رانگ وے آخر کیوں

کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم بہت کمزور ہو گئے ہیں۔



پہلی خبر جو مجھے ملی۔wrong way سے بائیک آئی چونکہ سڑک کے کنارے بس کھڑی تھی اسی لیے رانگ وے سے آنے والی بائیک کو سڑک (Cross) کراس کرنے والی طالبہ دیکھ نہ سکی اور بائیک سے ٹکرا گئی۔ بچی کی دونوں ٹانگوں میں فریکچر ہو چکا ہے۔ وہ کب اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے گی۔ کیا اس کی رفتار وہی ہو گی جو حادثے سے پہلے تھی؟

دوسری خبر کچھ یوں تھی کہ چوکیدار ہاتھ پر پلاسٹر کروا کر آیا ہے wrong way سے موٹرسائیکل سوار آ رہا تھا ٹکر لگنے سے ہاتھ کی کلائی کی ہڈی دو جگہ سے ٹوٹ گئی۔

دونوں حادثوں کا سبب رانگ وے(wrong way) تھا۔ یعنی بصورت دیگر ہم کہہ سکتے ہیں غلط راستہ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم غلط راستے کیوں اپناتے ہیں جب کہ ہم جانتے ہیں کہ غلط راستے ہمیشہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ حادثوں کا سبب بنتے ہیں ہمارے اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی لیکن پھر بھی ہم محض عجلت اور سہولت کی بنا پر wrong way کا انتخاب کرتے ہیں۔ سنگین خطرات کے باوجود یہ غیراخلاقی و غیر قانونی عمل کیوں؟

اگر ہم اسی کیوں پر غور کر لیں تو پھر سارے مسئلے ہی حل ہو جائیں۔ لیکن صرف غور و فکر کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ عمل بھی کرنا ہوتا ہے۔ غلط کو غلط سمجھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ غلط راستے کبھی بھی صحیح راستوں سے نہیں ملتے۔ غلط راستوں پر چل کر ہم کبھی بھی صحیح منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ راستے ہمیں ہمیشہ غلط سمت یا غلط منزل تک لے جائیں گے۔ کیا ہم یہ ہی چاہتے ہیں؟

ہم آخر چاہتے کیا ہیں۔ جمہوریت۔ تو جناب! اگر یہ سوال کیا جائے کہ جمہوریت کیا ہے تو ہم میں سے کتنے ہیں جو جمہوریت کا لفظ سمجھتے ہیں اور کتنے ہیں جو صحیح اور غلط جمہوریت کے بارے میں با علم ہیں۔ بات شروع ہوتی ہے علم سے تو تعلیم و علم کا کیا تناسب ہے ہمارے ملک میں۔ کتنے لوگ ہیں جن پر جعلی ڈگری کے الزامات لگ رہے ہیں کتنے لوگ ہیں جو جعلی ڈگریوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہیں اور کتنے لوگ ہیں جو کتابیں پڑھ کر اور ڈگریاں لے کر بھی جاہل نظر آتے ہیں اور کتنے لوگ ہیں جن کے پاس ڈگریاں نہیں لیکن مہذب ہیں۔

زباں و بیاں کے موجودہ استعمال پر شرمندگی سی ہونے لگتی ہے اور جب اہل زبان غلط زبان استعمال کرتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ چلو کہیں تو شرم آئی ورنہ ہر جگہ اب تو بے شرمی عام ہوتی جا رہی ہے۔ لباس کو ہی لے لیں۔ دوپٹہ اور آستینیں آہستہ آہستہ اس طرح غائب ہو رہے ہیں جیسے مشرقی تہذیب۔ معاشرے میں دو چیزیں ختم ہوتی جا رہی ہیں ایک تہذیب اور دوسری قانون۔ کل ہی کی تو بات ہے۔ بچے کتابوں کے اوراق الٹ پلٹ کر رہے تھے۔

پوچھا کیا کر رہے ہو تو بولے قانون تلاش کر رہے ہیں۔ بیوقوف کہہ کر میں نے سمجھایا کہ کتابوں میں تو قانون مل جائے گا اگر تلاش کرنا ہے تو معاشرے و سماج میں کرو۔ تو بچے ہنس کر بولے کہ جو چیز جہاں ہو گی وہیں تو تلاش کریں گے اور مل جائے گی۔ جو چیز جہاں ہے ہی نہیں وہاں ڈھونڈ کر وقت کیوں برباد کریں۔ تھوڑی دیر کے لیے میں نے سوچا کہ بچے ناسمجھ نہیں ہوتے بلکہ ہم بڑے بے وقوف ہوتے ہیں جو انھیں ناسمجھ سمجھتے ہیں۔ بلکہ ہمارے بچے بہت ذہین ہیں۔

