نئی ادبی تحریک کی ضرورت
جس طرح تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بہ حیثیت انسان ہم نے اپنا سفر کہاں سے شروع کیا اور اس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں۔
ایک مرتبہ کسی یورپی ملک کا ایک سفارتکار پاکستان آیا، ان کے اعزاز میں ایوان صدر میں ڈنر رکھا گیا، سابق صدر اسکندر مرزا مہمان کو ساتھ لے کر چلتے چلتے جوش ملیح آبادی کے قریب آئے اور مہمانوں سے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا ان سے ملیے یہ اردو کے بہت بڑے شاعر ہیں۔ وہ بولا۔ '' آ ! میں سمجھ گیا آپ ہی مسٹر غالب ہیں۔'' بعض نے شاہد احمد دہلوی کے حوالہ سے کہا کہ وہ روسی سفیر تھے۔
آپ شاید اسے ایک لطیفہ سمجھیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد ایسی ہے جب ان سے ادب کے حوالے سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو وہ عموماً ایسے ہی تاثرات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بات کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ادب سے واجبی سی دلچسپی رکھنے والے حضرات بھی یہ بتانے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ادب کیا ہے اور ایک ادیب کیا فریضہ انجام دیتا ہے۔
جس طرح تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بہ حیثیت انسان ہم نے اپنا سفر کہاں سے شروع کیا اور اس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں، نفسیات ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کیا سوچتے ہیں اورکیوں فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کس طرح سوچنا چاہیے، سائنس سوال اٹھاتی ہے اور انسان میں تجسس کا عناصر پیدا کرتی ہے۔ اس کی مدد سے انسان نامعلوم سے معلوم کی طرف سفرکرتا ہے۔ عمرانی علوم انسان میں سماجی شعور پیدا کرتے ہیں۔ اپنا اور دوسروں کے حالات کا صحیح طور پر اندازہ اور ان کی خوبیوں اور خامیوں سے صحیح واقفیت کا عمل بصیرت کہلاتا ہے یہ بصیرت انسان میں علم سیاست کے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے۔ مذہب زندگی میں معنی پیدا کرتا ہے اور انسان کو یقین کی قوت عطا کرکے اسے فکری انتشار سے محفوظ کرتا ہے۔
اسی طرح ادب انسان میں احساس کی قوت کو اجاگر احساس کا شعور عطا کرتا ہے۔ ایک اچھا معیشت دان آپ کو بہترین معاشی پالیسی اور پلان تیار کرکے دے سکتا ہے لیکن غربا کے ساتھ ہمدردی کا احساس اپنی کہانیوں، افسانوں، ڈراموں کے ذریعے ایک ادیب ہی پیدا کرسکتا ہے۔ ایک اچھا فوجی جنرل کامیابی سے دشمن سے لڑنے کے لیے بہترین حکمت عملی واضح کرسکتا ہے لیکن فوج سے لڑنے کے جذبات وطن سے جانثاری کا جذبہ اپنے قومی نظموں اور گیت کے ذریعے ایک ادیب اور شاعر ہی کرسکتا ہے۔
ادبی تحریریں اس لحاظ سے ممتاز اور الگ ہوتی ہیں کہ اس میں بات کو خوبصورت طریقے سے کہنے کا سلیقہ ہوتا ہے جس طرح آواز کی خوبصورتی موسیقی، رنگوں کی خوبصورتی مصوری، جسمانی حرکات کی خوبصورتی رقص کو جنم دیتی ہے اسی طرح الفاظ کی خوبصورتی ادب کو جنم دیتی ہے۔ ایسی تحریریں ہمارے دل میں اتر کر ہمارے باطن کا حصہ بن جاتی ہے اور ہمارے جذبوں کو احساس کی قوت عطا کرتی ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں ادب کی مختلف تحریکوں کا وجود رہا ہے، ادب برائے ادب، ادب برائے زندگی، ادب برائے بندگی، ادب برائے پاکستان یہ تحریکیں اپنی فکری بنیادوں پر وجود میں آئیں، ان تحریکوں میں فکری بنیادوں پر کشمکش اور تصادم بھی رہا۔ وہاں ایک عرصے تک ان کے مابین قلمی جنگ جاری رہی لیکن اس کے باوجود ان تحریکوں نے اپنی فکر کی روشنی میں اپنی ادبی تخلیقات پیش کیں اور معاشرے کو متاثر کیا۔
