دہشت گردی تو روز کی بات ہے
مغربی ممالک پاکستان کو افغانستان کی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ پاکستان کے ہر شہری کو دہشت گرد کے طور پر دیکھتے ہیں۔
KARACHI:
کیا پھول کو پھول سے خطرہ ہوتا ہے؟ کیا بکریوں کا ریوڑ ایک دوسرے سے ڈرا یا سہما ہوا ہوتا ہے۔ کیا ہاتھیوں کو ہر وقت اپنے ساتھی ہاتھی سے خوف آتا ہے۔ کیا پانی پانی سے نہیں ملتا ہے؟ تو پھر ایسی کون سی بیماری ہے کہ انسان ہر وقت انسان کے خوف میں مبتلا ہے۔ ہم جو اپنے آپ کو اشرف المخلوق کہتے ہیں۔ ہم جنھیں یہ گمان ہے کہ اپنے علم کی وجہ سے ہی انسان کو تمام مخلوقات میں اعلی مرتبہ حاصل ہے وہی انسان اُسی علم کی جگہوں کو محفوظ بنانے میں لگا ہوا ہے۔ انسان کی درس گاہ کو انسان سے ہی خطرہ ہے۔
سوالات مشکل نہیں ہیں، ہم ایک کنویں کے مینڈک کی طرح بس اپنی عارضی دنیا کو جلد سے جلد ختم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ مغرب اور مشرق میں ایک ہی نعرہ ہے کہ قلم کی طاقت بندوق سے زیادہ ہے۔ لیکن ہمارا کیا حال ہے جو بندوق کا حل بندوق سے عارضی طور پر ڈھونڈ کر پھر امن کی بانسری بجانے لگ جاتے ہیں۔ ہم اشرف المخلوقات کیوں ہیں؟ اسی لیے ناں..... کہ ہم علم کی دلیل سے آگے بڑھتے گئے ہم ارتقا کی منزلیں طے کرتے ہوئے آج مریخ پر قدم رکھ رہے ہیں۔ ہمیں اُس علم، اُس شعور کا استعمال کس طرح کرنا ہے؟
یا صرف نعروں میں قید کر کے اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اسی ڈر اور خوف کے ساتھ سانس لینے کے لیے چھوڑ دینا ہے۔ حال یہ ہے کہ یہاں سے جب ہم اُکتا گئے تو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے مغرب چلے گئے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ اب یہ مغرب کا راستہ بھی بند ہونے والا ہے۔ صاف پانی ملے گا۔ بس ایک نعرہ بن کر رہ گیا۔ کیونکہ کبھی ہم نے اسے صاف نیت کے ساتھ حل کرنے کا سوچا ہی نہیں۔ امن خوشحالی بھی بس نعرہ ہی رہے۔
کیا بندوق نہیں قلم بھی ہمارا ایک نعرہ ہی رہے گا؟ بہت اچھی بات ہے جو سیاسی اور عسکری قیادت اس بات پر ایک ہو گئے ہیں کہ ہمیں بندوق نہیں چاہیے۔ اچھا ہے کہ وہ اس پر متفق ہو گئے کہ بندوق پکڑ کر ہمارے بچوں کو مارنے والوں کو نہیں بخشا جائے گا۔ مگر ہم پھر ایک غلطی کر رہے ہیں۔ اکیسویں ترمیم بہت اچھی بات ہے لیکن یہ ترمیم بندوق والوں کے لیے ہے۔ جو دہشت گردی کرتے ہیں۔ لیکن یہ دہشت گردی کیوں کرتے ہیں؟ یہ نفرتیں کیوں پھیلاتے ہیں۔ یہاں جو سوچ پر پہرے لگا کر بیٹھیں اُن کا کیا کیجیے۔
مغربی ممالک پاکستان کو افغانستان کی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ پاکستان کے ہر شہری کو دہشت گرد کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ مسئلے کا حل غلط طور پر پیش کرتے ہیں دوسروں کی آگ پر خوش ہونے والا اور اُس پر فتح کے نغمے بجانے والے آج خود جب اس آگ میں جل رہے ہیں تب انھیں یہ یاد آ رہا ہے کہ قلم بندوق سے بہتر ہے جب ہماری زمین کو ہماری نسلوں کو اپنی جنگ کے لیے وہ خون میں نہلا رہے تھے جب اپنے مفادات کے لیے وہ ہمیں نفرتیں بیچ رہے تھے جب وہ ہمارے بچوں کو سرخ انقلاب روکنے کے لیے اسکولوں سے اٹھا کر کیمپوں میں منتقل کر رہے تھے جب وہ خود سائنس کی ترقی میں ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کر رہے تھے۔
