کڑوی گولی
سانحہ پشاور میں معصوم بچوں کی شہادت کے لرزہ خیز واقعے نے تمام سٹیک ہولڈرز کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
آئین اور آرمی ایکٹ میں کی جانے والی حالیہ ترامیم جن کا بنیادی مقصد کئی برسوں سے جاری دہشت گردی پر قابو پانے کا کوئی مضبوط اور مؤثر راستہ تلاش کرنا ہے بالآخر منظور کرلی گئی ہیں۔ انھیں اس حد تک تو متفقہ کہا جا سکتا ہے کہ جن جن ارکان اسمبلی اور سیاسی جماعتوں نے اس عمل میں حصہ لیا ان سب نے اس کی حمایت میں ووٹ ڈالے مگر یہ بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ مختلف وجوہ کی بنا پر تحریک انصاف، جے یو آئی، شیخ رشید اور جماعت اسلامی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
یہ بھی نہیں کہ جن حضرات نے اس کے حق میں ووٹ ڈالے وہ سب کے سب اپنے اس اقدام سے خوش یا مطمئن تھے بلکہ رضا ربانی نے تو اسے اپنے ضمیر کے خلاف فیصلے سے تعبیر کیا ہے۔ ان حالات میں اگر اس فیصلے کو ایک کڑوی گولی سے تشبیہ دی جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہوگا۔
وطن عزیز کی تاریخ میں فوج کا رول بوجوہ شروع دن سے ہی بہت اہم رہا ہے کہ آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی مہاجرین اور فسادات کے مارے ہوئے لوگوں کی حفاظت اور بحالی کا کام اس کے ذمے آپڑا جب کہ اس وقت تک اس کی اپنی حالت بھی مہاجرین جیسی تھی کہ ابھی تک بہت سے فوجی باقاعدہ طور پر حکومت پاکستان کی نئی فوج کا حصہ نہیں بن پائے تھے اور ان کا بیشتر اسلحہ بارود بھی بھارت اور لارڈ مونٹ بیٹن کی تحویل میں تھا نیز یہ کہ جوانوں اور نان کمشنڈ آفیسرز کی حد تک تو فوج میں ان کی تعداد اچھی خاصی تھی لیکن میجر سے اوپر رینک کے بہت کم افسران اس کے حصے میں آئے تھے۔
انگریز افسر جنرل گریسی اس کا سربراہ تھا جو گورنر جنرل پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے زیادہ برٹش کمانڈر ان چیف جنرل آکن میک اور انگریز سرکار کے آخری وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن کا ماتحت اور فرمانبردار تھا۔ اس وقت کشمیر کی جنگ اور قائد کی بگڑتی ہوئی صحت کے باعث پاک فوج کو اپنی نئی شکل متعین کرنے میں جو وقت لگا اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سیاستدانوں کی ناتجربہ کاری اور ملک کو درپیش مسائل کی وجہ سے چند سینئر فوجی افسران نے وہ رول اپنانا شروع کردیا جو اصل میں ان کا کام نہیں تھا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قائد کی وفات کے چند برس بعد ہی نہ صرف پنڈی سازش کیس جیسے معاملات سامنے آئے بلکہ ایوب خان بیک وقت کمانڈر انچیف اور وزیر دفاع بھی بن گئے جو اپنی جگہ پر ایک مضحک صورت حال تھی۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ بعض شواہد کے مطابق 1948کے ابتدائی دنوں میں قائد نے جنرل ایوب خان کی فائل پر منفی نوعیت کے احکامات جاری کرتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا کہ اس شخص کو ایک سال تک ترقی نہ دی جائے کیونکہ یہ فوجی سے زیادہ سیاسی معاملات میں دلچسپی لیتا ہے۔آگے چل کر قائد کی یہ بات کس قدر درست ثابت ہوئی اس سے پوری دنیا آگاہ ہے۔
