صوفی شاعر لالن شاہ فقیر

ائے بادل وہاں جا کر خوب برس، جہاں میاں بیوی، بھائی بہن کی طرح سوئے ہوئے ہیں۔

zb0322-2284142@gmail.com

اٹھارویں صدی میں طبقاتی تضادات اور عالم گیریت اتنی عروج پر نہیں تھی اس لیے صوفیائے کرام اپنے سادہ انداز میں عوام کو انسانی یکجہتی کا درس دیتے تھے۔ مقابلتاً جدید صوفی شعراء جن میں مولانا روم، گوئٹے اور رابندرناتھ ٹیگور زیادہ مشہور ہوئے مگر ان سے بھی پہلے جو شعرا صوفی شاعری کی بنیاد بنے۔

وہ ہیں برصغیر کے بلھے شاہ، وارث شاہ، سچل سرمست، شاہ عبداللطیف بھٹائی، کبیرداس، تلسی داس اور لالن شاہ فقیر وغیرہ۔ بنگلہ زبان میں گانے کی متعدد اقسام ہوتی ہیں جن میں 'باؤل' جسے (روحانی گانا) کہا جاتا ہے۔ لالن شاہ فقیرگانوں کے لکھاری، سماج سدھار اور مفکر تھے۔ انھوں نے بنگلہ ثقافت میں برداشت کا رحجان پیدا کیا جس سے ایشیا کے پہلا نوبل انعام یافتہ شاعر رابندرناتھ ٹیگور بھی متاثر تھے۔ بنگلہ زبان کے معروف نقاد بنکم چندر چٹرجی کا کہنا ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور، لالن شاہ فقیر کے بنیادی اصولوں پر گامزن ہوئے اور ان ہی کے انداز میں شاعری کی۔

انقلابی شاعر قاضی نذر الاسلام اور صوفی شاعر الین زمرگ ان ہی سے متاثر تھے۔ لالن شاہ پر یہ ایک متنازع نقطہ نگاہ حاوی رہا کہ وہ ہندو تھے یا مسلمان۔ مسلمان ادیب اور شعرا کہتے ہیں کہ ان کے انتقال کے بعد جب غسل دیا گیا تو ان کا ختنہ نظر آیا اور ان کے بڑے بھائی کا نام قلم شاہ تھا جب کہ ہندو ادیب اور شعراء کہتے ہیں کہ ان کا اصل نام لالن چندر تھا، چونکہ مسلمان خاندان میں پرورش پائی اس لیے انھیں مسلمان سمجھا جاتا تھا۔ وادی گنگا کے ضلع مرشد آباد میں 1774ء میں پیدا ہوئے۔ جب اس محلے کے لوگ چیچک کے مرض میں مبتلا ہوئے تو سارا گاؤں انھیں چھوڑکر چلا گیا۔ ایک جولاہوں کی کمیونٹی جہاں کے لوگوں کی اکثریت مسلمان تھی وہاں کا ایک خاندان مالم شاہ اور اس کی بیوی متی جان چیوریہ گاؤں میں لے گئے اور ان کی پرورش کی۔ وہ نسل انسانی کی یکجہتی کے زبردست حامی اور ذات پات کے سخت مخالف تھے۔

ہندوستان میں جب نوآبادیاتی استحصال کے خلاف قوم پرستی کی تحریک چل رہی تھی، اس وقت بھی اس قوم پرستی اور روایتی ذات پات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ ایک آزاد، غیرمتنازعہ سماج کے حامی تھے اور نسل پرستی کے کٹر مخالف۔ وہ عالم انسانی کو متحد کرنے اور ہندوستانی (صوفی ازم) کو فروغ دینا چاہتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ روحانیت، موسیقی، گانے اور دانش کے ذریعے انسانوں کی تفریق ختم کر کے انھیں جوڑا جا سکتا ہے، خاص کر نیپال، بنگال اور وادی گنگا کو۔ انھوں نے ہندو، جین بدھ اور اسلام سے بہت سے مشترکہ اور فلسفیانہ خیالات کو پروان چڑھایا۔ وہ 'نادیہ اسکول' سے اپنی پہچان کرواتے تھے ۔


