صدارتی عہدے پر فائز شخصیت

ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ جو شخص خاموش طبع،کم گو،منکسر اور نرم مزاج ہو اُسے ہم اپنا لیڈر ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔


Dr Mansoor Norani January 14, 2015
[email protected]

KARACHI: ہمارے یہاں کچھ لوگوں کویہ شکایت ہے کہ صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز موجودہ شخصیت خال خال اور شاذ و نادر ہی منظرِ عام پر دِکھائی دیتی ہے اور عمومی طور پر وہ تمام قومی امور سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ اُن کے اندر وہ رعب دبدبہ، جاہ و جلال اور چمک دمک موجود نہیں ہے جو اُن سے قبل ایوانِ صدر میں براجمان سابقہ کئی صدور قوم کو دکھا گئے۔ اُن کی انتہائی درجے کی سادگی اور عاجزی اُن کے عہدے سے میل کھاتی معلوم نہیں ہو رہی۔

ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ جو شخص خاموش طبع، کم گو، منکسر اور نرم مزاج ہو اُسے ہم اپنا لیڈر ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ ہم نے اپنے ملک کی سیاست میں ایسے کئی تیز، چالاک، ذہین، دانا اور ہشیار سیاستداں دیکھے ہیں جن کی سخن سازی، سحر انگیزی اور چرب زبانی سے لوگ مرعوب ہو کر اُنکے فریفتہ، عاشق اور دلدادہ ہو جایا کرتے تھے۔ اِسی لیے اب کوئی سیدھا سادہ، شگفتہ مزاج اور نرم خو آدمی ہمارے دل کو بھاتا ہی نہیں۔ حالانکہ ہمارے دستور اور آئین کا تقاضا تو یہی ہے کہ صدرِ مملکت کا عہدہ ریاست کا ایک علامتی عہدہ ہو اور جس پر فائز شخص صرف رسمی سرکاری کاموں کا اختیار رکھتا ہو اور اُن پرد ستخط کرنے کا مجاز ہو۔

البتہ اُسے پاکستان ایئر فورس کا کمانڈر انچیف، 17 یونیورسٹیوں کا چانسلر اور ٹرائبل ایریا FATA سے متعلق امور کا بھی مختار تصور کیا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ تما م حکومتی کام اور امور وزیرِ اعظم کے سپرد ہوتے ہیں۔ اِس سے بڑھ کر کوئی شخص بحیثیتِ صدر اگر کوئی کردار ادا کرتا ہے تو وہ آئین و دستور سے متجاوز تصور کیا جائے گا۔ ہم چونکہ ایسے ہی آئین سے بالاتر صدور دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں تو ہمیں آئینی اور دستوری صدر کچھ عجیب اور غیر مناسب سا دِکھائی دینے لگتا ہے۔ سیدھے سادے اور ظاہری قد و قامت سے محروم اور جاذبِ نظر نہ آنے والے حضرات ہمارے دل و دماغ کو نہیں لبھاتے۔ ایسے لوگوں کا ہم تمسخر اُڑا کر اور اُنہیں مافوق الفطرت قرار دیکر لائق عزت و تعظیم نہیں سمجھتے۔ اُن کی گمشدگی سے متعلق اشتہار بنا کر سوشل میڈیا پر لوڈ کرتے رہتے ہیں۔

صدرِ مملکت جناب ممنون حسین کوئی معمولی شخص نہیں ہیں۔ اُنہوں نے انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی سے ایم بی اے کیا ہوا ہے۔ وہ کوئی اتنے چھوٹے اور کم تر انسان نہیں ہیں کہ کوئی اُن سے ٹی وی پر بیٹھ کر دہی بڑے بنانے کی ترکیبیں معلوم کرتا پھرے۔ کسی کو اُن کی شخصیت پسند نہ آئے، کسی کو اُن کی صورت اچھی نہ لگے اور کسی کو اُن کا رہن سہن دلکش نہ لگے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے سب سے معزز اور محترم عہدے پر فائز ہیں۔ ہندوستان میں وہاں کے لوگوں نے جب اپنے سائنسداں عبدالکلام آزاد کو اپنا صدر منتخب کیا جو شکل و صورت اور ظاہری حسن اور وجاہت میں نہایت کم حیثیت کے مالک تھے لیکن وہاں کسی نے اُن پر اِس قسم کے اعتراضات نہیں کیے۔ کیا ہمارے صدر کی یہ بات لائقِ تحسین نہیں ہے کہ وہ آئین سے متجاوز کسی اقدام کے مرتکب ہوئے ہیں اور نہ ایسا کرنے کے ارادہ رکھتے ہیں۔