27 اکتوبر 1958 کو ایوب خان نے اسکندر مرزا کو برطرف کرکے ملک میں پہلا مارشل لاء لگا دیا اور اگرچہ ان کے دور میں ملک کی ترقی کے حوالے سے کچھ بہت اہم اچھے اور دور رس فیصلے بھی ہوئے لیکن یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ اس سے ملکی معاملات میں فوج کی دراندازی کا راستہ کھل گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری فوج اپنے ڈسپلن اور کارکردگی کی وجہ سے دنیا کی بہترین فوجوں میں شمار ہونے لگی اور اگرچہ چند طالع آزما جرنیلوں کے عائد کردہ مارشل لاؤں کی وجہ سے ہمیں بطور ایک سیاسی معاشرہ بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا مگر عمومی طور پر ہماری فوج کی کارکردگی انتہائی شاندار اور قابل فخر رہی اور اس نے پیشہ ورانہ معیار اور مہارت کا ایسا مظاہرہ کیا جو ہم سب کے لیے قابل فخر ہے۔ ہم اپنی 67 سالہ مختصر تاریخ میں تین فوجی انقلاب بھگت چکے ہیں جن کا مجموعی دورانیہ تقریباً 34 برس بنتا ہے۔
یعنی نصف سے بھی کچھ زیادہ۔ انھی ادوار میں ہمیں 71,65 اور کارگل کی جنگوں سے گزرنا پڑا جس کی وجہ سے سیاسی، معاشی، تہذیبی اور بین الاقوامی سطح پر ہمارا معاشرہ کمزور تر ہوتا چلا گیا۔ اس انتشار کا سب سے خطرناک روپ جنرل ضیاء الحق کے دور میں سامنے آیا کہ جہاں ملک کے اندر فرقہ پرستی، عدم برداشت، تنگ نظری، منشیات اور اسلحے کو فروغ ملا وہاں ہماری سرحدوں پر روس اور امریکا کی ایک ایسی پراکسی وار شروع ہوگئی جس میں اندھا دھند ملوث ہونے کی وجہ سے ہم دہشت گردی کے ایک ایسے جال میں الجھ گئے جس نے کئی علاقوں میں حکومت کی رٹ ہی نہ صرف خطرے میں ڈال دی بلکہ ہمیں اندر سے اس قدر خوف زدہ اور بے سمت کردیا کہ ہم نے اچھے اور برے دہشت گردوں کے خانے بنانے شروع کردیے۔ قانون انھیں پکڑنے اور سزا دینے سے ہچکچانے لگا اور دن دہاڑے جیلیں ٹوٹنے لگیں۔
یہ سلسلہ شائد ابھی کچھ دیر اور چلتا مگر سانحہ پشاور میں معصوم بچوں کی شہادت کے لرزہ خیز واقعے نے تمام سٹیک ہولڈرز کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور 65 کی جنگ کے دنوں کے بعد پہلی بار پوری قوم کسی مسئلہ پر یک دل اور یک زبان نظر آئی۔6 جنوری 2015 کو پاس ہونے والا یہ بل اصل میں اسی بیداری اور یکجائی کا ایک ردعمل ہے جس کا مقصد دہشت گردی اور دہشت گردوں، دونوں کو مستقل بنیادوں پر ختم کرنا ہے۔ پتہ چلا کہ اب یہ انفیکشن ہمارے پورے قومی وجود کو اپنے حصار میں لے چکی ہے اور اس کی تباہ کاری کا کچھ حصہ ایسا ہے جس کا علاج صرف سرجری ہے کہ جب تک کچھ ناقابل علاج حصوں کو کاٹ کر علاحدہ نہیں کیا جائے گا۔
اس انفیکشن کو بڑھنے سے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ مزید تفتیش پر پتہ چلا کہ ہمارے موجودہ عدالتی نظام، امن وامان کی ذمے دار ایجنسیوں اور کچھ بیرونی عوامل کی دراندازی کی پیدا کردہ خرابیوں نے معاملات کو کچھ اس طرح بگاڑ دیا ہے کہ ایک انگریزی محاورے کے مطابق اب اس کا حل آؤٹ آف دی باکس (Out of the Box) سوچنے سے ہی نکل سکتا ہے اس طرح کی سوچ کا ایک پہلو اجتہادی ہوتا ہے اور دوسرا مجبوری کا شاخسانہ۔ سو اگر رضا ربانی صاحب نے اپنا ووٹ فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں ڈالتے وقت اسے ذاتی سطح پر اپنے ضمیر کے خلاف فیصلے سے تعبیر کیا ہے تو یہ کوئی ایسی غلط بات نہیں کہ کوئی بھی آئین اور قانون کی پاسداری کا حامی اس طرح کا فیصلہ مجبوری کی حالت میں ہی کرسکتا ہے۔
