خاموش پھولوں کا قبرستان
یہ ’’مملکت خداداد پاکستان‘‘ نہ صرف خداداد پاکستان ہے بلکہ اسے شروع ہی سے ’’خدا حوالے‘‘ بھی رکھا گیا ہے
یہ ''مملکت خداداد پاکستان'' نہ صرف خداداد پاکستان ہے بلکہ اسے شروع ہی سے ''خدا حوالے'' بھی رکھا گیا ہے۔ قوموں کی ترقی میں وقت لگتا ہے، ''تشکیل'' میں نہیں کیونکہ ''تشکیل شدہ'' ہی قوم کہلاتے ہیں۔ ہم 67 سال میں ایک قوم نہ بن سکے اور علاقوں اور ''ذہنی تقسیم'' میں ہی مبتلا رہے۔
یہ بات اس لیے قرین قیاس سے بھی زیادہ ہے کہ ہمارا ''خودغرضانہ'' رویہ اس کا عکاس ہے۔ لکھنے کو تو آپ کچھ بھی لکھ دیں اس سے نہ گندم پیدا ہو گی اور نہ چمن میں ''گلاب'' حقائق تلخ ہیں سو تلخ ہی رہیں گے جب تک ''ہم سب'' ایک ہو کر اپنے دکھ کم از کم Share نہ کریں۔
ساری دنیا جمع پر یقین رکھتی ہے۔ کشمیر، فلسطین اور اس جگہ جہاں آزادی کا سوال درپیش ہے لوگ ''جمع'' ہیں اور آزادی نہ دینے والے ''تقسیم''۔ کیونکہ ان کا بظاہر ''اجتماع'' ظلم کے لیے ہے اس لیے رد کیا جانا چاہیے کہ رد کیا جانا ہی اس کا حق ہے۔
خیر ہم تو اپنی بات کر رہے ہیں کہ 67 سال میں ہم نے من حیث القوم نہیں بلکہ ''من حیث الگروہ'' اپنے مفادات کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں ہم گروہ ہیں قوم نہیں کیونکہ قومیں اپنے افراد کی ''فلاح'' کے لیے کاوشیں کرتی ہیں ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا ''ذاتی فوائد'' پر توجہ رکھی اور ان کو ہی پروان چڑھایا۔ سب سے پہلے Merit کا خون کیا کہ یہ ذاتی فوائد کے راستے کی سب سے بڑی دیوار تھا۔کسی اور کا بچہ کیوں ترقی کرے میرا کیوں نہیں بے شک وہ قابل ہو مگر میرا بچہ تو میرا ہے نا، میرا اس قابل بچے سے کیا واسطہ ہو گا کسی کا بچہ اس کے کون سے خاندانی نجابت یا دولت کے پہیے لگے ہیں جو میرے بچے کے لگے ہوئے ہیں لہٰذا یہ نالائق دوڑے گا بھی دو نمبر کے طریقوں سے جائز بھی کہلائے گا اور ترقی بھی کرے گا۔ تباہ ہو گیا معاشرہ اس ''خودغرضی'' کے ہاتھوں۔
حاجی صاحب بھی بجلی ''کنڈے'' کی استعمال کرتے ہیں۔ سب کرتے ہیں محلے میں تو حاجی صاحب کیوں نہیں؟ اگر کہو کہ ایسا آپ کو نہیں کرنا چاہیے تھا تو بات آ جائے گی گورنمنٹ کی طرف۔ صاحب کیا کریں آپ بل دیکھیں آخر زندہ تو رہنا ہے۔ اس میں سب کے پاؤں میں ایک ہاتھی کا پاؤں گورنمنٹ ہے۔
کیا کریں گورنمنٹ کی شکایت کس ''گورنمنٹ'' سے کریں۔ اب ایک چھوٹی سی بات ہی دیکھ لیجیے کہ جو بظاہر چھوٹی مگر بہت بڑی ہے۔ حکومت نے بڑا کرم کیا ہے کہ مزدور کی تنخواہ بارہ ہزار روپے کر دی ہے یعنی 400 روپے روزانہ۔ ایک کلو دودھ 80 روپے، چاول 150 روپے، آلو 60 روپے، گوشت 400 روپے بڑا، آٹا تقریباً50 روپے، ابھی مکان کا کرایہ، بجلی اور گیس کا بل الگ ہے، بچوں کی تعلیم تو خواب ہی ہے مزدور کے لیے۔
یہ تو ذکر ہے اس مزدور کا جو روزانہ کام کرتا ہے اور شاید تنخواہ پاتا ہے۔ اگر باقاعدہ مزدور کی بات کی جائے تو31 کے مہینے میں شاید 5 جمعے اور عام طور پر 4 جمعے نکال دیں کہ بارہ ہزار میں سے 1600 روپے یا 2000 روپے اور کم کر لیں۔
دوسرے ملکوں میں جب مزدور کام کرنے آتا ہے تو اپنی کار یا کم ازکم بائیک پر آتا ہے اور ہمارے یہاں بسوں میں دھکے کھاتا ہے۔ رکشہ تو وہ افورڈ ہی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ بھی تو اس 400 میں سے ہی دینا ہوں گے۔ یہ وہ مزدور ہیں جو کارخانوں میں یا سڑکوں کے کنارے مزدوری کے لیے آپ کو نظر آتے ہیں اور جن سے آپ ضرورت کے مطابق مزدوری لیتے ہیں ادائیگی کرتے ہیں وہ بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور آپ بھی ایک طرح مطمئن ہیں۔ہمارے اس ''بے حس'' اور ''سنگدل'' معاشرے میں اور بھی کئی قسم کے مزدور ہیں جن پر شاید کسی کی توجہ نہیں ہے وہ ہیں ''قلم مزدور'' اور ''آواز مزدور'' اور شاید ایک قسم اور ہے ''ساز مزدور''۔
