوں تنظیمیں اپنی سفاکانہ کاروائیوں کے لئے ایک متشدد نظریے کا سہارا لیتی ہیں اور ان کا بیانیہ (narrative)ایک سخت گیر فکر سے پرورش پاتا ہے ۔ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ روز بروز ان تنظیموں کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ دہشتگردی محض غیر ریاستی عناصر یعنی (non-state actor) نہیں کرتے بلکہ ریاستیں بھی براہ راست ملوث ہوتی ہیں ۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اب تک لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے ہیں لیکن کیا کبھی دنیا بھر کے حکمرانوں نے سے اِس بربریت کے خلاف آواز اُٹھائی؟
یہ ایک ضروری سوال ہے کہ کیا مسلمان ریاستیں اور بالخصوص علماء دہشت گردوں کے اس گمراہ کن نظرئیے کو رد کرنے کے لئے جوابی بیانیہ (counter narrative)دے رہے ہیں؟ افسوس کہ اس ضمن میں کوئی خاص پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔یہی وجہ ہے کہ سادہ لوح نوجوان دہشت گردوں کے نظرئیے کا اثر لے رہے ہیں اور غیر ریاستی عناصر (non-state actors)جنم لے رہے ہیں۔یہ انتہا پسند عناصر ایک خاص ذہنی کیفیت (mindset)رکھتے ہیں اور انہیں دہشت گرد تنظیمیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر کے مسلح جدوجہد پر اکسا کر دہشت گرد بنا سکتی ہیں۔ یہ عناصر محض مغرب ہی کے لئے نہیں بلکہ مسلمان معاشروں اور متحمل مزاج (moderate) مسلمانوں کے لئے بھی خطرہ ہیں۔
دوسرے نکتے کا تعلق مغربی معاشروں سے ہے۔ ہم نے ان برسوں میں دیکھا ہے کہ آزادی ء صحافت یا Freedom of Expression کے نام پر پرتوہین آمیز خاکے، موویز یا کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی اور ایسا مواد شائع یا نشر ہو جاتا ہے جس سے مسلمان معاشروں میں غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے اورنتیجہ احتجاج کی صورت میں نکلتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ مغربی معاشرے کے لئے یہ کوئی خاص بات نہ ہو مگر دنیا کو یہ حقیقت سمجھنی از حد ضروری ہے کہ مسلمان اور مغربی معاشروں میں کچھ معاملات میں ویسا ہی فاصلہ پایا جاتا ہے جیسا دو قطبین میں اور اس فاصلے کوکم بھی نہیں کیا جا سکتا۔مثلاًہمارے رہن سہن (way of life)میں مذہبی وابستگی کو اولین فوقیت حاصل ہے اورگلی کوچے میں چلنے والے ایک عام ان پڑھ فرد سے لے کر کسی یونی ورسٹی کے پروفیسر تک ، سب کے لئے اس کی یکساں اہمیت ہے اور اس میں متحمل مزاج یعنی ماڈریٹ مسلمان بھی شامل ہیں۔ مسلمان معاشروں میں بحیثیت مجموعی اس موضوع پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ مغربی صحافت بعض اوقات آزادی رائے کے معاملے میں اس حد کو عبور کر جاتی ہے جہاں سے معاملہ سنگین صورت اختیار کرنے لگتا ہے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ آپ کے ہاتھ کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں دوسرے کی ناک شروع ہو۔ ہم صحافت یا آزادی رائے پر کوئی بے جا قدغن لگانے کے روادار نہیں اور علمی یا فکری انداز میں کسی کی مذہبی فکر پر مثبت تنقید کی حمایت بھی کرتے ہیں مگر بہر حال اس کے بارے میں کوئی حد بندی ہونا ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ہمارے سامنے اس کی کچھ مثالیں موجود ہیں۔ مہذب دنیا میں نفرت انگیزمواد (Hate Speech) کو برا سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کو لسانی یا نسلی بنیاد پر حقیر سمجھا جائے تو ایسے شخص کو racistکہا جاتا ہے۔ آگے بڑھیں تو جرمن نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام یعنی 'ہولوکاسٹ 'پر بات کرنے پر اکثر جگہوں پر قانونی پابندی عائد ہے ۔ اسی طرح ہمیں سوشل میڈیا پرکسی ایسے فرد کی پروفائل یا پوسٹ کو'رپورٹ'کرنے کی سہولت دی جاتی ہے جو ضابطہ اخلاق کی پابندی نہ کر رہا ہو۔ یہ سب کچھ انسانوں کے مابین روابط کو درست انداز میں استوار کرنے اور امن قائم رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
ان مثالوں کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ مہذب دنیا بہر حال آزادی رائے کے نام پر سب کچھ کہنے یا کرنے کی اجازت نہیں دیتی جو ایک احسن قدم ہے۔
پیرس حملوں کے بعد چالیس ممالک کے سربراہان ، جس میں مسلمان سربراہان بھی شامل ہیں،کا اکٹھا ہوناایک مثبت پیش رفت ہے مگر کیا محض اکٹھا ہوجانے سے مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جا سکے گا؟شاید ایسا نہ ہو سکے۔ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ سب سربراہان مملکت باہم ایک لائحہ عمل طے کریں، مغرب اور مسلم معاشروں کے درمیان پائے جانے والی خلیج کو بھریں اور ایک مثبت مکالمے کا آغاز کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردوں کو تنہا (isolate)کر دیا جائے اوردنیا متحمل مزاج مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر دہشت گردی کے عفریت کا مقابلہ کرے۔
اس کے لئے مسلم معاشروں کو بھی مغرب کے مزاج کو سمجھنا ہوگا اور مغرب کو بھی ہمارے معاشرے کے عام فرد کی مذہبی وابستگی کا خیال رکھنا ہوگا۔یہ بہت مناسب ہوگا کہ آزادی رائے کے منفی استعمال کو روکنے کے لئے کوئی قانون یا ضابطہ اخلاق بنادیا جائے جس کے تحت تمام مذاہب کے پیشوا اور مقدس ہستیوں کا احترام روا رکھا جائے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ دنیا کی مشترکہ جدوجہد ہے اور اس میں ایک دوسرے کی مذہبی وابستگی اور عقیدت کا احترام رکھتے ہوئے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ دنیا میں قطبیت (polarisation)میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور اس سے دہشت گرد اور غیر ریاستی عناصر فائدہ اٹھا تے رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آج سے پندرہ برس قبل جب نئی ہزاروی(millennium) کا آغاز ہواتو دنیا کا جوش و خروش دیدنی تھا ۔ خوب جشن منائے گئے اور ایک دوسرے کو یوں مبارکبادیں دی گئیں جیسے کیلنڈرتبدیل ہوتے ہی دنیا سے سب دکھ درددور ہوجائیں گے۔ افسوس کہ ان تمام تر خواہشوں اور تمناؤں کے برعکس 21 ویں صدی اپنے ساتھ بد امنی اور انتشار لائی ۔ نائن الیون کے دلخراش سانحے کے بعد دنیا یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی۔ اپنا وقار مجروح ہونے پرسپر پاورنے افغانستان پر پوری طاقت سے حملہ کر کے ایک ایسی جنگ کا آغاز کردیا جس نے دنیا کو پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ بنادیاہے اوراب اِس کونے سے اُس کونے تک دہشت اپنا رقص کر رہی ہے۔
آئے روز ہونے والے پر تشدد واقعات میں ایک نیا اضافہ اس وقت ہوا جب کچھ ہی روز قبل یعنی 7 جنوری کو فرانس کے ایک جریدے''چارلی ایبڈو '' پر دو مسلح افراد نے حملہ کردیا اور 12 افراد کو اپنے غصے کا نشانہ بناڈالا جن میں اس جریدے کے صحافیوں کے علاوہ دو پولیس افسران بھی شامل تھے۔ حملہ آوروں نے پانے اِس فعل کو کو جریدے میں کچھ برس قبل توہین آمیز خاکے شائع کو قرار دیا۔