دینی حوالے سے اسے سخت مجبوری کے عالم میں حرام قرار دی گئی چیزوں کو حلال کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت سے بھی تشبیہ دی جاسکتی ہے جہاں تک جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کے تحفظات کا تعلق ہے تو ان کی نوعیت اور وجوہات کو سمجھنا اور ان کے جائز تحفظات کا احترام کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ یہ نہ دیکھو کون کہتا ہے یہ دیکھو کہ کیا کہتا ہے۔میری ذاتی رائے میں بعض دینی مدارس اور کچھ مذہبی تنظیمیں کسی حد تک تو ان دہشت گردوں کی نرسریاں ہوسکتی ہیں لیکن سارے کا سارا ملبہ ان پر ڈال دینا بھی درست نہیں۔
بھارت کی ریشہ دوانیوں اور تحریک طالبان پاکستان اور اس کے بعض گروہوں کے سپانسرز کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں ان غیر ملکی جہادیوں کے مسئلے کو بھی سنجیدگی اور توجہ سے دیکھنا اور سمجھنا چاہیے جنھیں امریکا بہادر نے افغان جنگ کے دوران مجاہدین کا رتبہ عطا کیا تھا اور ان کو کھلے دل سے ڈالر اور جنگی ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ ان لوگوں کے پاس اب اپنے ملکوں کی شہریت بھی نہیں رہی اور ان میں سے بیشتر کو بندوق چلانے کے علاوہ کوئی کام بھی نہیں آتا۔ سوجب تک یہ پاکستان یا اس سے ملحقہ علاقوں میں رہیں گے، دہشت گردی کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکے گی۔
اب یا تو سیاسی اور سفارتی سطح پر ان لوگوں کو ان کے ممالک میں واپس بھجوانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں جن سے ان کا تعلق ہے یا کوئی ایسا طریقہ وضع کیا جائے کہ یہ لوگ ہتھیار ڈالنے کے بعد کسی نہ کسی طرح سے پر امن زندگی گزار سکیں۔ جہاں تک بھارت اور بالخصوص اس کی موجودہ مودی مارکہ حکومت کا تعلق ہے تو ان سے بھی فوجی، سیاسی اور سفارتی تینوں سطحوں پر بات چیت اور مقابلے کی ضرورت ہے۔ اگر ان فوجی عدالتوں نے وہ کام پوری ہوش مندی اور تیزی سے سرانجام دیا جس کے لیے ان کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تو اس سے نہ صرف بھارت کے عزائم کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی بلکہ اسے اپنے رویے میں بھی تبدیلی پیدا کرنا پڑے گی۔ اندریں حالات ان عدالتوں کو ایک ایسی کڑوی گولی سمجھنا وقت کی ضرورت ہے کہ شفا کے حصول کے لیے کچھ نہ کچھ قربانی تو دینا پڑتی ہے۔
یہ بھی نہیں کہ جن حضرات نے اس کے حق میں ووٹ ڈالے وہ سب کے سب اپنے اس اقدام سے خوش یا مطمئن تھے بلکہ رضا ربانی نے تو اسے اپنے ضمیر کے خلاف فیصلے سے تعبیر کیا ہے۔ ان حالات میں اگر اس فیصلے کو ایک کڑوی گولی سے تشبیہ دی جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہوگا۔
وطن عزیز کی تاریخ میں فوج کا رول بوجوہ شروع دن سے ہی بہت اہم رہا ہے کہ آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی مہاجرین اور فسادات کے مارے ہوئے لوگوں کی حفاظت اور بحالی کا کام اس کے ذمے آپڑا جب کہ اس وقت تک اس کی اپنی حالت بھی مہاجرین جیسی تھی کہ ابھی تک بہت سے فوجی باقاعدہ طور پر حکومت پاکستان کی نئی فوج کا حصہ نہیں بن پائے تھے اور ان کا بیشتر اسلحہ بارود بھی بھارت اور لارڈ مونٹ بیٹن کی تحویل میں تھا نیز یہ کہ جوانوں اور نان کمشنڈ آفیسرز کی حد تک تو فوج میں ان کی تعداد اچھی خاصی تھی لیکن میجر سے اوپر رینک کے بہت کم افسران اس کے حصے میں آئے تھے۔