اُس وقت ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہتھیار دے کر سرحدیں پار کراتے تھے۔ آج اُن کے ہاتھوں میں سے دستانے نکل گئے اور اب انھیں اپنے ہاتھوں پر خون نظر آ رہا ہے تو یہ نعرہ بلند ہو رہا ہے قلم بندوق سے بہتر ہے۔ آج یہ تیس لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں تو تیس لوگ کیوں نہیں نکلے جب چند دنوں پہلے ہی ہمارے یہاں بھی اُن معصوم بچوں کو خون میں نہلا دیا گیا تھا جن کے ہاتھ میں قلم تھے۔ سچ کہتے ہو تم کہ یہ دنیا اب ایک چھوٹا سا گاؤں بن گئی ہے اور جب اس چھوٹے سے گاؤں میں میرا گھر جلتا ہے تو یہ مت سوچو کہ تمھارا گھر نہیں جلے گا۔ اگر قلم کو بندوق پر فوقیت ہے تو یاد رکھیں کہ پھر پورے گاؤں کا ایک ہی قانون ہونا چاہیے۔ زیادہ دور مت جائیے۔ ابھی کی ہی تو بات ہے داعش۔ اُس کے قیام میں کون کون تھا؟ جب مشرق وسطی جل رہا تھا تو کون خوشیاں منا رہا تھا۔ یہ لیبیا میں کون تھا۔ اُس وقت کیوں نہیں کہا کہ بندوق نہیں قلم۔
میرا جہاں یہ سوال مغرب سے ہے وہی بات میں اپنی زمین کی بھی کر رہا تھا کہ اچھا ہے کہ 21 ویں ترمیم کر دی۔ لیکن دہشت گردوں کی فیکٹریاں کیوں بن رہی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ریاست نے اچھے برے دہشت گردوں کا ساز چھیڑ کر رکھا ہوا تھا۔ بہت زیادہ داد دینا چاہوں گا اگر انھوں نے دہشت گردوں میں اچھے برے کا فرق ختم کر دیا۔ مگر کچھ ہماری زمین کی کڑوی فصلیں ہیں۔ اُس کا کیا ہو گا۔ ضرب عضب جاری ہے، قانون بن گیا۔ لیکن کراچی میں چُن چُن کر ڈاکٹرز کو مارا جا رہا ہے۔ ہر روز لاشیں گرتی ہیں، تھر میں پھول بن کھلے آغوش لحد میں جا رہے ہیں۔ آپریشن کے لیے ہر روز ایک نیا عزم جاری کیا جاتا ہے لیکن پنڈی میں دھماکا ہو جاتا ہے۔
اس عظیم ملک میں اُن تمام انٹرنیٹ کے لنک کو بند کر دیا گیا ہے جہاں ہماری روایت کے خلاف فلمیں یا کلپس موجود ہیں۔ لیکن شاید نفرتیں پھیلانا ہمارے کلچر کا حصہ ہے اس لیے انٹرنیٹ پر آپ کو ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کا سارا راشن مل جائے گا جس سے دہشت گردی نہیں ہو گی تو کیا کلچرل شو ہو گا۔ سب کا فوکس لگتا یوں ہے کہ دہشت گردی ہے مگر کوئی انتہا پسندی، عدم برداشت پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ چھوٹا سا عکس دیکھ لیجیے کہ آپ کتنے محفوظ ہیں۔ بہاولپور پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کیا جو کہ نفرت انگیز مواد لوگوں میں تقسیم کر رہا تھا۔ آپ کو یہ جان کر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ شخص ایک اعلیٰ پولیس افسر کا گارڈ تھا۔ اندازہ کیجیے یا آنکھیں بند کر لیں کہ یہ نفرتیں کس حس تک ہمارے اندر سرایت کر چکی ہیں۔
