وفاداری بشرط استواری
لیاقت علی خان وزیر اعظم ہوئے تو مولویوں نے ان پر دباؤ ڈال کر قرارداد مقاصد منظور کروا لی.
HYDERABAD:
تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں بسنے والے غریب عوام، مزدور، کسان، ہاری اور دیگر طبقوں کے لیے ایک معاشی طور پر آزاد معاشرہ جس میں رواداری اخوت، بھائی چارہ اور اپنی تہذیب و تمدن کی محبت رواں دواں ہو کے خواب دیکھنے والی آنکھ بند ہو گئی ہے اور معاشرے کے تمام پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لیے مستعد ذہن نے سوچنا بند کر دیا ہے یہ سوبھو گیان چندانی تھے جن کی ساری زندگی اسی جدوجہد میں گزری۔
پاکستان بنے 66 سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا اور ہم ابھی تک اپنے تشخص کی تلاش میں ہیں ترقی معکوس کا یہ سفر کہاں جا کر ختم ہو گا معلوم نہیں؟ وہ ہستیاں جو ماضی کی روشن روایات کی امین تھیں۔ ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہو رہی ہیں اور ان کی خالی جگہ پر کرنے والے نظر نہیں آتے۔ رواداری، اخوت، بھائی چارہ اور محبت کی جو روایات ان بزرگوں نے قائم کی تھیں اس کو عمومی معاشرتی بے حسی اور کارپوریٹ سیکٹر کی بڑھتی ہوئی اثر پذیری نے معدوم کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کی جگہ عدم برداشت، انتہا پسندی اور مفاداتی سیاست فروغ پذیر ہوتی نظر آ رہی ہے۔
ان بڑھتے ہوئے اثرات کا گہرا تجزیہ اور تنقید اور خود تنقیدی کے ذریعے اپنا محاسبہ وقت کی اولین ضرورت ہے اس پر گہرے غور و فکر اور ایک مضبوط لائحہ عمل جو حقیقت پسندانہ بھی ہو کے بغیر ہم اس گرداب بلا سے نہیں نکل سکتے۔ نذرالاسلام نے کہا تھا ''تم مرنے کے لیے پیدا ہوئے ہو یا کچھ کرنے کے لیے'' سوبھو نے اس کو اپنی پوری زندگی پر پھیلا لیا اور بہت کچھ کر گئے۔
سوبھو گیان چندانی 3 مئی 1920میں لاڑکانہ کے ایک گاؤں بندی میں پیدا ہوئے ان کے والد، دادا بندی کے ایک خوشحال زمیندار تھے۔ لیکن سوبھو کا دل بچپن سے غریب ہاریوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ وہ انیس سال کی عمر میں بنگال گئے اور رابندر ناتھ ٹیگور کے زیرسرپرستی شانتی نکیتن میں تعلیم حاصل کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران کانگریس کی ''ہندوستان چھوڑو تحریک'' کا حصہ بنے جنگ کے خاتمے کے بعد جب قیام پاکستان کی تحریک چلی اور سندھ اسمبلی میں جی ایم سید کی قیادت میں قیام پاکستان کی حمایت میں قرارداد منظور ہوئی تو سوبھو اس میں شامل تھے۔ تقسیم کے بعد سوبھو کا خاندان پاکستان میں رہنا نہیں چاہتا تھا لیکن سوبھو نے بھارت منتقل ہونے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ میں یہاں رہ کر عوام کی خدمت کروں گا۔
اسی دوران انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ یا آر ایس ایس نے سندھ میں قدم جمانے کی کوشش کی تو انھوں نے ڈٹ کر اس کی مخالفت کی۔ انھوں نے قائد اعظم کے ویلفیئر اسٹیٹ کے نظریے پر مبنی نئے وطن کے لیے جدوجہد کی تھی اور عوامی حقوق، رواداری اور معاشی آزادی پر مبنی ایک معاشرہ قائم کرنے والے ایک آزاد وطن کا خواب دیکھا تھا وہ بھلا ان متعصب لوگوں کو کب خاطر میں لاتے۔ لیکن اس کا صلہ انھیں یہ ملا کہ انھیں پاکستانی پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا گیا۔ سوبھو نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا اور دوران سماعت جج سے کہا کہ آج ہماری جدوجہد کے طفیل آپ اس کرسی پر بیٹھے ہیں اور اپنے حق میں فیصلے کے بعد پاکستانی پاسپورٹ حاصل کیا۔