کوئی بھی نظریاتی تحریک وہ سیاسی ہو یا ادبی اس وقت تک زندہ اور فعال رہتی ہے جب تک وہ اپنے نظریات اور اپنی تخلیقات سے سماج کو متاثر کرتی ہے وہ اپنے نظریات اور اپنی تخلیقات کے حوالے سے معاشرے کو متاثرکرنا بند کردے تو تحریک زوال کا شکار ہوجاتی ہے جب ہماری ادبی تحریکوں نے اپنی تخلیقات دینی بند کردیں تو ان کا وجود ہی ختم ہوگیا۔ ہمارا ادب اس وقت گروہ بندیوں کا شکار ہوکر ''ادب برائے مفاد پرست'' ہوگیا ہے۔ ادب میں کسی نظریے پر ایمان رکھنا بری بات نہیں ہے لیکن جس نظریے پر آپ ایمان رکھتے ہیں، اس نظریے کے خلاف زندگی گزارنا ایک مکروہ عمل ہے ہمارے ادیبوں کے قول و فعل کے اس تضاد نے ہمارے ادب کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اس تضاد کے حوالے سے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ لوگ اپنی تحریروں میں دوسروں کی ذات پر کھل کر تنقید کرتے ہیں اور اپنی ذات کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے ان کی شخصیت کسی دھوبی گھاٹ سے دھل کر صاف و شفاف ہوکر آئی ہے۔
میری ذاتی رائے میں تنقید کا حق اسے ہی حاصل ہونا چاہیے جو اپنی غلطیوں، کوتاہیوں کا بھی برملا اعتراف کرنا جانتا ہو۔ ایک ادیب کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سچائی کے ساتھ لکھی جانیوالی تحریریں ہی دلکش اور پر اثر ہوتی ہیں اور ایسی تحریریں ہی معاشرے میں تبدیلی کا ذریعہ بنتی ہیں۔
ادب کے قاری کی حیثیت سے میں نے یہ بات محسوس کی ہے کہ ہمارا ادب گزشتہ کئی برسوں سے علمی بانجھ پن کا شکار ہے۔ اس علمی بانجھ کے نتیجے میں ادب بے معنی، پھیکا اور اپنی روایات اور سماج سے غیر متعلق ہوگیا ہے ایسے ادب کی تخلیق کا کیا حاصل جو ہماری سوچ کے دھارے کو نہ بدل سکے اور نئے شعور کو عام نہ کرسکے۔
اس وقت ہمارا معاشرہ منفی قدروں میں گھرا ہوا ہے جھوٹ، منافقت، بے ایمانی، مکر و فریب عام ہے ایسے حالات میں ہمارے ادیبوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی ابتری پر غور و فکر کریں اور اسے تبدیل کرنے کی راہیں تلاش کریں اور ان راہوں کو اپنی خوبصورت زبان، محاورات، استعاروں، تشبیہوں اور علامات کے ذریعے اپنی کہانیوں، ناول، افسانوں، ڈراموں، نظموں اور گیتوں کے ذریعے سچائی کے ساتھ عوام الناس کے سامنے پیش کریں اور ان کی امکاں کی قوت کو جگائیں۔
قومی زندگی میں ایسے مراحل آتے ہیں جب ادیب اور دانشوروں کو معاشرے کو تبدیل کرنے کا تاریخ ساز کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے بقول ادیب کہ ''جب آدمی دوسروں سے لڑتا ہے تو سیاستدان کہلاتا ہے لیکن جب اپنے آپ سے لڑتا ہے تو ادیب بن جاتا ہے۔ لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور کوئلہ راکھ لیکن کوئلے کی اندر کی آگ باہر کی آگ سے زیادہ تیز ہو تو پھر کوئلہ راکھ نہیں ہیرا بن جاتا ہے۔ اپنے اندر کی آگ میں اضافہ کیجیے، خود سے لڑیے اور معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کیجیے۔ بقول ایک ادیب کے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم خوانچے والے تک میں شعور کو بیدار کردیں۔ بیشک وہ خوانچہ ہی لگاتا رہے مالی اعتبار سے دولت مند نہ ہو سکے لیکن کم از کم شعور کے اعتبار سے دولت مند ہوجائے۔
جو لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ ادب سے انقلاب نہیں آتا انھیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ادب سے انقلاب نہیں آتا لیکن ادب انقلاب کی بصیرت پیدا کرتا ہے اگر آپ کو یقین نہ آئے تو انقلاب فرانس کا مطالعہ کرلیجیے جس نے پورے یورپ کو متاثر کیا۔ اس انقلاب میں ''روسو'' نے انقلاب کی بصیرت پیدا کی اور نپولین نے اسے عملی شکل عطا کی اس لیے کہتے ہیں کہ ''روسو نہ ہوتا تو نپولین بھی نہ ہوتا۔'' اس لیے مایوسی کا شکار نہ ہوں یاد رکھیں کہ دانشوروں کی باتیں قبول نہ بھی کی جائیں تب بھی ان پر غور ضرور کیا جاتا ہے۔ اس غور کے نتیجے میں عام لوگوں کے انداز فکر میں تبدیلی ضرور آتی ہے یہ ایک بڑی کامیابی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