’’احمد فراز‘‘ محبتوں کے شاعر
احمد فراز کی شاعری میں وہ تمام جذبات ،کیفیات اور وسوسے موجود ہیں جو محبت کے سفر پر جانے والوں کے ہوتے ہیں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ شاعری کی بات چل رہی ہو اور احمد فراز کا ذکر نہ ہو۔ بہت ہی کم شعراء ایسے ہیں جنہیں نوجوانوں میں پذیرائی ملی ہو اور احمد فراز ان میں سے ایک ہیں۔ ان کی رومانی شاعری کو نوجوانوں میں بے حد پذیرائی ملی۔ اقبال اور فیض کے بعد قبولِ عام کا جو درجہ فراز کو حاصل ہوا وہ اْردو شاعری میں اور کسی کو نصیب نہ ہوسکا۔
احمد فراز نے اس مقبولیت کا کچھ مزہ تو پشاور میں اپنی طالب علمی کے دوران ہی چکھ لیا تھا لیکن عملی زندگی شروع کرنے کے بعد اسی مقبولیت کی بناء پر انہیں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ ایک شاعر کے طور پر فراز شعر کی تکنیکی باریکیوں سے واقفیت کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے۔ اْن کا کہنا تھا کہ شاعر اور ادیب صرف لفظوں کا بازی گر نہیں ہوتا بلکہ اس کی کچھ سماجی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ وہ ایک بے حِس، بے خبر اور بے ضمیر شخص کی طرح گِردوپیش کے حالات سے بے نیاز ہو کر زندگی نہیں گزار سکتا۔
احمد فراز 14جنوری 1931کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور فراز ان کا تخلص تھا۔ ابتدائی تعلیم کوہاٹ میں حاصل کی پھر کوہاٹ سے پشاور اپنے خاندان والوں کے ساتھ نقل مکانی کرگئے۔ ایڈورڈ کالج سے ایم اے اردو اور فارسی میں کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی میں بطور لیکچرار پڑھانے لگے۔ یونیورسٹی میں لیکچر شپ کے دوران ہی آپ کے دو مجموعے ''تنہا تنہا '' اور ''دردآشوب'' منظر عام پر آئے۔ ان کی شاعری پڑھ کر لوگ ان کے دیوانے ہو گئے۔ جو بھی ان کی شاعری پڑھتا ان سے ملنے کی اور انہیں دیکھنے کی کوشش کرنے لگتے۔
ان کے لئے شاعری وجہ شہرت بننے لگی تو انہوں نے ہر چیز کو پس پشت ڈال دیا اور صرف شاعری پر توجہ دینے لگے، پھر کیا تھا ان کے مجموعہ کلام دھڑا دھڑ شائع ہونے لگے۔ ان کے دوسرے مجموعہ کلام ''درد آشوب'' پر انہیں پاکستان رائٹر گلڈ کی جانب سے ''آدم جی ایوارڈ'' سے نوازا گیا۔ پاکستان میں انہیں بہت سے مختلف ایوارڈ سے تو نوازا ہی گیا لیکن بھارتی بھی ان کی شاعری سے متاثر نظر آئے۔ جامعہ ملیہ بھارت میں ''احمد فراز کی غزل'' کے نام سے مقالہ لکھا گیا۔ ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ بھارت میں انہیں فراق گور کھپوری اور ٹاٹا ایوارڈ سے نوازا گیا۔
احمد فراز فوجی مارشل لاء کے بہت مخالف تھے۔ اِس مخالفت کی وجہ سے انہیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں جلا وطنی بھی کاٹنی پڑی۔ 2004 میں انہیں ادبی خدمات کے صِلے میں 'ہلالِ امتیاز' بخشا گیا لیکن دو برس بعد انہوں نے سابق صدر مشرف کی پالیسوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ اعزاز واپس کردیا۔
احمد فراز نوجوان نسل کے آئیڈیل سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں وہ تمام جذبات، کیفیات اور وسوسے موجود ہیں جو محبت کے سفر پر جانے والوں کے ہوتے ہیں ، یہ فراز کی شاعری کا ہی کمال ہے کہ نوجوانوں نے اپنی کتابوں میں پھول رکھنے شروع کردیئے اور اپنی محبتوں کے سفر کو فراز کی شاعری کے سہارے طے کرنے لگے تھے۔