انگریز افسر جنرل گریسی اس کا سربراہ تھا جو گورنر جنرل پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے زیادہ برٹش کمانڈر ان چیف جنرل آکن میک اور انگریز سرکار کے آخری وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن کا ماتحت اور فرمانبردار تھا۔ اس وقت کشمیر کی جنگ اور قائد کی بگڑتی ہوئی صحت کے باعث پاک فوج کو اپنی نئی شکل متعین کرنے میں جو وقت لگا اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سیاستدانوں کی ناتجربہ کاری اور ملک کو درپیش مسائل کی وجہ سے چند سینئر فوجی افسران نے وہ رول اپنانا شروع کردیا جو اصل میں ان کا کام نہیں تھا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قائد کی وفات کے چند برس بعد ہی نہ صرف پنڈی سازش کیس جیسے معاملات سامنے آئے بلکہ ایوب خان بیک وقت کمانڈر انچیف اور وزیر دفاع بھی بن گئے جو اپنی جگہ پر ایک مضحک صورت حال تھی۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ بعض شواہد کے مطابق 1948کے ابتدائی دنوں میں قائد نے جنرل ایوب خان کی فائل پر منفی نوعیت کے احکامات جاری کرتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا کہ اس شخص کو ایک سال تک ترقی نہ دی جائے کیونکہ یہ فوجی سے زیادہ سیاسی معاملات میں دلچسپی لیتا ہے۔آگے چل کر قائد کی یہ بات کس قدر درست ثابت ہوئی اس سے پوری دنیا آگاہ ہے۔
27 اکتوبر 1958 کو ایوب خان نے اسکندر مرزا کو برطرف کرکے ملک میں پہلا مارشل لاء لگا دیا اور اگرچہ ان کے دور میں ملک کی ترقی کے حوالے سے کچھ بہت اہم اچھے اور دور رس فیصلے بھی ہوئے لیکن یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ اس سے ملکی معاملات میں فوج کی دراندازی کا راستہ کھل گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری فوج اپنے ڈسپلن اور کارکردگی کی وجہ سے دنیا کی بہترین فوجوں میں شمار ہونے لگی اور اگرچہ چند طالع آزما جرنیلوں کے عائد کردہ مارشل لاؤں کی وجہ سے ہمیں بطور ایک سیاسی معاشرہ بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا مگر عمومی طور پر ہماری فوج کی کارکردگی انتہائی شاندار اور قابل فخر رہی اور اس نے پیشہ ورانہ معیار اور مہارت کا ایسا مظاہرہ کیا جو ہم سب کے لیے قابل فخر ہے۔ ہم اپنی 67 سالہ مختصر تاریخ میں تین فوجی انقلاب بھگت چکے ہیں جن کا مجموعی دورانیہ تقریباً 34 برس بنتا ہے۔
یعنی نصف سے بھی کچھ زیادہ۔ انھی ادوار میں ہمیں 71,65 اور کارگل کی جنگوں سے گزرنا پڑا جس کی وجہ سے سیاسی، معاشی، تہذیبی اور بین الاقوامی سطح پر ہمارا معاشرہ کمزور تر ہوتا چلا گیا۔ اس انتشار کا سب سے خطرناک روپ جنرل ضیاء الحق کے دور میں سامنے آیا کہ جہاں ملک کے اندر فرقہ پرستی، عدم برداشت، تنگ نظری، منشیات اور اسلحے کو فروغ ملا وہاں ہماری سرحدوں پر روس اور امریکا کی ایک ایسی پراکسی وار شروع ہوگئی جس میں اندھا دھند ملوث ہونے کی وجہ سے ہم دہشت گردی کے ایک ایسے جال میں الجھ گئے جس نے کئی علاقوں میں حکومت کی رٹ ہی نہ صرف خطرے میں ڈال دی بلکہ ہمیں اندر سے اس قدر خوف زدہ اور بے سمت کردیا کہ ہم نے اچھے اور برے دہشت گردوں کے خانے بنانے شروع کردیے۔ قانون انھیں پکڑنے اور سزا دینے سے ہچکچانے لگا اور دن دہاڑے جیلیں ٹوٹنے لگیں۔
یہ سلسلہ شائد ابھی کچھ دیر اور چلتا مگر سانحہ پشاور میں معصوم بچوں کی شہادت کے لرزہ خیز واقعے نے تمام سٹیک ہولڈرز کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور 65 کی جنگ کے دنوں کے بعد پہلی بار پوری قوم کسی مسئلہ پر یک دل اور یک زبان نظر آئی۔6 جنوری 2015 کو پاس ہونے والا یہ بل اصل میں اسی بیداری اور یکجائی کا ایک ردعمل ہے جس کا مقصد دہشت گردی اور دہشت گردوں، دونوں کو مستقل بنیادوں پر ختم کرنا ہے۔ پتہ چلا کہ اب یہ انفیکشن ہمارے پورے قومی وجود کو اپنے حصار میں لے چکی ہے اور اس کی تباہ کاری کا کچھ حصہ ایسا ہے جس کا علاج صرف سرجری ہے کہ جب تک کچھ ناقابل علاج حصوں کو کاٹ کر علاحدہ نہیں کیا جائے گا۔
