دیسی دہشت گردی
جس لڑکے کے باپ کا تنور ہے وہ رات کو یا تو فلم دیکھتا ہے یا کسی بڑے ریستوران میں دوستوں کے ساتھ چائے وغیرہ پیتا ہے۔
لاہور میونسپل کارپوریشن کا ایک مشہور و معروف ٹرک ہے' ایک مدت سے یہ بازاروں میں دہشت پھیلا رہا ہے۔ ہر ریڑھی چھابڑی والا اسے خوب جانتا ہے جب یہ ٹرک اپنے خونخوار عملے کے ساتھ کسی بازار کا رخ کرتا ہے تو یہ منظر دیکھنے والا ہوتا ہے۔ بازار میں ایک ہلچل اور افراتفری مچ جاتی ہے۔ ریڑھیوں والے اپنی ریڑھیاں بھگا کر چھپنے کی جگہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور چھابڑیوں والے اپنی چھابڑیاں اٹھا کر کونوں کھدروں میں چھپ جاتے ہیں۔
کارپوریشن کا عملہ جو تجاوزات کے خلاف کارروائی کیا کرتا ہے اس ٹرک پر سوار ہو کر کسی مظلوم بازار میں نکل جاتا ہے۔ ریڑھیوں کو اس ٹرک میں ڈال لیتا ہے اور ان سب کو کارپوریشن کے دفتر میں لے جاتا ہے جہاں ان کا اکثر سامان تو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے البتہ کچھ بے کار سامان ریڑھی میں رہنے دیا جاتا ہے تا کہ یہ ثبوت اور نشانی باقی رہے کہ ریڑھی صرف گرفتار کی گئی ہے لوٹی نہیں گئی۔ لٹی پٹی ریڑھی کا مالک دست بستہ کارپوریشن کے متعلقہ عملے کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور ریڑھی کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے یا درخواست کرتا ہے۔ ریڑھی کی بازیابی کے لیے اسے کچھ جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ کارپوریشن کا جرمانہ اور اس دہشت گرد ٹرک والوں کا جرمانہ ادا کرنے کے بعد یہ ریڑھی اسے واپس مل جاتی ہے بھری ہوئی ریڑھی کی جگہ خالی خولی ریڑھی ماتم کرتی اور بین ڈالتی ہوئی۔
کارپوریشن کے اسی دہشت گرد ٹرک نے دو روز پہلے انارکلی بازار کا رخ کیا۔ اس یلغار کے دوران اس نے ایک ریڑھی پر مچھلی بیچنے والے کو پکڑ لیا اور ریڑھی قبضہ میں لے لی۔ بیس سالہ ذیشان نامی ریڑھی بان ان لوگوں کے پاؤں پڑگیا کہ میری ریڑھی واپس کر دیں جو میرے گھر کی روزی کا واحد سہارا ہے لیکن بتایا گیا ہے کہ ٹرک والوں نے اس سے مفت میں مچھلی مانگی جو وہ مفت میں نہیں دے سکتا تھا۔ مچھلی کارپوریشن والوں کو دے دیتا تو گھر والوں کو کیا دیتا جو اس کے انتظار میں تھے۔
بہت منت سماجت کے بعد بھی جب کارپوریشن والے نہ مانے تو اس نے اس کا بدلہ اپنی جان سے لے لیا اور اپنے آپ کو آگ لگا لی اب وہ شدید زخمی حالت میں اسپتال میں ہے اور اس کے گھر والے نہ جانے کس طرح اس کا علاج کرا رہے ہیں۔ اول تو اس جلے ہوئے مزدور کا بچ جانا ہی آسان نہیں اور اگر بچ بھی گیا تو وہ اس جسم کے ساتھ کس کام کے قابل ہو گا یہ دیکھا جائے گا۔ اس کے علاج کرانے والوں میں اس ٹرک والوں میں سے یقیناً کوئی بھی نہیں ہو گا اور نہ کارپوریشن کے اس عملے کے افسر کو کچھ پروا ہو گی ایسے روز مرہ کے مظالم کی اسے پروا ہو تو وہ پاگل ہو جائے کیونکہ یہ تو ہر روز کا مسئلہ ہے کوئی ریڑھی والا اپنے آپ کو آگ لگا لیتا ہے اور کوئی اندر ہی اندر جلتا رہتا ہے۔
