کیا ہم سب مجرم نہیں
ہم ہمیشہ غلط فیصلہ کرنے میں جلدی کرتے آئے ہیں اور صحیح فیصلہ کر نے میں دیر۔
اس وقت دو راستے ہمارے سامنے ہیں۔ ایک و ہ جو مذہبی انتہاپسندی کی طرف ہم کو لے جاتا ہے اور دوسرا وہ جو عقل کی طرف رہبری کرتا ہے۔ سو اول الذکر کا تجربہ بہت کافی ہو چکا ہے اور ہمیشہ اس کا نتیجہ ایک ہی نکلا ہے۔ فلسطین میں اس کا تجربہ کیا گیا لیکن اہل فلسطین کی مذہبیت ان کو تباہ و برباد ہونے سے نہ بچا سکی وہ مفتوح و مغلوب ہو کر خارج البلد کیے گئے صدیوں تک امداد خداوندی کا انتظار کرتے رہے اور اس توقع پر زندہ رہے کہ خدا انھیں پھر مجتمع کریگا۔
ان کی بستیوں، ان کے معبدوں اور قربان گاہوں کو از سر نو تعمیر کریگا۔ لیکن صدیوں پر صدیاں گزر گئیں اور ان کی یہ تمنا پوری نہ ہو سکی۔ اس کا تجربہ سوئٹزرلینڈ میں کیا گیا وہاں بھی سوا غلامی کے اور کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوا ترقی کی تمام راہیں مسدود کر دی گئیں اور صرف ان لوگوں کو آزادی کے ساتھ بولنے کا حق رہا جو صاحب جاہ و ثروت تھے، عوام سے ان کی معصوم مسرتیں چھین لی گئیں ان کے لیے ہنسنا ممنوع قرار پایا اور سوائے رنج و غلامی کے کچھ نہ ملا۔ ان لوگوں نے اوراد وظائف روزہ صلوۃ و عظ و پند کو بھی آزما کر دیکھ لیا لیکن کوئی چیز انھیں مسرت و راحت سے آشنا نہ کر سکی۔
اسکاٹ لینڈ میں بھی مذہب کا تجر بہ ہوا اور نتیجہ یہ ہوا پادری ہر خاندان میں گھس جاتے تھے اور خو ف و واہمہ پرستی پھیلا پھیلا کر لوگوں کی عقلیں سلب کر رہے تھے، وہ اپنی ہدایات کو الہام ربانی کہتے تھے اور ان سے انحراف کرنے والے کو عذاب خداوندی کا مستوجب قرار دیتے تھے پھر اس مذہبی حکومت میں بھی وہی ہوا جو ہونا چاہیے، انسان کو غلام بنا دیا گیا اور غلامی کے ناقابل برداشت بار سے اس کی پیٹھ جھکی جا رہی تھی۔ انگلستان میں مذہبی حکومت نے جو گل کھلائے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں اسے زمانہ کے قانون اس زمانہ کے اوہا م و تعصبات اس قدر سخت تھے کہ خدا کی پناہ، پادری خدا کے بیٹے بنے ہوئے آسمان و زمین کی ملکیت کا دعویٰ کر رہے تھے۔ بہشت و دوزخ کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں تھیں اور جس کو جہاں جی چاہتا تھا دھکیل دیتے تھے۔ نہ ان کے دلوں میں رحم تھا۔
نہ آنکھوں میں مروت ادنیٰ ادنیٰ سی غلطیوں پر خارج البلد کر دینا۔ کو ڑے لگوانا اور قید و بند میں ڈال دینا معمولی بات تھی۔ ازمنہ مظلومہ میں مذہبی زندگی کا جو نتیجہ ہوا وہ اور زیادہ خلاف انسانیت تھا ہزاروں سولیاں ہر وقت خون سے تر رہتی تھیں اور بے شمار تلواریں انسانی سینے میں پیوست۔ قید خانے کھچا کھچ بھرے رہتے تھے اور سیکڑوں انسان دہکتی ہوئی آگ کے اندر پڑے ہوئے تڑپا کرتے تھے۔ کوئی ظلم ایسا نہ تھا جو خدا کے نام پر روا نہ رکھا گیا ہو اور کوئی معصیت ایسی نہ تھی جس کا ارتکا ب مذہب کے پردہ میں نہ ہوتا ہو۔ الغرض یہ تھا مذہبی انتہاپسند حکومتوں کا رنگ جو اہل مذہب نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔
اب اس کے مقابلے میں اس راستہ کو دیکھو جس کی رہنمائی عقل نے کی ہے کیسا صاف و ہموار راستہ ہے کیسی کھلی ہوئی فضا ہے کیسی پر بہار زمین ہے۔ ہر شخص دوسرے کا بو جھ ہلکا کرنے کی فکر ہے۔ اور ہر دما غ اس فکر میں ہے کہ بنی نو ع انسان کی راحت و مسرت کا سامان بہم پہنچائے۔ نہ وہاں سولیاں ہیں نہ قید خانے نہ جہنم کے اژدہے ہیں نہ فرشتوں کے کوڑے صرف قدرت کی وسیع فضا ہے جس سے ہر شخص یکساں فائدہ اٹھا رہا ہے عقل و فراست کا ایک آفتاب ہے۔ ذہنی آزادی نے مختلف قسم کے چمن کھلا رکھے ہیں اور ہر فرد دوسرے سے ہم آغوش و بغلگیر نظر آتا ہے۔ ہر جگہ امن و سکون ہے اور ہر شخص اپنی زندگی سے مطمئن ہے اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے لیے کو نسے راستے کا انتخاب کرتے ہیں آیا مذہبی انتہاپسندی کا یا عقل و خرد کا غلامی کا یا آزادی کا خو ف اور ڈر اور سزاؤں کا یا مسرت اور خو شیوں کا خوشحالی کا یا بربادی کا۔ ہم نے ہمیشہ ہی فیصلے کرنے میں دیر کی ہے۔
جس کا نتیجہ ہم سب بھگت رہے ہیں ہم ہمیشہ غلط فیصلہ کرنے میں جلدی کرتے آئے ہیں اور صحیح فیصلہ کر نے میں دیر۔ اس لیے ہم قسمت کے نہیں بلکہ نیت کے مارے ہوئے ہیں ڈاکٹر وکٹر فرنیکل اپنی کتاب ''انسان کی تلاش کا مقصد'' میں لکھتا ہے کہ انسان کی تمام تر آزادیاں سلب ہو جانے کے باوجود ایک آزادی ہر حال میں ہمیشہ برقرار رہتی ہے اور وہ ہے اس کی انتخاب کرنے کی آزادی۔ حالات و واقعات خواہ کتنے ہی خراب اور حو صلہ شکن کیوں نہ ہوں ہر شخص اپنا رویہ منتخب کرنے کے لیے آزاد ہے کوئی بھی اس کی سو چ پر پہر ہ نہیں لگا سکتا اس کے خیالات کو گرفتار نہیں کر سکتا خارجی معاملات کو تو آپ کنٹرول نہیں کر سکتے لیکن اس قوت انتخاب پر صرف آپ ہی کا اختیار ہے۔
انتخاب ہمیشہ آپ کا ہی ہوتا ہے جب آپ انتخاب کرنے کا فیصلہ غلط کر بیٹھتے ہیں تو پھر ہم سب اپنی اپنی قسمت اور نصیب کو کوسنے بیٹھ جاتے ہیں ہم سب اپنے آپ کے علاوہ باقی سب کو مورد الزام قرار دینا شروع کر دیتے ہیں۔ آج ہم سب جن عذابوں سے دو چار ہیں کیا وہ عذاب ہمارے اوپر پیرا شوٹ کے ذریعے مسلط کیے گئے ہیں کیا یہ زمین پھاڑ کر نکل آئے ہیں کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم سب پر ان عذابوں کی ذمے داری عائد ہوتی ہے کیا یہ سب عذاب ہمارے اپنے پیدا کردہ نہیں ہیں۔ کیا ہم خود ان کے خالق نہیں ہیں۔ کیا ان عذابوں کو ہم سب نے پال پوس کر بڑا نہیں کیا ہے، کیا انتہاپسند اور نفرت انگیز خیالات کو ہم نے آگے نہیں بڑھایا ہے، کیا انتہاپسند اور نفرت انگیز سوچ و فکر کے خلاف ہماری خا موشی ہمارا جر م نہیں ہے۔ کیوں ہم نے اپنے لیے غلط راستے کا انتخاب کیا کیوں فیصلے کرنے میں دیر کی ہے۔
آئیں ہم تھوڑی دیر کے لیے رک جاتے ہیں۔ اور ساری دنیا کے تمام ممالک اور ان میں بسنے والے لوگوں کے حالات زندگی ان کی تاریخ، ترقی، آزادی، خو شحالی کا بغور جائزہ لیتے ہیں جب ہم یہ کام مکمل کر چکے ہونگے تو ہم پر یہ حیرت انگیز انکشا ف ہو چکا ہو گا کہ وہ تمام ممالک جہاں خو شحالی، آزادی، مساوات، مسرت اور خو شیاں، سکون، ترقی کا راج ہے ان سب نے عقل و خرد کا راستہ اپنا یا ہوا ہے اور جن ممالک میں بدحالی، دہشتگردی، لو ٹ ما ر، دنگے فساد، بد امنی، غربت، افلاس کا راج قائم ہے ان سب نے دوسرا راستہ یعنی انتہاپسندی کے راستے کو اپنے لیے چن رکھا ہے۔
اب آپ اپنے لیے کونسے راستے کا انتخا ب کرتے ہیں یہ فیصلہ کر نے کا اختیار آپ کو حاصل ہے۔ اگر آپ اپنے لیے انتہاپسندی کا راستہ چنتے ہیں تو پھر آپ کو بر بادی، ذلت، غلامی، غربت، سزائیں، دہشتگردی، بدامنی بہت بہت مبارک ہو۔ اور اگر آپ دوسرے راستے کا انتخا ب کرتے ہیں یعنی عقل اور خرد کا تو پھر آپ کے نصیب اور قسمت میں خوشحالی۔ ترقی، آزادی، خو شیاں، مساوات، اطمینا ن و سکون خود بخو د آ جائیں گی آئیں ہم سب اپنے لیے اپنے راستے کا انتخاب آج ہی کر لیں۔