کل یعنی 11 جنوری کو پیرس میں فرانسیسی عوام نے اس سانحے کے خلاف لاکھوں افراد کی ایک بڑی ریلی ''یونیٹی مارچ''منعقد کی۔ اس ریلی کی خاص بات اس میں 40 ممالک کے سربراہان کی شرکت تھی جس میں اردن کے شاہ عبد اللہ کے علاوہ اسرائیلی وزیر اعظم اور اور فلسطین کے صدر بھی شامل تھے۔ اس ریلی کا مقصد ہلاک شدگان کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور دہشت گردی کی مذمت تھا۔ یہ یقینی طور پر ایک اچھا قدم تھا لیکن افسوس تو یہ کہ کسی نے اِس بات کی مذمت نہیں کی کہ آزادی صحافت کے نام پر کسی مذہب کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔
پیرس حملے نے جہاں دنیا بھر کے سربراہان کو ایک جگہ اکٹھا کیا وہیں کچھ اہم نکات کو بھی از سر نو جنم دیا ہے اور یہ ایک مناسب وقت ہوگا اگر ہم ان پر بھی کچھ غور کر سکیں تاکہ مستقبل میں ہم مزید سانحوں سے بچ سکیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا سے دہشت گردوں اور دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ القاعدہ، بوکوحرام، داعش، تحریک طالبان اور اس جیسی درجنوں تنظیمیں اپنی سفاکانہ کاروائیوں کے لئے ایک متشدد نظریے کا سہارا لیتی ہیں اور ان کا بیانیہ (narrative)ایک سخت گیر فکر سے پرورش پاتا ہے ۔ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ روز بروز ان تنظیموں کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ دہشتگردی محض غیر ریاستی عناصر یعنی (non-state actor) نہیں کرتے بلکہ ریاستیں بھی براہ راست ملوث ہوتی ہیں ۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اب تک لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے ہیں لیکن کیا کبھی دنیا بھر کے حکمرانوں نے سے اِس بربریت کے خلاف آواز اُٹھائی؟
یہ ایک ضروری سوال ہے کہ کیا مسلمان ریاستیں اور بالخصوص علماء دہشت گردوں کے اس گمراہ کن نظرئیے کو رد کرنے کے لئے جوابی بیانیہ (counter narrative)دے رہے ہیں؟ افسوس کہ اس ضمن میں کوئی خاص پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔یہی وجہ ہے کہ سادہ لوح نوجوان دہشت گردوں کے نظرئیے کا اثر لے رہے ہیں اور غیر ریاستی عناصر (non-state actors)جنم لے رہے ہیں۔یہ انتہا پسند عناصر ایک خاص ذہنی کیفیت (mindset)رکھتے ہیں اور انہیں دہشت گرد تنظیمیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر کے مسلح جدوجہد پر اکسا کر دہشت گرد بنا سکتی ہیں۔ یہ عناصر محض مغرب ہی کے لئے نہیں بلکہ مسلمان معاشروں اور متحمل مزاج (moderate) مسلمانوں کے لئے بھی خطرہ ہیں۔
دوسرے نکتے کا تعلق مغربی معاشروں سے ہے۔ ہم نے ان برسوں میں دیکھا ہے کہ آزادی ء صحافت یا Freedom of Expression کے نام پر پرتوہین آمیز خاکے، موویز یا کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی اور ایسا مواد شائع یا نشر ہو جاتا ہے جس سے مسلمان معاشروں میں غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے اورنتیجہ احتجاج کی صورت میں نکلتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ مغربی معاشرے کے لئے یہ کوئی خاص بات نہ ہو مگر دنیا کو یہ حقیقت سمجھنی از حد ضروری ہے کہ مسلمان اور مغربی معاشروں میں کچھ معاملات میں ویسا ہی فاصلہ پایا جاتا ہے جیسا دو قطبین میں اور اس فاصلے کوکم بھی نہیں کیا جا سکتا۔