ہر گھر، ہر محلے میں آگ لگی ہوئی ہے۔ کسی کو کسی کا نہیں معلوم کے کون سی بات کسے بری لگے اور وہ قلم پکڑے ہاتھوں کو قلم کر دے۔ جذباتی فیصلے کر لیتے ہیں مگر کوئی ایسی پالیسی بنانے سے قاصر ہیں جس سے ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں ختم ہو سکیں۔ اسی نفرتوں کی وجہ سے تو یہ عالم ہے کہ آج ہمیں اسکولوں کے پہروں کے لیے بندوق کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ یہ ہی نفرتیں تو ہیں کہ جس کی وجہ سے اللہ کے گھر کے باہر پہرے ہیں۔ مسئلہ کا سماجی اور سیاسی حل کیا ہے۔؟ کوئی مدرسوں کے پیچھے پڑا ہے تو کوئی سیکولرازم کے پیچھے۔ جس کی دکان جہاں چل رہی ہے چلا رہا ہے۔
حقیقی بنیادوں پر دائمی حل پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ جہاں تک حکومت کا سوال ہے تو لگتا یوں کہ وہ بس وقت گزار دینا چاہتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے پوائنٹ اسکورنگ پر لگی ہیں۔ چلو دہشت گردی کے حوالے سے آپریشن و سزا کا استحقاق آپ نے فوج کو دے دیا مگر معاشرے میں موجود خلیجوں کو دور کرنے کے لیے حکومت یا سیاسی جماعتیں کیا کر رہی ہیں۔ ؟ غور کیجیے عدم رواداری اور خوف بڑھ رہا ہے۔
ایک ہی محلے میں رہنے والوں نے اپنے اپنے گھروں کی دیواریں اونچی کر لی ہیں۔ آبادیاں اب تقسیم ہو رہی ہیں۔ ایک دوسرے سے خلیج اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ جان بوجھ کر ڈاکٹرز کو قتل کیا جا رہا ہے۔ وہ یہ بتا رہے ہیں کہ تم چاہے جو کر لو ہم آزاد ہیں۔ لاہور ہو کراچی یا پنڈی۔ اور یہ ہو گیا کہ اب قلم کو بندوق نے قید کر لیا ہے۔ قلم والوں کو چھپ کر اپنا کام کرنا پڑ رہا ہے اور بندوق والے جہاں چاہیں جب چاہیں، جو چاہیں آرام سے کر لیں۔ کس بحث میں الُجھ گئے چلو آؤ، چھوڑو یہ قلم کا راگ۔ شادی کے نغمے یاد کرتے ہیں۔ کیوں کہ شادی بڑا مسئلہ ہے دہشت گردی تو روز کی بات ہے۔
کیا پھول کو پھول سے خطرہ ہوتا ہے؟ کیا بکریوں کا ریوڑ ایک دوسرے سے ڈرا یا سہما ہوا ہوتا ہے۔ کیا ہاتھیوں کو ہر وقت اپنے ساتھی ہاتھی سے خوف آتا ہے۔ کیا پانی پانی سے نہیں ملتا ہے؟ تو پھر ایسی کون سی بیماری ہے کہ انسان ہر وقت انسان کے خوف میں مبتلا ہے۔ ہم جو اپنے آپ کو اشرف المخلوق کہتے ہیں۔ ہم جنھیں یہ گمان ہے کہ اپنے علم کی وجہ سے ہی انسان کو تمام مخلوقات میں اعلی مرتبہ حاصل ہے وہی انسان اُسی علم کی جگہوں کو محفوظ بنانے میں لگا ہوا ہے۔ انسان کی درس گاہ کو انسان سے ہی خطرہ ہے۔
سوالات مشکل نہیں ہیں، ہم ایک کنویں کے مینڈک کی طرح بس اپنی عارضی دنیا کو جلد سے جلد ختم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ مغرب اور مشرق میں ایک ہی نعرہ ہے کہ قلم کی طاقت بندوق سے زیادہ ہے۔ لیکن ہمارا کیا حال ہے جو بندوق کا حل بندوق سے عارضی طور پر ڈھونڈ کر پھر امن کی بانسری بجانے لگ جاتے ہیں۔ ہم اشرف المخلوقات کیوں ہیں؟ اسی لیے ناں..... کہ ہم علم کی دلیل سے آگے بڑھتے گئے ہم ارتقا کی منزلیں طے کرتے ہوئے آج مریخ پر قدم رکھ رہے ہیں۔ ہمیں اُس علم، اُس شعور کا استعمال کس طرح کرنا ہے؟