کارپوریشن کا یہ ٹرک بہت پرانی بات ہے جو لاہور کارپوریشن کا ایک ایسا ہتھیار ہے جو غریب غربا پر چلتا رہتا ہے۔ کارپوریشن کے افسروں کو اس کا خوب علم ہے کہ یہ ٹرک کس قدر دہشت پھیلاتا اور ان لوگوں میں جن کی پوری زندگی ہی دہشت زدہ ہوتی ہے۔ روزی کی مسلسل مار سے بڑھ کر دہشت اور کیا ہو گی۔ یہ لوگ دن رات دو وقت کی دال روٹی کے لیے جلتے رہتے ہیں اور آپ کو معلوم ہو کہ اب یہ دال اور روٹی پرانے زمانے والی سستی ترین غذا نہیں رہی اب یہ بھی قسمت والوں اور صاحب حیثیت لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ دال کی قیمت اور روٹی کی قیمت کسی دن بازار سے پوچھ لیں چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
جس لڑکے کے باپ کا تنور ہے وہ رات کو یا تو فلم دیکھتا ہے یا کسی بڑے ریستوران میں دوستوں کے ساتھ چائے وغیرہ پیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دال روٹی ہی سہی کارپوریشن کے جو لوگ غریبوں کو اس سے بھی محروم کرنا چاہتے ہیں وہ کون ہیں کیا وہ دہشت گرد نہیں ہیں۔ دہشت گرد اور کیا کرتے ہیں لوگوں کی جان ہی لیتے ہیں جو ہمارے کارپوریشن والے بھی کرتے ہیں۔ تعجب اس بات پر ہے کہ کارپوریشن کا یہ ٹرک ایک مدت مدیر سے سڑکوں پر سرگرداں ہے ریڑھی والے غریبوں کی تلاش میں اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ اپنی اس تلاش میں ناکام ہوا ہو لیکن کارپوریشن کے کسی افسر یا بڑے کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اسے اس ظلم سے روک سکے۔
سب کچھ اس کے سامنے ہوتا ہے۔ کارپوریشن کے میئر منتخب ہوا کرتے تھے ان کو بھی کسی نے کارپوریشن کے رکن نے یہ نہیں کہا کہ وہ اس ظلم کیطرف بھی توجہ دیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ کارپوریشن کے ٹرک کے عملے کی طرف سے یہ زیادتی اتنی خوفناک ہوتی ہے کہ کوئی اس سے بچنے کے لیے جان بھی دے سکتا ہے جس کی ایک تازہ مثال لاہور کا ایک غریب مسکین بیس سالہ نوجوان ذیشان ہے۔ اس کی ساری زندگی اس کے سامنے تھی نہ جانے اس نوجوان کے کیا کیا منصوبے ہوں کہ جو کارپوریشن کے اس ٹرک نے غارت کر دیے۔
انصاف تو یہ کہتا ہے کہ کارپوریشن کا جو عہدہ دار بھی اس کا اصل ذمے دار ہو اس کو بھی آگ میں جلا کر سزا دی جائے ہمارے ہاں جرائم کی سزا بالعموم جرم کی ہولناکی سے بہت کم ہوتی ہے۔ قاتلوں کو پھانسیاں لگنی اب شروع ہوئی ہیں اور خبر چھپی ہے کہ ایسے سنگین جرائم کم ہو گئے ہیں۔ پہلے تو کسی کی ذرا سی بات پر بھی قتل کر دینا ایک عام سی بات تھا جس کی آخری سزا جیل ہوتی تھی ورنہ مقدمے میں طویل ضمانت ہی سزا سمجھی جاتی تھی اب جس دہشت گردی نے ہماری آنکھیں کھولی ہیں تو ہم نے موت کی سزا بحال کر دی ہے جو اس سے پہلے یورپ کے ملکوں کے حکم پر بند کر دی گئی تھی حالانکہ اسلام میں قتل کی سزا واضح ہے بہر کیف اب ہم نے خوف خدا سے نہیں یورپ والوں کی نافرمانی کا بوجھ برداشت کرنے کی ہمت کر کے قتل کی سزا موت دینی شروع کر دی ہے تو دوسرے جرائم کی سزا بھی ہم اس جرم کے مطابق کیوں نہ دیں۔
ذیشان نے جس کی وجہ سے خود کو موت کی سزا دینی قبول کر لی اسی ذمے دار کو بھی ایسی ہی سزا کیوں نہ دی جائے۔ اگر یہ ہمت کر لی جائے تو جرائم کتنے کم ہوں گے کہ آپ حیران ہوں گے۔ جرم کے مطابق سزا جرم کو روکنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لاہور شہر میں ہر روز کروڑوں کی چوریاں اور ڈاکے پڑتے ہیں مگر ان کے مجرموں کو تلاش بھی نہیں کیا جاتا سزا تو بعد کی بات ہے۔ ہمارے حکمران جن کا عالمی فرض عوام کی جان اور مال کی حفاظت ہے اپنے فرض کی طرف کب متوجہ ہوں گے اس کا جواب کسی عوام کے پاس نہیں ہے یہ دیسی اور مقامی دہشت گردی جاری رہے گی۔