مثلاًہمارے رہن سہن (way of life)میں مذہبی وابستگی کو اولین فوقیت حاصل ہے اورگلی کوچے میں چلنے والے ایک عام ان پڑھ فرد سے لے کر کسی یونی ورسٹی کے پروفیسر تک ، سب کے لئے اس کی یکساں اہمیت ہے اور اس میں متحمل مزاج یعنی ماڈریٹ مسلمان بھی شامل ہیں۔ مسلمان معاشروں میں بحیثیت مجموعی اس موضوع پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ مغربی صحافت بعض اوقات آزادی رائے کے معاملے میں اس حد کو عبور کر جاتی ہے جہاں سے معاملہ سنگین صورت اختیار کرنے لگتا ہے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ آپ کے ہاتھ کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں دوسرے کی ناک شروع ہو۔ ہم صحافت یا آزادی رائے پر کوئی بے جا قدغن لگانے کے روادار نہیں اور علمی یا فکری انداز میں کسی کی مذہبی فکر پر مثبت تنقید کی حمایت بھی کرتے ہیں مگر بہر حال اس کے بارے میں کوئی حد بندی ہونا ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ہمارے سامنے اس کی کچھ مثالیں موجود ہیں۔ مہذب دنیا میں نفرت انگیزمواد (Hate Speech) کو برا سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کو لسانی یا نسلی بنیاد پر حقیر سمجھا جائے تو ایسے شخص کو racistکہا جاتا ہے۔ آگے بڑھیں تو جرمن نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام یعنی 'ہولوکاسٹ 'پر بات کرنے پر اکثر جگہوں پر قانونی پابندی عائد ہے ۔ اسی طرح ہمیں سوشل میڈیا پرکسی ایسے فرد کی پروفائل یا پوسٹ کو'رپورٹ'کرنے کی سہولت دی جاتی ہے جو ضابطہ اخلاق کی پابندی نہ کر رہا ہو۔ یہ سب کچھ انسانوں کے مابین روابط کو درست انداز میں استوار کرنے اور امن قائم رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
ان مثالوں کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ مہذب دنیا بہر حال آزادی رائے کے نام پر سب کچھ کہنے یا کرنے کی اجازت نہیں دیتی جو ایک احسن قدم ہے۔
پیرس حملوں کے بعد چالیس ممالک کے سربراہان ، جس میں مسلمان سربراہان بھی شامل ہیں،کا اکٹھا ہوناایک مثبت پیش رفت ہے مگر کیا محض اکٹھا ہوجانے سے مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جا سکے گا؟شاید ایسا نہ ہو سکے۔ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ سب سربراہان مملکت باہم ایک لائحہ عمل طے کریں، مغرب اور مسلم معاشروں کے درمیان پائے جانے والی خلیج کو بھریں اور ایک مثبت مکالمے کا آغاز کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردوں کو تنہا (isolate)کر دیا جائے اوردنیا متحمل مزاج مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر دہشت گردی کے عفریت کا مقابلہ کرے۔
اس کے لئے مسلم معاشروں کو بھی مغرب کے مزاج کو سمجھنا ہوگا اور مغرب کو بھی ہمارے معاشرے کے عام فرد کی مذہبی وابستگی کا خیال رکھنا ہوگا۔یہ بہت مناسب ہوگا کہ آزادی رائے کے منفی استعمال کو روکنے کے لئے کوئی قانون یا ضابطہ اخلاق بنادیا جائے جس کے تحت تمام مذاہب کے پیشوا اور مقدس ہستیوں کا احترام روا رکھا جائے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ دنیا کی مشترکہ جدوجہد ہے اور اس میں ایک دوسرے کی مذہبی وابستگی اور عقیدت کا احترام رکھتے ہوئے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ دنیا میں قطبیت (polarisation)میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور اس سے دہشت گرد اور غیر ریاستی عناصر فائدہ اٹھا تے رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