احمد فراز نے نہ صرف رومانی شاعری لکھی بلکہ انہوں نے انسانی بے حسی، ناانصافی، حالات کے جبر اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی بھرپور شاعری کی۔ احمد فراز اب ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کی شاعری اب بھی محبتیں بکھیر رہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
احمد فراز نے اس مقبولیت کا کچھ مزہ تو پشاور میں اپنی طالب علمی کے دوران ہی چکھ لیا تھا لیکن عملی زندگی شروع کرنے کے بعد اسی مقبولیت کی بناء پر انہیں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ ایک شاعر کے طور پر فراز شعر کی تکنیکی باریکیوں سے واقفیت کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے۔ اْن کا کہنا تھا کہ شاعر اور ادیب صرف لفظوں کا بازی گر نہیں ہوتا بلکہ اس کی کچھ سماجی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ وہ ایک بے حِس، بے خبر اور بے ضمیر شخص کی طرح گِردوپیش کے حالات سے بے نیاز ہو کر زندگی نہیں گزار سکتا۔
احمد فراز 14جنوری 1931کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور فراز ان کا تخلص تھا۔ ابتدائی تعلیم کوہاٹ میں حاصل کی پھر کوہاٹ سے پشاور اپنے خاندان والوں کے ساتھ نقل مکانی کرگئے۔ ایڈورڈ کالج سے ایم اے اردو اور فارسی میں کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی میں بطور لیکچرار پڑھانے لگے۔ یونیورسٹی میں لیکچر شپ کے دوران ہی آپ کے دو مجموعے ''تنہا تنہا '' اور ''دردآشوب'' منظر عام پر آئے۔ ان کی شاعری پڑھ کر لوگ ان کے دیوانے ہو گئے۔ جو بھی ان کی شاعری پڑھتا ان سے ملنے کی اور انہیں دیکھنے کی کوشش کرنے لگتے۔
ان کے لئے شاعری وجہ شہرت بننے لگی تو انہوں نے ہر چیز کو پس پشت ڈال دیا اور صرف شاعری پر توجہ دینے لگے، پھر کیا تھا ان کے مجموعہ کلام دھڑا دھڑ شائع ہونے لگے۔ ان کے دوسرے مجموعہ کلام ''درد آشوب'' پر انہیں پاکستان رائٹر گلڈ کی جانب سے ''آدم جی ایوارڈ'' سے نوازا گیا۔ پاکستان میں انہیں بہت سے مختلف ایوارڈ سے تو نوازا ہی گیا لیکن بھارتی بھی ان کی شاعری سے متاثر نظر آئے۔ جامعہ ملیہ بھارت میں ''احمد فراز کی غزل'' کے نام سے مقالہ لکھا گیا۔ ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ بھارت میں انہیں فراق گور کھپوری اور ٹاٹا ایوارڈ سے نوازا گیا۔
احمد فراز فوجی مارشل لاء کے بہت مخالف تھے۔ اِس مخالفت کی وجہ سے انہیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں جلا وطنی بھی کاٹنی پڑی۔ 2004 میں انہیں ادبی خدمات کے صِلے میں 'ہلالِ امتیاز' بخشا گیا لیکن دو برس بعد انہوں نے سابق صدر مشرف کی پالیسوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ اعزاز واپس کردیا۔
احمد فراز نوجوان نسل کے آئیڈیل سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں وہ تمام جذبات، کیفیات اور وسوسے موجود ہیں جو محبت کے سفر پر جانے والوں کے ہوتے ہیں ، یہ فراز کی شاعری کا ہی کمال ہے کہ نوجوانوں نے اپنی کتابوں میں پھول رکھنے شروع کردیئے اور اپنی محبتوں کے سفر کو فراز کی شاعری کے سہارے طے کرنے لگے تھے۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
احمد فراز نے نہ صرف رومانی شاعری لکھی بلکہ انہوں نے انسانی بے حسی، ناانصافی، حالات کے جبر اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی بھرپور شاعری کی۔ احمد فراز اب ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کی شاعری اب بھی محبتیں بکھیر رہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