اندھیرنگری
پانچ سالہ معین کا کیس اتنا کرب ناک ہے کہ میں اس پر لکھے بنا نہ رہ سکی۔ بہت دیر تک جب معین گھر
QUETTA:
اور سزا دینے کے خلاف جائیے، جرم یوں ہی بڑھتے رہیں گے۔ کیا میں اور آپ آج اسی طرح سے اپنے بچوں کو گلی محلے میں اپنا بچپن گزارنے کی اجازت دے سکتے ہیں جیسے ہم کھیلا کرتے تھے؟ ہرگز نہیں۔ اجازت دے بھی دی جائے تب بھی روز رونما ہونے والے بچوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات پریشان کیے رکھتے ہیں۔
یہ سب کچھ ہوتا تو بہت عرصے سے آیا ہے، لیکن اب صورت حال اتنی گمبھیر ہوتی جا رہی ہے کہ آنے والا وقت دل میں مزید پریشانی کی لہریں پیدا کیے دیتا ہے اور یہ اندیشے اَن ہونی کے نہیں بلکہ ہونی کے ہیں۔ اگر کل کو یہ ہونی ہمارے اپنے گھر تک پہنچ گئی تو کیا ہو گا۔۔۔۔۔
لاہور کے علاقے گرین ٹاؤن میں ایک ننھے وجود کی لاش اٹھائے وہ لوگ سراپا احتجاج نظر آ رہے تھے۔ وہ اس معصوم کے قاتل کو خود سزا دینا چاہتے تھے، کیوں کہ انھیں ملک کے قانون پر بھروسا نہ تھا۔ ہونا بھی نہیں چاہیے! ماضی میں ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں کہ جن میں قانون کا کردار ہمیں صفر نظر آیا۔ اکثر تو بات تھانے سے نکل کر عدلیہ تک پہنچ ہی نہیں پاتی، معاملہ وہی پر لین دین کے بعد خارج کر دیا جاتا ہے اور اگر الزام کسی مذہبی یا سیاسی وابستگی رکھنے والے ملزم کے خلاف ہوتو بڑے بڑے طرم خان بھی خاموشی اختیار کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔
پانچ سالہ معین کا کیس اتنا کرب ناک ہے کہ میں اس پر لکھے بنا نہ رہ سکی۔ بہت دیر تک جب معین گھر نہ لوٹا تو اسے تلاش کیا گیا۔ مسجد میں اعلان کرواتے، لیکن مسجد کے ہی ایک کمرے میں اس کا ننھا وجود ایک رسی میں جھولتا پایا گیا۔ وہ مر چکا تھا۔ لاش کو فوراً اسپتال منقل کیا گیا، جہاں بچے سے زیادتی کر کے قتل کیے جانے کی تصدیق ہوئی۔ صرف زیادتی کی ہی تصدیق نہیں ہوئی، بلکہ یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ بچے کو گلا گھونٹ کر بے دردی سے مار دیا گیا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ گلا گھونٹ کر مارنے سے ایک انسان کو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ وہ دیر تک تڑپتا رہتا ہے۔ یہ کوئی پھانسی نہیں کہ ایک جھٹکے میں انسان ہوا میں جھول کر مر جائے۔ یقیناً یہ سب کچھ پڑھتے ہوئے آپ کو شدید الجھن ہو رہی ہو گی۔ آپ یہ سوچیے جس پر گزری اس کا کیا حال ہوا ہو گا۔ اس کے گھر والوں کا یہ مطالبہ ٹھیک ہے کہ نہیں کہ ان کے مجرم کو ان کے حوالے کر دیا جائے، تا کہ وہ اپنے انتقام کے آگ بجھا سکیں۔مجھے نہیں یاد پڑتا کہ پاکستان میں کبھی بھی کسی ایسے مجرم کو سزائے موت دی گئی ہو جو بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل میں ملوث ہو۔
سزا کا خوف ہی نہیں تو جرم رکیں گے کیسے۔ مارچ 2014ء میں زیادتی اور پھر کلہاڑی کے وار سے قتل کر دیا جانے والا سات سالہ وسیم، جس کی لاش پانی کے ٹینک میں سے برآمد ہوئی یا کراچی میں سمندر پر ملنے والی تیرہ سالہ بچی کی لاش ہو، جسے اغواء کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور قتل کر کے لاش پھنک دی گئی۔ ایسی کتنی ہی مثالیں موجود ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہماری قوم اپنی درندگی اور جہالت کی آخری انتہا کو چھو رہی ہے۔ یہ درندگی اب ہمیں اپنے آس پاس موجود چہروں پر عیاں نظر آنے لگی ہے نجانے اور کتنی حدیں پار کرنا رہ گیا ہے۔
گزشتہ سال ایک اندازے کے مطابق تقریبا 3 ہزار بچے اغوا کیے گیے، جب کہ تقریباً 1500 سے زیادہ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور کتنے ہی بچے ایسے ہوں گے جن کے ساتھ پیش آنے والے بھیانک واقعات کو عزت کے خوف سے چھپا دیا گیا۔