قائد اعظم کی آنکھیں بند ہوئیں اور لیاقت علی خان وزیر اعظم ہوئے تو مولویوں نے ان پر دباؤ ڈال کر قرارداد مقاصد منظور کروا لی اور پھر ان کی شہادت کے بعد نوکر شاہی کے زیر انتظام قائد اعظم کے ویلفیئر اسٹیٹ کے نظریے کو پس پشت ڈال دیا گیا اور جاگیرداروں اور مولویوں نے مل کر عوام پر اپنا شکنجہ کسنا شروع کیا۔ مولانا حسرت موہانی نے قیام پاکستان کے بعد کراچی میں اپنے مختصراً قیام کے دوران اپنے انٹرویو میں کہا ''سوال: مولانا آپ قرارداد مقاصد کے کیوں خلاف ہیں؟ جواب: آپ نے پڑھی ہے۔
جی پڑھی ہے۔ اور سمجھی بھی ہے؟ جی کچھ سمجھی بھی ہے۔ اس میں پاکستان پر اللہ کی حاکمیت تسلیم کی گئی ہے اور اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ ''بے شک مگر یہ خارجیوں کا نعرہ تھا۔ خارجی قبائلی لوگ تھے اور کوئی خودکار ریاستی ڈھانچہ قائم نہیں کرنا چاہتے تھے وہ اپنی حاکمیت کا سہارا لیتے تھے وہ اپنی سرداریاں قائم رکھنے کے لیے اللہ کی حاکمیت کا سہارا لیتے تھے اب اس زمانے میں جب آپ اس ارفع نظریے کو ریاستی ڈھانچے کا راہ نما اصول بتاتے ہیں تو بے ایمانی کرتے ہیں۔ یہ ارفع نظریہ زمان و مکان کی قید سے ماورا ہے اسے کسی ریاستی دستور کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
دستور زمان و مکان کا پابند ہوتا ہے اور تبدیل ہوتا رہتا ہے اور اسے ایسا ہی ہونا چاہیے قرارداد مقاصد یعنی لاحکم اللہ جانتے ہو لاحکم اللہ کے بارے میں حضرت علی ؓ نے کیا کہا تھا انھوں نے کہا تھا یہ حق ہے جسے باطل کے استحکام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جناح زندہ ہوتے اس کی نوبت کبھی نہ آتی۔ لیاقت علی خان زمینداروں اور مولویوں کی مدد سے حکومت کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے عوام کے حق حاکمیت کو تسلیم کر لیں تو پھر وہ استحصالی طبقوں کو نہیں بچا سکتے اور اس میں ان کو مولوی مذہبی جواز مہیا کریں گے۔'' (دل بھٹکے گا۔ احمد بشیر صفحہ 444)
جب عوام کے حقوق سے روگردانی شروع ہوئی تو پورے پاکستان میں اس پر شدید احتجاج شروع ہوا جس میں طلبا، مزدور، کسان، دانشور اور ترقی پسندوں کے ساتھ سوبھو بھی شامل تھے جب اس عوامی ابھار نے شدت اختیار کی اور پاکستان کے عام انتخابات کے نتیجے میں عوامی نمایندوں کے اسمبلیوں میں پہنچنے کے آثار نمودار ہونا شروع ہوئے تو 1958 میں ایوب خان کا مارشل لا لگ گیا اور تمام سیاسی سرگرمیاں بند کر دی گئیں اور بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی یہیں سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد پڑی۔