یا صرف نعروں میں قید کر کے اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اسی ڈر اور خوف کے ساتھ سانس لینے کے لیے چھوڑ دینا ہے۔ حال یہ ہے کہ یہاں سے جب ہم اُکتا گئے تو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے مغرب چلے گئے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ اب یہ مغرب کا راستہ بھی بند ہونے والا ہے۔ صاف پانی ملے گا۔ بس ایک نعرہ بن کر رہ گیا۔ کیونکہ کبھی ہم نے اسے صاف نیت کے ساتھ حل کرنے کا سوچا ہی نہیں۔ امن خوشحالی بھی بس نعرہ ہی رہے۔
کیا بندوق نہیں قلم بھی ہمارا ایک نعرہ ہی رہے گا؟ بہت اچھی بات ہے جو سیاسی اور عسکری قیادت اس بات پر ایک ہو گئے ہیں کہ ہمیں بندوق نہیں چاہیے۔ اچھا ہے کہ وہ اس پر متفق ہو گئے کہ بندوق پکڑ کر ہمارے بچوں کو مارنے والوں کو نہیں بخشا جائے گا۔ مگر ہم پھر ایک غلطی کر رہے ہیں۔ اکیسویں ترمیم بہت اچھی بات ہے لیکن یہ ترمیم بندوق والوں کے لیے ہے۔ جو دہشت گردی کرتے ہیں۔ لیکن یہ دہشت گردی کیوں کرتے ہیں؟ یہ نفرتیں کیوں پھیلاتے ہیں۔ یہاں جو سوچ پر پہرے لگا کر بیٹھیں اُن کا کیا کیجیے۔
مغربی ممالک پاکستان کو افغانستان کی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ پاکستان کے ہر شہری کو دہشت گرد کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ مسئلے کا حل غلط طور پر پیش کرتے ہیں دوسروں کی آگ پر خوش ہونے والا اور اُس پر فتح کے نغمے بجانے والے آج خود جب اس آگ میں جل رہے ہیں تب انھیں یہ یاد آ رہا ہے کہ قلم بندوق سے بہتر ہے جب ہماری زمین کو ہماری نسلوں کو اپنی جنگ کے لیے وہ خون میں نہلا رہے تھے جب اپنے مفادات کے لیے وہ ہمیں نفرتیں بیچ رہے تھے جب وہ ہمارے بچوں کو سرخ انقلاب روکنے کے لیے اسکولوں سے اٹھا کر کیمپوں میں منتقل کر رہے تھے جب وہ خود سائنس کی ترقی میں ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کر رہے تھے۔
اُس وقت ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہتھیار دے کر سرحدیں پار کراتے تھے۔ آج اُن کے ہاتھوں میں سے دستانے نکل گئے اور اب انھیں اپنے ہاتھوں پر خون نظر آ رہا ہے تو یہ نعرہ بلند ہو رہا ہے قلم بندوق سے بہتر ہے۔ آج یہ تیس لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں تو تیس لوگ کیوں نہیں نکلے جب چند دنوں پہلے ہی ہمارے یہاں بھی اُن معصوم بچوں کو خون میں نہلا دیا گیا تھا جن کے ہاتھ میں قلم تھے۔ سچ کہتے ہو تم کہ یہ دنیا اب ایک چھوٹا سا گاؤں بن گئی ہے اور جب اس چھوٹے سے گاؤں میں میرا گھر جلتا ہے تو یہ مت سوچو کہ تمھارا گھر نہیں جلے گا۔ اگر قلم کو بندوق پر فوقیت ہے تو یاد رکھیں کہ پھر پورے گاؤں کا ایک ہی قانون ہونا چاہیے۔ زیادہ دور مت جائیے۔ ابھی کی ہی تو بات ہے داعش۔ اُس کے قیام میں کون کون تھا؟ جب مشرق وسطی جل رہا تھا تو کون خوشیاں منا رہا تھا۔ یہ لیبیا میں کون تھا۔ اُس وقت کیوں نہیں کہا کہ بندوق نہیں قلم۔
میرا جہاں یہ سوال مغرب سے ہے وہی بات میں اپنی زمین کی بھی کر رہا تھا کہ اچھا ہے کہ 21 ویں ترمیم کر دی۔ لیکن دہشت گردوں کی فیکٹریاں کیوں بن رہی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ریاست نے اچھے برے دہشت گردوں کا ساز چھیڑ کر رکھا ہوا تھا۔ بہت زیادہ داد دینا چاہوں گا اگر انھوں نے دہشت گردوں میں اچھے برے کا فرق ختم کر دیا۔ مگر کچھ ہماری زمین کی کڑوی فصلیں ہیں۔ اُس کا کیا ہو گا۔ ضرب عضب جاری ہے، قانون بن گیا۔ لیکن کراچی میں چُن چُن کر ڈاکٹرز کو مارا جا رہا ہے۔ ہر روز لاشیں گرتی ہیں، تھر میں پھول بن کھلے آغوش لحد میں جا رہے ہیں۔ آپریشن کے لیے ہر روز ایک نیا عزم جاری کیا جاتا ہے لیکن پنڈی میں دھماکا ہو جاتا ہے۔