جس کے بانیوں میں ادویتا اچاریہ، نیتیانندا اور چیتینا قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے اپنے فلسفے کو دس ہزار گانوں میں بیان کیا جن میں سے اب صرف تین ہزار گانے ہی محفوظ ہیں۔ انھوں نے بنگال میں 'اک تارا' نام کی موسیقی دریافت کی جو کہ صرف ایک ہی تار پر بجایا جایا کرتا ہے۔ اسے ڈگی یا ڈرم بھی کہا جا سکتا ہے۔لالن شاہ فقیر 1890ء میں 116 سال کی عمر میں اس دنیا کو جسمانی طور پر چھوڑ گئے۔

بنگلہ دیش کے کوشٹیا ریلوے اسٹیشن سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر چیوریہ میں 'لالن اکھدا' کے نام سے ان کی آخری آرام گاہ ہے۔ وہ باؤل موسیقی کے خالق کے طور پر احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی برسی فروری سے مارچ تک میلے کے طور پر منائی جاتی ہے۔ باؤل موسیقار اور جدید گلوکار ان کے گیت گاتے ہیں۔ گیت گانیوالوں میں معروف گلوکاروں فریدہ پروین، انوشے انادل اور اروپ راہی عالمی طور پر مشہور ہیں۔ لالن شاہ فقیر پر فلمیں بھی بنی ہیں۔ ان شعراء نے برصغیر میں اپنا اہم ترین کردار ادا کیا۔ جیسا کہ شمال مغربی ہندوستان میں کبیر داس اور تلسی داس قابل ذکر ہیں۔

کبیر داس کے متعلق یہ کہانی مشہور ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو ہندو حضرات انھیں شمشان گھاٹ لے جا کر جلانے کے لیے بضد تھے جب کہ مسلمان حضرات انھیں دفنانے کے لیے لڑ رہے تھے۔ جب کوئی صلح نہ ہوئی تو کبیر داس کی میت پھول میں تبدیل ہو گئی اور پھر ہندو مسلم دونوں نے آ دھا آدھا کر کے بانٹ لیا، کچھ لوگوں نے جلایا اور کچھ لوگوں نے دفنایا۔ اب یہ قصہ کہاں تک درست ہے یہ مجھے نہیں معلوم مگر یہ ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ کبیر داس ایک ایسے مہامنش تھے کہ انھیں ہندو یا مسلم کے طور پر نہیں بلکہ انسان کے طور پہ جانا جاتا تھا۔ اس طرح کے صوفی حضرات پنجاب اور سندھ میں بہت معروف ہیں۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی، سچل سرمست، وارث شاہ اور بلھے شاہ وغیرہ ہیں۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی ایک جگہ اپنی نظم میں کہتے ہیں کہ 'ائے بادل وہاں جا کر خوب برس، جہاں میاں بیوی، بھائی بہن کی طرح سوئے ہوئے ہیں' یعنی کسی زمانے سندھ میں قحط پڑا تھا اور لوگ بھوک سے مر رہے تھے، بھٹائی بادل سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ بارش ہونے سے لوگوں میں زندگی کی سرگرمیاں شروع ہونگی۔ اسی طرح جھوگ، بھمبھور، سندھ میں صوفی عنایت اللہ فقیر گذرے ہیں۔

جنھوں نے سندھ میں پہلی اشتراکی بستی بنائی تھی، انھیں ایرانی بادشاہ کے حکم پر خراسان کے گورنر نے دھوکا دیکر گرفتار کیا اور قتل کر دیا، ہرچندکہ وہ اپنے مریدین کیسا تھ ملکر چھ ماہ تک حکمرانوں کے خلاف شب خون مارتے رہے (یعنی گوریلا وار کرتے رہے) جب کہ موئن جوداڑو، نال، ہڑپہ اور ٹیکسلا میں ہزاروں برس قبل کمیون نظام قائم رہا یعنی سب ملکر پیداوار کرتے تھے اور مل کر بانٹ لیتے تھے۔ کوئی ارب پتی تھا اور نہ کوئی گداگر۔ ایک آزاد امداد باہمی کا سماج قائم تھا۔ مستقبل میں ایسا ہی آزاد غیرطبقاتی نظام ہی عوام کے مسائل کا واحد حل ہے۔
Load Next Story