شعبہ تعلیم اور میرا خواب

حکومت سرکاری اسکولوں کی نگرانی کا ایک آزادانہ نظام مرتب کرے اور قوانین کی خلاف ورزی کرنیوالوں کے خلاف سخت کاروائی کرے۔

حکومت کو چاہیے کہ طالبعلموں کی حفاظت کی حفاظت تک تعلیمی اداروں کو بند رکھا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے ۔ کیونکہ تعلیم کا حرج ہر گز بھی ایک زندگی کے ضیاع سے اہم نہیں ہے۔ فوٹو: فائل

آرمی پبلک سکول پشاور پر گزشتہ ماہ ہونے والے سفاکانہ حملے نے پاکستانی سیاست کے ساتھ ساتھ تعلیم کا منظر نامہ بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔

اس اندوہناک سانحے سے پہلے تقریباًہر والدین کی ترجیح اپنی اولاد کی بہتر تعلیم ہی تھی اور یقیناًاب بھی ہو گی، مگر اب اکثر والدین سیکورٹی کی موجودہ صورتحال کے پیشِ نظراپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے گھبرا رہے ہیں۔ جس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کل جب تقریباً ایک ماہ کی چھٹیوں کے بعد اسکول دوبارہ کھولے گئے تو بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو گھر چھوڑ کر خود تعلیمی اداروں کا رُخ کیا تا کہ سیکورٹی کے انتظامات کا اپنی آنکھوں سے جائزہ لے سکیں، کچھ والدین ان انتظامات سے مطمئن نظر آئے تو کچھ کو تحفظات بھی تھے۔ حکومت نے بھی ان انتظامات کی خود نگرانی کی اور دی گئی ہدایات پر عمل نہ کرنے والے تعلیمی اداروں کوحفاظتی انتطامات کے مکمل ہونے تک بند کر دیے جانے کی ہدایات جاری کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بیشتر تعلیمی ادارے اب بھی بند ہیں۔

ہمارے ہاں ہمیشہ سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو سرکاری سکولوں پر ترجیح دی جاتی رہی ہے، مگرشاید یہ پہلا موقع ہے کہ اپنے بچوں کو اپنی کم آمدنی کی وجہ سے سرکاری سکولوں میں پڑھانے والے والدین نجی اسکولوں میں پڑھانے والے والدین کی نسبت سیکورٹی انتظامات سے زیادہ مطمئن نظر آ رہے ہیں۔ مختلف شہروں کی پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشنز بھی یہ شکوہ کرتی نظر آ رہی ہیں کہ حکومت صرف سرکاری اسکولوں کی سیکورٹی بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے مگرپرائیویٹ اسکولوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہےاور ساتھ میں حکم نامہ بھی جاری کردیا گیا ہے کہ تمام تر حفاظتی انتظامات کی تکمیل تک یہ ادارے بند ہی رہیں گے جس سے بچوں کی تعلیم کا بہت حرج ہو رہا ہے۔ ان ایسوسی ایشنز کا مطالبہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کی طرح پرائیویٹ اسکولوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے اور حکومت ہی اِن انتظامات کے لیے فنڈ جاری کرے۔

اگر تصویر کا ایک رُخ دیکھا جائے تو پرائیویٹ اسکولز اسوسی ایشنز کا یہ مطالبہ کہ پرائیویٹ اسکولوں کے حفاظتی انتظامات کی ذمہ داری بھی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے اور حکومتی خرچ سے ہی ملک بھرکے پرائیویٹ اسکولوں میں سیکورٹی انتظامات مکمل کیے جانے چاہیں بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ حکومتی غفلت کا ہی نتیجہ ہے کہ سرکاری اسکولوں پر سے والدین کا اعتبار تقریباً ختم ہو گیا ہے اور وہ اپنے بچوں کو بھاری بھاری فیسیں ادا کر کے پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان بھر کے سرکاری سکولوں کی ایک کثیر تعداد تعلیم کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، کہیں اساتذہ کی کمی کا شکوہ ہے تو کہیں کمرے پورے نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو سردی گرمی کھلے آسمان تلے بیٹھ کر پڑھنا پڑتا ہے۔ کسی اسکول میں کمپیوٹر کو نصاب کا حصّہ تو بنا دیا گیا ہے مگر ابھی تک کمپیوٹر لیب کا قیام ممکن نہیں ہو سکا اورنہ جانے کتنے ہی اسکول ایسے بھی ہیں کہ جہاں سائنس کے مظامین بھی آرٹس کے اساتذہ سے پڑھائے جاتے ہیں۔ کہیں صاف پانی نہیں تو کہیں ابھی تک واش روم نہیں بنوائے جا سکے ہیں۔

