بحیرۂ مُردار مَر رہا ہے
پانی کی گھٹتی رسد کے باعث نمک کا سمندر غائب ہوجائے گا
بحیرۂ مُردار اسرائیل اور اردن کے درمیان واقع ہے۔ اس کی لمبائی پچاس کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ چوڑائی پندرہ کلو میٹر ہے۔ بحیرۂ مُردار کی دو خصوصیات اسے دیگر سمندروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
یہ زمین پر سطح سمندر سے سب سے نچلا مقام ہے۔ اس کی گہرائی 1407 فٹ ہے۔ اسے بحیرۂ نمک بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کا انتہائی نمکین ہونا ہے۔ یہ عام سمندروں سے 8.6 گنا زیادہ نمکین ہے۔ اس میں شوریدگی کی شرح 30 فی صد ہے۔ بہت زیادہ نمکین ہونے کی وجہ سے بحیرۂ مُردار میں آبی حیات کا وجود ممکن نہیں۔ غالباً اسی لیے اسے بحیرۂ مُردار کہا جاتا ہے۔
بحیرۂ مُردار کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ پانی میں نمک کی بہت زیادہ مقدار ہونے کی وجہ سے کوئی انسان اس میں ڈوب نہیں سکتا۔ بحیرۂ مُردار کو ایک جھیل بھی تصور کیا جاتا ہے، کیوں کہ اسے پانی دریائے اُردن سے فراہم ہوتا ہے۔
بحیرۂ روم کے اردگرد کے علاقوں میں رہنے والوں کے لیے، نمکین پانی کی یہ سب سے گہری جھیل ہزاروں برس سے ایک معروف سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ نہ صرف بحیرۂ مُردار کے پانی میں بلاخوف تیراکی کرتے ہیں بلکہ اس کے پانی کے طبی خواص سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ اس منفرد سمندر کا پانی بالخصوص جوڑوں کے امراض کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اس کے پانی سے حاصل شدہ نمک اور دیگر معدنیات سے کاسمیٹکس اور چہرے پر لیپنے کے لیے ماسک وغیرہ بھی بناتے ہیں۔
ہزاروں برس سے لوگوں کی توجہ کا مرکز چلا آرہا بحیرۂ مُردار آنے والے وقت میں صفحۂ ہستی سے مٹ سکتا ہے کیوں کہ اس کا حجم رفتہ رفتہ سُکڑ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دریائے اردن سے جتنا پانی اس کی حدود میں داخل ہوتا ہے اس سے زیادہ پانی اس آبی ذخیرے سے خارج ہوجاتا ہے۔ بحیرۂ مُردار میں پانی کی سب سے پہلی پیمائش 1927ء میں کی گئی تھی۔ بعدازاں وقتاً فوقتاً حاصل ہونے والے اعدادو شمار سے انداز ہوا کہ نمک کے سمندر کا حجم ہورہا ہے۔
اسرائیلی انسٹیٹیوٹ آف لمنولوجیکل ریسرچ بحیرۂ مُردار پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ اس مقصد کے لیے سمندر کے وسط میں ایک پیمائشی آلہ ( buoy) چھوڑا گیا تھا۔ اس آلے کے حاصل کردہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 1950ء کی دہائی سے لے کر اب تک بحیرۂ مُردار کی گہرائی 131 فٹ کم ہوچکی ہے۔ بہ الفاظ دیگر اس میں سطح آب 131 فٹ تک گھٹ گئی ہے۔ اس کی وجہ بحیرۂ مُردار میں آنے والے اور خارج ہونے والے پانی کی مقدار میں عدم توازن ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے اُردن سے آنے والے پانی کی مقدار نمایاں طور پر کم ہوئی ہے۔ اس کا سبب دریائے اُردن کے پانی کا زرعی مقاصد کے لیے بڑھتا ہوا استعمال بتایا جاتا ہے۔ بحیرۂ مُردار کے ضمن میں کی گئی متعدد تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر یہاں پانی کی آمد میں اضافہ نہ ہوا تو آنے والے وقتوں میں یہ سمندر سُوکھ جائے گا اور محض یادیں ہی باقی رہ جائیں گی۔