ان ہی پابندیوں کا شکار سوبھو بھی ہوئے وہ 1958 سے 1964تک اپنے گھر میں نظر بند رہے اور لکھنے پڑھنے میں اپنا وقت گزارا۔ اس کے بعد بھی انھوں نے مختلف وقفوں سے دس سال جیل میں گزارے اور اس کے علاوہ تقریباً دس سال روپوشی میں رہ کر اپنی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی خدمات میں بے زمین کسانوں کے لیے زمین کی مفت تقسیم اور ہاریوں کے حقوق کے لیے حیدر بخش جتوئی کے شانہ بہ شانہ جدوجہد شامل ہے۔
انھوں نے ''سندھی ادبی سنگت'' کی بنیاد رکھی اور اسے زندہ رکھا۔ وہ غریبوں اور مزدوروں کے مقدمات مفت لڑتے تھے انھوں نے لاڑکانہ کالج میں پڑھایا اور وہاں کے پرنسپل بھی رہے۔ ان کی تحریروں میں افسانے، مضامین، نظمیں، تحقیقی مقالات، شخصی خاکے، اداریے اور اخباری کالم شامل ہیں ان کی خودنوشت سوانح حیات جو ایک سندھی جریدے میں قسط وار شایع ہوئی تھی اس کا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے۔
ترقی پسندی ان کا ایمان تھا وہ ایک سچے پاکستانی کی حیثیت سے عوام کی معاشی آزادی، سماجی برابری، رواداری اور باہمی اخوت پر مبنی ایک معاشرے کے قیام کے لیے ساری عمر جدوجہد کرتے رہے اور اس سلسلے میں ہر قسم کی سختیاں برداشت کیں اور اپنی ذات کے بجائے عوام کی حتی المقدور خدمت ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا جس کے لیے وہ بجا طور پر تمام انسان دوستوں کی طرف سے خراج تحسین کے مستحق ہیں اور ان کی زندگی ان سب لوگوں کے لیے ایک مشعل راہ ہے جو اس ملک کے پسے ہوئے طبقوں کے لیے ایک بے لوث جدوجہد میں مصروف ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی، مذہبی تفرقہ بازی اور عصبیت کے عفریت سے نبرد آزما ہونے کے لیے عوام کے تمام طبقات کا اس میں منظم طور پر شامل ہونا بہت ضروری ہے جس کے بغیر یہ عفریت خالی انتظامی اقدامات سے قابو نہیں آ سکے گا۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں بسنے والے غریب عوام، مزدور، کسان، ہاری اور دیگر طبقوں کے لیے ایک معاشی طور پر آزاد معاشرہ جس میں رواداری اخوت، بھائی چارہ اور اپنی تہذیب و تمدن کی محبت رواں دواں ہو کے خواب دیکھنے والی آنکھ بند ہو گئی ہے اور معاشرے کے تمام پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لیے مستعد ذہن نے سوچنا بند کر دیا ہے یہ سوبھو گیان چندانی تھے جن کی ساری زندگی اسی جدوجہد میں گزری۔
پاکستان بنے 66 سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا اور ہم ابھی تک اپنے تشخص کی تلاش میں ہیں ترقی معکوس کا یہ سفر کہاں جا کر ختم ہو گا معلوم نہیں؟ وہ ہستیاں جو ماضی کی روشن روایات کی امین تھیں۔ ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہو رہی ہیں اور ان کی خالی جگہ پر کرنے والے نظر نہیں آتے۔ رواداری، اخوت، بھائی چارہ اور محبت کی جو روایات ان بزرگوں نے قائم کی تھیں اس کو عمومی معاشرتی بے حسی اور کارپوریٹ سیکٹر کی بڑھتی ہوئی اثر پذیری نے معدوم کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کی جگہ عدم برداشت، انتہا پسندی اور مفاداتی سیاست فروغ پذیر ہوتی نظر آ رہی ہے۔
ان بڑھتے ہوئے اثرات کا گہرا تجزیہ اور تنقید اور خود تنقیدی کے ذریعے اپنا محاسبہ وقت کی اولین ضرورت ہے اس پر گہرے غور و فکر اور ایک مضبوط لائحہ عمل جو حقیقت پسندانہ بھی ہو کے بغیر ہم اس گرداب بلا سے نہیں نکل سکتے۔ نذرالاسلام نے کہا تھا ''تم مرنے کے لیے پیدا ہوئے ہو یا کچھ کرنے کے لیے'' سوبھو نے اس کو اپنی پوری زندگی پر پھیلا لیا اور بہت کچھ کر گئے۔