اس انفیکشن کو بڑھنے سے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ مزید تفتیش پر پتہ چلا کہ ہمارے موجودہ عدالتی نظام، امن وامان کی ذمے دار ایجنسیوں اور کچھ بیرونی عوامل کی دراندازی کی پیدا کردہ خرابیوں نے معاملات کو کچھ اس طرح بگاڑ دیا ہے کہ ایک انگریزی محاورے کے مطابق اب اس کا حل آؤٹ آف دی باکس (Out of the Box) سوچنے سے ہی نکل سکتا ہے اس طرح کی سوچ کا ایک پہلو اجتہادی ہوتا ہے اور دوسرا مجبوری کا شاخسانہ۔ سو اگر رضا ربانی صاحب نے اپنا ووٹ فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں ڈالتے وقت اسے ذاتی سطح پر اپنے ضمیر کے خلاف فیصلے سے تعبیر کیا ہے تو یہ کوئی ایسی غلط بات نہیں کہ کوئی بھی آئین اور قانون کی پاسداری کا حامی اس طرح کا فیصلہ مجبوری کی حالت میں ہی کرسکتا ہے۔
دینی حوالے سے اسے سخت مجبوری کے عالم میں حرام قرار دی گئی چیزوں کو حلال کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت سے بھی تشبیہ دی جاسکتی ہے جہاں تک جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کے تحفظات کا تعلق ہے تو ان کی نوعیت اور وجوہات کو سمجھنا اور ان کے جائز تحفظات کا احترام کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ یہ نہ دیکھو کون کہتا ہے یہ دیکھو کہ کیا کہتا ہے۔میری ذاتی رائے میں بعض دینی مدارس اور کچھ مذہبی تنظیمیں کسی حد تک تو ان دہشت گردوں کی نرسریاں ہوسکتی ہیں لیکن سارے کا سارا ملبہ ان پر ڈال دینا بھی درست نہیں۔
بھارت کی ریشہ دوانیوں اور تحریک طالبان پاکستان اور اس کے بعض گروہوں کے سپانسرز کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں ان غیر ملکی جہادیوں کے مسئلے کو بھی سنجیدگی اور توجہ سے دیکھنا اور سمجھنا چاہیے جنھیں امریکا بہادر نے افغان جنگ کے دوران مجاہدین کا رتبہ عطا کیا تھا اور ان کو کھلے دل سے ڈالر اور جنگی ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ ان لوگوں کے پاس اب اپنے ملکوں کی شہریت بھی نہیں رہی اور ان میں سے بیشتر کو بندوق چلانے کے علاوہ کوئی کام بھی نہیں آتا۔ سوجب تک یہ پاکستان یا اس سے ملحقہ علاقوں میں رہیں گے، دہشت گردی کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکے گی۔
اب یا تو سیاسی اور سفارتی سطح پر ان لوگوں کو ان کے ممالک میں واپس بھجوانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں جن سے ان کا تعلق ہے یا کوئی ایسا طریقہ وضع کیا جائے کہ یہ لوگ ہتھیار ڈالنے کے بعد کسی نہ کسی طرح سے پر امن زندگی گزار سکیں۔ جہاں تک بھارت اور بالخصوص اس کی موجودہ مودی مارکہ حکومت کا تعلق ہے تو ان سے بھی فوجی، سیاسی اور سفارتی تینوں سطحوں پر بات چیت اور مقابلے کی ضرورت ہے۔ اگر ان فوجی عدالتوں نے وہ کام پوری ہوش مندی اور تیزی سے سرانجام دیا جس کے لیے ان کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تو اس سے نہ صرف بھارت کے عزائم کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی بلکہ اسے اپنے رویے میں بھی تبدیلی پیدا کرنا پڑے گی۔ اندریں حالات ان عدالتوں کو ایک ایسی کڑوی گولی سمجھنا وقت کی ضرورت ہے کہ شفا کے حصول کے لیے کچھ نہ کچھ قربانی تو دینا پڑتی ہے۔