راستے، قانون اور ذہانت ان کا آپس میں کیا تعلق ہے اگر غور کیا جائے تو بڑا گہرا تعلق ہے۔ جی ہاں ذہین لوگ جانتے ہیں کہ قانونی راستے اپنانے والے کبھی بھی لاقانونیت کا شکار نہیں ہوتے۔ لاقانونیت امن و امان کی صورت حال کو بگاڑنے کا سبب بنتی ہے اور جب سماج میں امن و امان ہی نہ ہو تو سکون ختم ہو جاتا ہے۔ جہاں سکون نہ ہو وہاں ترقی ٹھہر جاتی ہے۔ کیا ہم ٹھہر جانا چاہتے ہیں۔ یا پھر ہمارے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوشش کون کر رہا ہے اپنے یا غیر۔

کس قدر تکلیف دہ بات ہے کہ اپنوں سے ہم دور ہو رہے ہیں اور غیروں کی حرکات و سکنات کو اپنا کر ان کے قریب تر ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا اپنوں سے ہم نے اتنے دھوکے کھائے ہیں کہ اعتبار نہ رہا۔ اور غیروں نے اس قدر سبز باغ دکھائے ہیں کہ آنکھیں بند کر کے ہم سرابوں کی منزل قبول کرنے کو تیار ہیں۔

کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ اتنے کمزور کہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی طاقت بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سہاروں کے عادی ہوتے چلے گئے ہیں؟

ہماری نوجوان نسل کو کمزور بنانے کے لیے بہت سی چیزوں کا عادی بنایا جا رہا ہے مثلاً پان، گٹکا، سگریٹ۔ اسکولوں کے کم عمر بچے ہاتھوں میں سگریٹ لیے نظر آتے ہیں۔ نا ہی بڑوں کا خوف رہا اور نا ہی احترام۔ پہلے محلے کا کوئی بھی بچہ غلط حرکت کرتا تھا تو محلے میں رہنے والے کسی بھی گھر کا بڑا اسے سمجھانے کا حق رکھتا تھا لیکن اب یہ حق ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے ذمے دار والدین ہیں بچے ہیں یا پھر ماحول۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ماحول کو بنانے اور بگاڑنے والے ہم خود ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مہینوں کے فاصلے لمحوں میں سمٹ کر آگئے ہیں اور ان کے اثرات سے کوئی بھی سمجھدار انسان انکار نہیں کرسکتا۔

فلمیں، ڈرامے اور دیگر پروگرام خواہ ہمارے ہوں یا باہر کے جرائم کے موضوعات سے بھرے پڑے ہیں۔ پہلے خبر آتی تھی کہ یہ جرم ہوا ہے۔ لیکن اب عملی شکل میں جرائم کو ڈرامائی شکل دے کر پیش کیا جاتا ہے کہ مجرم یا ملزمان نے جرم کا ارتکاب کس طرح کیا۔ کچے ذہن فوری طور پر جو کچھ دیکھتے ہیں قبول کرلیتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے غلط راستے پر چلنے لگتے ہیں کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا۔

لیجیے کالم مکمل نہیں ہوا اور بجلی چلی گئی۔ ہائے بجلی کتنی خوش قسمت ہے کہ اپنی مرضی سے آتی جاتی ہے جب جی چاہا وقت بے وقت چلی گئی۔ جب جی چاہا آ گئی۔ افسران والی خصوصیات اس میں بھی آ گئی ہیں۔ کل ہی تو میرا بیٹا پوچھ رہا تھا کہ ماما! میرا دوست بتا رہا تھا کہ باہر کے ممالک میں لوگ باقاعدہ ٹیکس دیتے ہیں اور انھیں مکمل سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ کیا ماما! ہم ٹیکس نہیں دیتے؟ کتنا معنی خیز سوال تھا۔ ٹیکس دینے والا طبقہ تمام سہولیات سے محروم ہے۔ پانی غائب، بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کم، سڑکیں اور گلیاں کچروں کا ڈھیر۔ شکوہ کس سے کریں۔ جن سے شکوہ کریں گے وہ خود اپنے مسئلوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمارے مسائل کیا حل کریں گے۔ سب ذاتی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اجتماعی مفاد کی کسی کو خبر ہی نہیں۔

مسائل کا انبار ہو تو عوام بے چارے کیا کریں وہ شارٹ کٹ استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یا پھر wrong way۔ یہ راستہ کس قدر خطرناک ہوتا ہے ہم جانتے ہیں۔ کیا ہم ایسے اسباب نہیں پیدا کر سکتے کہ رانگ وے سے بچ سکیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