سوبھو گیان چندانی 3 مئی 1920میں لاڑکانہ کے ایک گاؤں بندی میں پیدا ہوئے ان کے والد، دادا بندی کے ایک خوشحال زمیندار تھے۔ لیکن سوبھو کا دل بچپن سے غریب ہاریوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ وہ انیس سال کی عمر میں بنگال گئے اور رابندر ناتھ ٹیگور کے زیرسرپرستی شانتی نکیتن میں تعلیم حاصل کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران کانگریس کی ''ہندوستان چھوڑو تحریک'' کا حصہ بنے جنگ کے خاتمے کے بعد جب قیام پاکستان کی تحریک چلی اور سندھ اسمبلی میں جی ایم سید کی قیادت میں قیام پاکستان کی حمایت میں قرارداد منظور ہوئی تو سوبھو اس میں شامل تھے۔ تقسیم کے بعد سوبھو کا خاندان پاکستان میں رہنا نہیں چاہتا تھا لیکن سوبھو نے بھارت منتقل ہونے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ میں یہاں رہ کر عوام کی خدمت کروں گا۔
اسی دوران انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ یا آر ایس ایس نے سندھ میں قدم جمانے کی کوشش کی تو انھوں نے ڈٹ کر اس کی مخالفت کی۔ انھوں نے قائد اعظم کے ویلفیئر اسٹیٹ کے نظریے پر مبنی نئے وطن کے لیے جدوجہد کی تھی اور عوامی حقوق، رواداری اور معاشی آزادی پر مبنی ایک معاشرہ قائم کرنے والے ایک آزاد وطن کا خواب دیکھا تھا وہ بھلا ان متعصب لوگوں کو کب خاطر میں لاتے۔ لیکن اس کا صلہ انھیں یہ ملا کہ انھیں پاکستانی پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا گیا۔ سوبھو نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا اور دوران سماعت جج سے کہا کہ آج ہماری جدوجہد کے طفیل آپ اس کرسی پر بیٹھے ہیں اور اپنے حق میں فیصلے کے بعد پاکستانی پاسپورٹ حاصل کیا۔
قائد اعظم کی آنکھیں بند ہوئیں اور لیاقت علی خان وزیر اعظم ہوئے تو مولویوں نے ان پر دباؤ ڈال کر قرارداد مقاصد منظور کروا لی اور پھر ان کی شہادت کے بعد نوکر شاہی کے زیر انتظام قائد اعظم کے ویلفیئر اسٹیٹ کے نظریے کو پس پشت ڈال دیا گیا اور جاگیرداروں اور مولویوں نے مل کر عوام پر اپنا شکنجہ کسنا شروع کیا۔ مولانا حسرت موہانی نے قیام پاکستان کے بعد کراچی میں اپنے مختصراً قیام کے دوران اپنے انٹرویو میں کہا ''سوال: مولانا آپ قرارداد مقاصد کے کیوں خلاف ہیں؟ جواب: آپ نے پڑھی ہے۔
جی پڑھی ہے۔ اور سمجھی بھی ہے؟ جی کچھ سمجھی بھی ہے۔ اس میں پاکستان پر اللہ کی حاکمیت تسلیم کی گئی ہے اور اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ ''بے شک مگر یہ خارجیوں کا نعرہ تھا۔ خارجی قبائلی لوگ تھے اور کوئی خودکار ریاستی ڈھانچہ قائم نہیں کرنا چاہتے تھے وہ اپنی حاکمیت کا سہارا لیتے تھے وہ اپنی سرداریاں قائم رکھنے کے لیے اللہ کی حاکمیت کا سہارا لیتے تھے اب اس زمانے میں جب آپ اس ارفع نظریے کو ریاستی ڈھانچے کا راہ نما اصول بتاتے ہیں تو بے ایمانی کرتے ہیں۔ یہ ارفع نظریہ زمان و مکان کی قید سے ماورا ہے اسے کسی ریاستی دستور کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