دستورِ پاکستان نے اُنہیں جن اختیارات سے نوازا ہے وہ اُسی کے دائرِہ کار میں رہ کر اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔ اُن کے خلاف کرپشن اور مالی بدعنوانی کا کوئی مقدمہ ہماری کسی عدالت میں زیرِ سماعت نہیں اور نہ وہ کسی این آر او یا کسی صدارتی استثنیٰ کے لوازمات سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ وہ نہ وزیرِ اعظم کے کاموں میں غیر ضروری مداخلت کرتے ہیں اور نہ اُنہیں غیر قانونی تحفظ دیتے ہیں۔ 1973 کے آئین میں جو اختیارات اور ذمے داریاں ہمارے ایک صدر کے لیے مختص کی گئی ہیں اگر اُسی کے مطابق کوئی صدر اپنی منصبی ذمے داریاں پوری کرتا ہے تو ہمیں وہ شخص کاہل، سست اور بے عمل معلوم ہونے لگتا ہے۔

یہ سب کچھ دراصل ہمارے اُن غیر جمہوری حکمرانوں کا کیا دھرا ہے جو برسرِاقتدار آتے تو اپنی مرضی سے ہیں لیکن جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے آئین اور پارلیمانی نظامِ حکومت میں اُن کے لیے کو ئی جگہ بنتی نہیں ہے تو وہ اُسے معطل کر کے یا اُس میں اپنی مرضی کی ترامیم کر کے اُسے اپنے لیے جائز، باضابطہ اور باجواز بنا لیتے ہیں۔ وہ چونکہ وزیرِ اعظم کی حیثیت میں سربراہِ حکومت تو بن سکتے نہیں لٰہذا وہ صدرِمملکت کی حیثیت میں آسان سا رستہ چن کر ملک و قوم پر حکمرانی کرنے لگتے ہیں اور خود کو مزید با اختیار اور خود مختار بنانے کے لیے ایک منتخب وزیرِ اعظم کے سارے اختیارات اپنے منصب میں ضم کر لیتے ہیں۔

جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک یہی کچھ ہوتا رہا۔ جاتے جاتے وہ اپنے بنائے گئے اِس نظام کو یونہی بوسیدہ اور متعفن چھوڑ جاتے ہیں جو بعد میں آنے والے دستور کے تحت کام کرنے والے سویلین حکمرانوں کے لیے ایک مشکل امتحان اور کڑی آزمائش کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اور جسے پاک صاف اور سیدھا کرتے کرتے اُن کا خاصہ وقت خراب ہو جاتا ہے۔

آئین کے بگاڑنے اور سنوارنے کا یہی کھیل ہم سالہا سال سے دیکھتے آئے ہیں۔ اُسے چند صفحوں کی بیکار کتاب سمجھ کر ردّی کی ٹوکری کے حوالے کر کے ڈنڈے کے زور پر حکومت کرنے والے ہمیں بڑے بہادر، دلیر، دبنگ اور جرات مند دکھائی دیتے ہیں۔ فوجی وردی میں جنکی شخصیت بڑی قد آور معلوم ہو، جنکے لب ولہجے میں گھن گرج اور رعونت ہو ہم اُسی سے متاثر ہو کر اُس کے قصیدے پڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔

ہمارے ایک ایسے ہی صدرِ مملکت کی 15 دسمبر 1971کی وہ تقریر آج بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے جب وہ اپنی انتہائی گرجدار آواز میں آخری سانسوں تک وطنِ عزیز کے لیے لڑنے مرنے کا دعویٰ کر رہے تھے اور عین اُس وقت سابقہ مشرقی پاکستان میں ہماری افواج اپنے دشمن ملک کے ایک فوجی جنرل کے آگے ہتھیار ڈال رہی تھیں۔ میرے عزیز ہم وطنوں جیسے الفاظ سننے کے لیے ہمارے کئی لوگوں کے کان آج بھی بے چین اور بے تاب رہتے ہیں۔ ملک کے اندر معمولی سا اضطراب اور سیاسی عدم استحکام ہو جائے اِن لوگوں کو بھاری بوٹوں کی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔

اب کہیں جا کے کچھ استحکام اور ٹھہراؤ آیا ہے اور جمہوریت کو بچانے کے لیے پارلیمنٹ، سول سوسائٹی اور عدلیہ سمیت ساری قوتیں اکٹھی ہو چکی ہیں۔ کوئی ماورائے آئین کام نہیں ہو رہا۔ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے بھی آئینی راستہ استوار کیا گیا ہے۔ غیر معمولی حالات میں بھی ایمرجنسی لگانے کی بجائے اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے سب کے لیے قابلِ قبول راستہ ڈھونڈا گیا ہے۔ ہر شخص اور ہر ادارہ اپنی اپنی حدود میں اپنے فرائض ادا کر رہا ہے۔ اِسی طرح موجودہ صدر بھی آئین کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائضِ منصبی نبھا رہے ہیں جیسے کہ اُن سے پہلے ہمارے دو صدور فضل الہیٰ چوہدری اور جسٹس محمد رفیق تارڑ ادا کر گئے۔ ہمیں اُن کی اِن کوششوں پر اُنہیں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے نا کہ اُن کی تضحیک کرنی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