تعداد بڑھتی جا رہی ہے، کیوںکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں اس حوالے سے نہ تو موثر قوانین بنائے گے ہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر کوئی ایسا ادارہ قائم کیا گیا ہے جہاں بچوں کے حقوق کی نگہ بانی کی جا سکے۔
یہ معاملہ بلکل ایسا ہی ہے جیسے مردہ جسم قبروں سے نکال کر کھانے والے بھیڑیوں کو رہا کر دیا گیا تھا کہ ان کے خلاف ہمارے قانون میں کوئی سزا درج ہی نہ تھی۔ یہ تو وہ درندگی ہے جو آج میڈیا کے فعال کردار کی وجہ سے ہمارے سامنے آئی ہے۔ نجانے کتنے ہی ایسے واقعات اب بھی ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں۔
اب چاہے بچوں سے زیادتی کے واقعات ہوں یا خواتین کی بے حرمتی کے کیسز، مجرم کو سزا کا خوف کہاں۔ اول تو مجرم پکڑا نہیں جاتا اور اگر کوئی قانون کے ہاتھ لگ بھی جائے تو چند سال کی سزا کے بعد اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کیوں آخر کیوں؟ جس طرح کسی معصوم کی عزت کا تماشا بنا کر اسے زندگی اور موت کے بیچ میں عمر بھر سسکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، اسی طرح ایسے جر م کے مرتکب کی سزا کم سے کم موت ہی ہونی چاہیے۔ قانون ساز اداروں کو از سر نو اس سلسلے میں قانون سازی کرنی چاہیے اور اس قسم کے مقدمات کو فوری نوعیت کی بنیاد پر نمٹانا چاہے۔
بچوں کا اغوا ہونا یا لاپتہ ہونا کس طرح معاشرے میں برائی پھیلا رہا ہے، شاید اس مسئلے کی سنگینی کا صاحب اقتدار اور ایوانوں میں بیٹھے عوامی نمایندوں کو اندازہ ہی نہیں۔ جو عوام اور معاشر ے کی خرابیوں پر ہی نظر نہ رکھیں وہ کس طرح عوام کے نمایندے ہو سکتے ہیں۔ اپنی گدی بچانے اور اپنا نام تاریخ کے اوراق میں لکھوانے کے لیے بل تو پیش کر دیا جاتا ہے لیکن عمل درآمد ہوتا کہیں نظر نہیں۔
کسی طرح کی قانون سازی پر متفقہ طور پر عمل درآمد ہو بھی جائے تو پھر وہ قانون فقط کاغذوں تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے پھر کوئی اسمبلی کا رکن اپنے علاقے میں ہی سہی اس جرم کی روک تھام کے لیے کوشش نہیں کرتا۔بچے اغوا کرنے کے بعد بھکاریوں یا جرائم پیشہ گروہ کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔ اغوا ہونے والے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد انھیں قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اغوا ہونے والے بچوں کو علاقہ غیر لے جانے کے شواہد بھی ملے ہیں۔ ان بچوں سے جنسی زیادتی کی جاتی ہے اور انھیں جبر ی مشقت اور جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن ہمارے اعلیٰ عہدے دار سب کچھ جانتے ہوئے بھی فقط تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ شدید جنسی گھٹن کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور یہ گھٹن کیوں ہے؟ اس کا تفصیلی ذکر میں اپنے اگلے کالم میں کروں گی۔
ہمیں اپنے بچوں کو اب خود بچانا ہو گا۔ معاشرے کے ناسوروں کے خلاف اگر آج ہم نے چپ کی راہِ فرار اختیار کر لی تو کل یہی چپ ہمارے اپنے گھر کو نگل لے گی اور ہم پھر حرف شکایت زبان پر نہیں لا پائیں گے۔ میں حکومت پاکستان سے ہر اس مجرم کو سرِعام پھانسی دینے کا مطالبہ کرتی ہوں جو بچوں کے ساتھ زیادتی کے گھناؤنے جرم کا مرتکب ہے۔ انھیں سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے، نہ کہ جیل ان کے لیے چند دن کی آرام گاہ بنی رہے اور پھر یہ بھیڑیے باہر نکل کر اور لوگوں کے سامنے اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت بن جائیں کہ دیکھو! یہ ہے ہمارا قانون، یہ ہوں میں تمھارے سامنے۔ اس طرح اور لوگوں کو بھی جرم کرنے کا حوصلہ ملے۔۔۔ذرا سوچیے!