یہ زمین پر سطح سمندر سے سب سے نچلا مقام ہے۔ اس کی گہرائی 1407 فٹ ہے۔ اسے بحیرۂ نمک بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کا انتہائی نمکین ہونا ہے۔ یہ عام سمندروں سے 8.6 گنا زیادہ نمکین ہے۔ اس میں شوریدگی کی شرح 30 فی صد ہے۔ بہت زیادہ نمکین ہونے کی وجہ سے بحیرۂ مُردار میں آبی حیات کا وجود ممکن نہیں۔ غالباً اسی لیے اسے بحیرۂ مُردار کہا جاتا ہے۔
بحیرۂ مُردار کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ پانی میں نمک کی بہت زیادہ مقدار ہونے کی وجہ سے کوئی انسان اس میں ڈوب نہیں سکتا۔ بحیرۂ مُردار کو ایک جھیل بھی تصور کیا جاتا ہے، کیوں کہ اسے پانی دریائے اُردن سے فراہم ہوتا ہے۔
بحیرۂ روم کے اردگرد کے علاقوں میں رہنے والوں کے لیے، نمکین پانی کی یہ سب سے گہری جھیل ہزاروں برس سے ایک معروف سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ نہ صرف بحیرۂ مُردار کے پانی میں بلاخوف تیراکی کرتے ہیں بلکہ اس کے پانی کے طبی خواص سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ اس منفرد سمندر کا پانی بالخصوص جوڑوں کے امراض کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اس کے پانی سے حاصل شدہ نمک اور دیگر معدنیات سے کاسمیٹکس اور چہرے پر لیپنے کے لیے ماسک وغیرہ بھی بناتے ہیں۔
ہزاروں برس سے لوگوں کی توجہ کا مرکز چلا آرہا بحیرۂ مُردار آنے والے وقت میں صفحۂ ہستی سے مٹ سکتا ہے کیوں کہ اس کا حجم رفتہ رفتہ سُکڑ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دریائے اردن سے جتنا پانی اس کی حدود میں داخل ہوتا ہے اس سے زیادہ پانی اس آبی ذخیرے سے خارج ہوجاتا ہے۔ بحیرۂ مُردار میں پانی کی سب سے پہلی پیمائش 1927ء میں کی گئی تھی۔ بعدازاں وقتاً فوقتاً حاصل ہونے والے اعدادو شمار سے انداز ہوا کہ نمک کے سمندر کا حجم ہورہا ہے۔
اسرائیلی انسٹیٹیوٹ آف لمنولوجیکل ریسرچ بحیرۂ مُردار پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ اس مقصد کے لیے سمندر کے وسط میں ایک پیمائشی آلہ ( buoy) چھوڑا گیا تھا۔ اس آلے کے حاصل کردہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 1950ء کی دہائی سے لے کر اب تک بحیرۂ مُردار کی گہرائی 131 فٹ کم ہوچکی ہے۔ بہ الفاظ دیگر اس میں سطح آب 131 فٹ تک گھٹ گئی ہے۔ اس کی وجہ بحیرۂ مُردار میں آنے والے اور خارج ہونے والے پانی کی مقدار میں عدم توازن ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے اُردن سے آنے والے پانی کی مقدار نمایاں طور پر کم ہوئی ہے۔ اس کا سبب دریائے اُردن کے پانی کا زرعی مقاصد کے لیے بڑھتا ہوا استعمال بتایا جاتا ہے۔ بحیرۂ مُردار کے ضمن میں کی گئی متعدد تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر یہاں پانی کی آمد میں اضافہ نہ ہوا تو آنے والے وقتوں میں یہ سمندر سُوکھ جائے گا اور محض یادیں ہی باقی رہ جائیں گی۔