اس عظیم ملک میں اُن تمام انٹرنیٹ کے لنک کو بند کر دیا گیا ہے جہاں ہماری روایت کے خلاف فلمیں یا کلپس موجود ہیں۔ لیکن شاید نفرتیں پھیلانا ہمارے کلچر کا حصہ ہے اس لیے انٹرنیٹ پر آپ کو ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کا سارا راشن مل جائے گا جس سے دہشت گردی نہیں ہو گی تو کیا کلچرل شو ہو گا۔ سب کا فوکس لگتا یوں ہے کہ دہشت گردی ہے مگر کوئی انتہا پسندی، عدم برداشت پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ چھوٹا سا عکس دیکھ لیجیے کہ آپ کتنے محفوظ ہیں۔ بہاولپور پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کیا جو کہ نفرت انگیز مواد لوگوں میں تقسیم کر رہا تھا۔ آپ کو یہ جان کر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ شخص ایک اعلیٰ پولیس افسر کا گارڈ تھا۔ اندازہ کیجیے یا آنکھیں بند کر لیں کہ یہ نفرتیں کس حس تک ہمارے اندر سرایت کر چکی ہیں۔
ہر گھر، ہر محلے میں آگ لگی ہوئی ہے۔ کسی کو کسی کا نہیں معلوم کے کون سی بات کسے بری لگے اور وہ قلم پکڑے ہاتھوں کو قلم کر دے۔ جذباتی فیصلے کر لیتے ہیں مگر کوئی ایسی پالیسی بنانے سے قاصر ہیں جس سے ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں ختم ہو سکیں۔ اسی نفرتوں کی وجہ سے تو یہ عالم ہے کہ آج ہمیں اسکولوں کے پہروں کے لیے بندوق کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ یہ ہی نفرتیں تو ہیں کہ جس کی وجہ سے اللہ کے گھر کے باہر پہرے ہیں۔ مسئلہ کا سماجی اور سیاسی حل کیا ہے۔؟ کوئی مدرسوں کے پیچھے پڑا ہے تو کوئی سیکولرازم کے پیچھے۔ جس کی دکان جہاں چل رہی ہے چلا رہا ہے۔
حقیقی بنیادوں پر دائمی حل پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ جہاں تک حکومت کا سوال ہے تو لگتا یوں کہ وہ بس وقت گزار دینا چاہتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے پوائنٹ اسکورنگ پر لگی ہیں۔ چلو دہشت گردی کے حوالے سے آپریشن و سزا کا استحقاق آپ نے فوج کو دے دیا مگر معاشرے میں موجود خلیجوں کو دور کرنے کے لیے حکومت یا سیاسی جماعتیں کیا کر رہی ہیں۔ ؟ غور کیجیے عدم رواداری اور خوف بڑھ رہا ہے۔
ایک ہی محلے میں رہنے والوں نے اپنے اپنے گھروں کی دیواریں اونچی کر لی ہیں۔ آبادیاں اب تقسیم ہو رہی ہیں۔ ایک دوسرے سے خلیج اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ جان بوجھ کر ڈاکٹرز کو قتل کیا جا رہا ہے۔ وہ یہ بتا رہے ہیں کہ تم چاہے جو کر لو ہم آزاد ہیں۔ لاہور ہو کراچی یا پنڈی۔ اور یہ ہو گیا کہ اب قلم کو بندوق نے قید کر لیا ہے۔ قلم والوں کو چھپ کر اپنا کام کرنا پڑ رہا ہے اور بندوق والے جہاں چاہیں جب چاہیں، جو چاہیں آرام سے کر لیں۔ کس بحث میں الُجھ گئے چلو آؤ، چھوڑو یہ قلم کا راگ۔ شادی کے نغمے یاد کرتے ہیں۔ کیوں کہ شادی بڑا مسئلہ ہے دہشت گردی تو روز کی بات ہے۔