حکومت سرکاری اسکولوں کو فنڈز تو فراہم کرتی ہے مگربعد میں ان فنڈز کے استعمال ہونے اور نہ ہونے کی جانچ نہیں کرتی، یہاں تک کہ سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کئی دوسرے اداروں کی نسبت زیادہ تنخواہ وصول کرتے ہیں مگر نتائج پھر بھی مایوس کُن ہیں۔ ملک بھر میں قائم کئی سرکاری اسکول تو صرف سرکاری کاغذات کی حد تک ہی قائم ہیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ اسکول فنڈز بھی لیتے ہیں اور ان جعلی اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ ہر ماہ اپنی تنخواہ بھی باقاعدگی سے وصول کرتے ہیں۔ مگر جن اسکولوں میں بچے باقاعدگی سے حاضر ہوتے ہیں وہاں پر بھی اکثر اساتذہ کرام صرف حاضری کی تنخواہ ہی وصول کرتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں اپنے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھانا والدین کی ترجیح کے ساتھ ساتھ مجبوری بھی معلوم ہوتی ہے۔


اب یہاں تصویر کا دوسرا رُخ دیکھتے ہیں، تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان بھی کوئی دودھ کے دُھلے نہیں ہیں، یہ ہمارے لیے انتہائی شرم کی بات ہے کہ پاکستان میں تعلیم ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیارکرچکی ہے اور بہت سے لوگ صرف دولت کے حصول کے لیے اس ''صنعت'' میں پیسہ لگا رہے ہیں۔

اگر آپ ان سکولوں کے اشتہارات دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ آپ کا بچہ جس اسکول میں پڑھنے جا رہا ہے وہاں نرسری سے دسویں تک کی کلاسز، کشادہ کمرے ، کھیلنے کے لیے گراؤنڈ، سائنس لیب، لائیبریری، ماہر اساتذہ اور دیگرسہولیات موجود ہیں، مگر جب آپ سکول میں داخل ہوتے ہیں تو وہ مین گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے اور آپ حیران رہ جاتے ہیں کہ پانچ مرلہ میں قائم یہ اسکول اتنی ساری سہولیات کیسے فراہم کرسکتا ہے، قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ آپ کو ان تمام سہولیات کی فیس ادا کرنا ہوگی ورنہ آپ کے بچے کا نام خارج کر دیا جائے گا اور آپ کو جرمانہ ادا کرکے اسیا سکول میں دوبارہ داخل کرانا پڑے گا۔

اعداوشمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً ڈیڑھ لاکھ پرائیویٹ اسکول موجود ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ صرف اعداوشمار کی حد تک ہی ہے ورنہ پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد اس اندازے سے کئی گُنا زیادہ ہے۔ آپ اپنے محلے میں ہی نظر دوڑائیں تو آپ کو ایک گلی میں ہی چار چار سکول نظر آ جائیں گے اور وہ بھی''تمام تر سہولیات ''سے آراستہ، جہاں ایک بچے کی فیس اکثر ایک ٹیچر کی تنخواہ سے زیادہ ہوتی ہے، اور حد تو یہ ہے کہ بعض جگہوں پر تو آپ کو ایک ہی منزل میں دو دو سکول بھی نظر آئیں گے۔ پانچوں اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں اور میں بھی یہاں تما م پرائیویٹ اسکولوں کے حالات بیان نہیں کر رہا مگر اکثریت ایسے پرائیویٹ سکولوں کی ہی ہے جہاں صرف تعلیم کو دولت کے حصول کے لیے ہی استعمال کیا جا رہا ہےاور یہ ایک شرمناک اَمر ہے۔

پہلے کی بات اور تھی مگر اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔ اب مسئلہ ملک کی موجودہ تشویشناک صورتحال کاہے اور سانحہ پشاور سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ دہشت گرد ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ لہذا میری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کو طالبعلموں کی حفاظت کے لیے ہدایت کردہ اقدامات کرنے کا پابند بنائے ۔ حفاظتی انتظامات کی تکمیل تک ان اداروں کو بند رکھا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے ۔ کیونکہ تعلیم کا حرج ہر گز بھی ایک زندگی کے ضیاع سے اہم نہیں ہے۔

اور حکومت کو چاہیے کہ سرکاری اسکولوں کی نگرانی کا ایک آزادانہ نظام مرتب کرے جواِن اداروں میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر نظر رکھے اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرےتاکہ عوام کا اعتبار سرکاری اسکولوں پر بحال ہو اور انہیں اس مہنگائی کے دور میں ناقص تعلیمی اداروں کے فریب میں آکر بھاری بھاری فیسیں ادا کرنے سے نجات مل سکے۔ ملک بھر میں قائم سرکاری اسکول صرف حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں ورنہ یہ ادارے بھی کسی سے کم نہیں۔ پاکستان کے بڑے بڑے سائنسدان، ڈاکٹر، ادیب، صنعتکار، وکلاء اور بہت سے دوسرے انہی اداروں سے ہوتے ہوئے کامیابی کے زینے چڑھے ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنے کا باعث بنے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story