دستور زمان و مکان کا پابند ہوتا ہے اور تبدیل ہوتا رہتا ہے اور اسے ایسا ہی ہونا چاہیے قرارداد مقاصد یعنی لاحکم اللہ جانتے ہو لاحکم اللہ کے بارے میں حضرت علی ؓ نے کیا کہا تھا انھوں نے کہا تھا یہ حق ہے جسے باطل کے استحکام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جناح زندہ ہوتے اس کی نوبت کبھی نہ آتی۔ لیاقت علی خان زمینداروں اور مولویوں کی مدد سے حکومت کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے عوام کے حق حاکمیت کو تسلیم کر لیں تو پھر وہ استحصالی طبقوں کو نہیں بچا سکتے اور اس میں ان کو مولوی مذہبی جواز مہیا کریں گے۔'' (دل بھٹکے گا۔ احمد بشیر صفحہ 444)
جب عوام کے حقوق سے روگردانی شروع ہوئی تو پورے پاکستان میں اس پر شدید احتجاج شروع ہوا جس میں طلبا، مزدور، کسان، دانشور اور ترقی پسندوں کے ساتھ سوبھو بھی شامل تھے جب اس عوامی ابھار نے شدت اختیار کی اور پاکستان کے عام انتخابات کے نتیجے میں عوامی نمایندوں کے اسمبلیوں میں پہنچنے کے آثار نمودار ہونا شروع ہوئے تو 1958 میں ایوب خان کا مارشل لا لگ گیا اور تمام سیاسی سرگرمیاں بند کر دی گئیں اور بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی یہیں سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد پڑی۔
ان ہی پابندیوں کا شکار سوبھو بھی ہوئے وہ 1958 سے 1964تک اپنے گھر میں نظر بند رہے اور لکھنے پڑھنے میں اپنا وقت گزارا۔ اس کے بعد بھی انھوں نے مختلف وقفوں سے دس سال جیل میں گزارے اور اس کے علاوہ تقریباً دس سال روپوشی میں رہ کر اپنی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی خدمات میں بے زمین کسانوں کے لیے زمین کی مفت تقسیم اور ہاریوں کے حقوق کے لیے حیدر بخش جتوئی کے شانہ بہ شانہ جدوجہد شامل ہے۔
انھوں نے ''سندھی ادبی سنگت'' کی بنیاد رکھی اور اسے زندہ رکھا۔ وہ غریبوں اور مزدوروں کے مقدمات مفت لڑتے تھے انھوں نے لاڑکانہ کالج میں پڑھایا اور وہاں کے پرنسپل بھی رہے۔ ان کی تحریروں میں افسانے، مضامین، نظمیں، تحقیقی مقالات، شخصی خاکے، اداریے اور اخباری کالم شامل ہیں ان کی خودنوشت سوانح حیات جو ایک سندھی جریدے میں قسط وار شایع ہوئی تھی اس کا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے۔
ترقی پسندی ان کا ایمان تھا وہ ایک سچے پاکستانی کی حیثیت سے عوام کی معاشی آزادی، سماجی برابری، رواداری اور باہمی اخوت پر مبنی ایک معاشرے کے قیام کے لیے ساری عمر جدوجہد کرتے رہے اور اس سلسلے میں ہر قسم کی سختیاں برداشت کیں اور اپنی ذات کے بجائے عوام کی حتی المقدور خدمت ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا جس کے لیے وہ بجا طور پر تمام انسان دوستوں کی طرف سے خراج تحسین کے مستحق ہیں اور ان کی زندگی ان سب لوگوں کے لیے ایک مشعل راہ ہے جو اس ملک کے پسے ہوئے طبقوں کے لیے ایک بے لوث جدوجہد میں مصروف ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی، مذہبی تفرقہ بازی اور عصبیت کے عفریت سے نبرد آزما ہونے کے لیے عوام کے تمام طبقات کا اس میں منظم طور پر شامل ہونا بہت ضروری ہے جس کے بغیر یہ عفریت خالی انتظامی اقدامات سے قابو نہیں آ سکے گا۔