''قلم مزدور'' میں سارے مصنف، کالمسٹ، رپورٹر، اور قلم سے کام کرنے والے ''پڑھے لکھے مزدور'' ہیں جو دوسرے ملکوں میں ''اپنے لکھے'' پر ارب پتی بن جاتے ہیں یہاں صرف ''پتی'' بنتے ہیں اور گھر سے بھی ''جھڑکیاں'' کھاتے ہیں۔ ''آواز مزدور'' وہ سارے صدا کار ہیں، ایکٹر ہیں جو ریڈیو، ٹیلی ویژن، تھیٹر، فلم میں کام کرتے ہیں۔ اور ''ساز مزدور'' وہ سارے ''سازندے'' ہیں جو موسیقی کے شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
پاکستان میں ان میں سے کسی کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ وہ مزدور جو 12000 یا کم ماہانہ کما لیتے ہیں، یہ لوگ بعض اوقات اس سے بھی کم حاصل کر پاتے ہیں ایک ماہ میں۔ اخباروں کے ملازمین کی شکایت عام ہے کہ کئی کئی ماہ کی تنخواہیں نہیں ملتیں اب ان میں اور بلدیہ کے ملازمین میں زیادہ فرق نہیں ہے وجہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ اخبار یا چینل کما نہیں رہا۔ وجہ صاف ظاہر ہے آزادی کے لیے لڑنے والے بعد میں سوداگر بن جاتے ہیں اگر دولت کی دیوی ان کے قدم چوم لے اور پاکستان میں یہ دیوی فراخ دلی سے سب کے قدم چوم چکی ہے۔
یہ تو عالم ہے، اوقات کار کو تو کیا کہیں، حالات کار سے ہی فرصت نہیں تو ان کا کیا ذکر ہے وہ بھی مالک کے کرم پر ہے۔ ''مالک'' کا Concept ہی ظالمانہ ہے۔ ایک ادارے میں سب لوگ ملازم اور ایک مالک یہ ایک عجیب تصور ہے مگر ہے اور قائم ہے۔ ٹریڈ یونین ازم کا جنازہ تو ہر ادارے میں ''مالک ساختہ'' یونینوں نے نکال دیا ہے۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ نشریاتی اداروں خصوصاً ریڈیو اور شاید ٹی وی میں بھی حکومت نے ان مظلوم 'قلم مزدوروں، آواز مزدوروں اور ساز مزدوروں'' سے ٹیکس لینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور دن بہ دن اس میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اب یہ 10 فیصد ہے اور یہ Source پر ہی کاٹ لیا جاتا ہے نہ کوئی داد نہ فریاد۔ جس ملک میں ڈاکٹر ٹیکس ادا نہیں کرتے، سرمایہ دار ٹیکس میں ہیر پھیر کرتے ہیں وہاں ان ''مظلوموں'' سے باقاعدہ ماہانہ ٹیکس کی کٹوتی ہوتی ہے اور اس کی کوئی Limit بھی نہیں ہے آپ نے مہینے میں صرف ایک ہزار روپے کا پروگرام کیا ہے تو وہ 100 روپے جس کا دو کلو آٹا آپ کے بچوں کے لیے آ جاتا حکومت لے لے گی کہ وہ آپ کے بچوں سے بھی زیادہ غریب ہے۔
جو ہونا چاہیے اور نہیں ہو گا وہ یہ ہے کہ یہ TAX فوری طور پر ختم کیا جائے یا کم ازکم اسے بیس ہزار روپے ماہانہ ملنے کی صورت میں لاگو کیا جائے وہ بھی صرف 2 فیصد تا کہ فنکار بھی ٹیکس خوش دلی سے دے دیں اگر ان پر لاگو ہے اور وہ بھی اتنا کم ہو کہ ان کو یہ احساس نہ ہو کہ اگر یہ پیسے نہ کٹتے تو شاید بچے کا جوتا ہی آ جاتا جس کے لیے وہ کئی ماہ سے ضد کر رہا ہے۔
ہم افسانے نہیں لکھتے، زندگی کے حقائق سول سوسائٹی کے سامنے رکھتے ہیں، انتظامیہ کو بتاتے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ نہ تو سول سوسائٹی اس پر ''ردعمل'' کا اظہار کرتی ہے نہ انتظامیہ اس پر توجہ دیتی ہے، تعجب تو یہ ہے کہ ہم جن کے مسائل کے لیے قلم اٹھاتے ہیں وہ بھی ہماری بات سے کوئی اثر قبول کر کے ردعمل ظاہر نہیں کرتے صرف خوف کا شکار رہتے ہیں کہ اس ماہ بھی بکنگ ملے گی یا نہیں؟
سہولتوں کا مطالبہ ایک ایسے معاشرے میں کیا جا سکتا ہے جو زندہ لوگوں کا معاشرہ ہو۔ ہم وقتی حادثوں اور المیوں پر وقتی آنسو بہانے والے لوگ ہیں۔ ''زندہ جل جانے والے لوگ'' ہوں یا پشاور کے اسکول کے ''شہید بچے'' ہم سب کچھ تھوڑے دنوں میں فراموش کر دیں گے۔
کیا مجرموں نے توبہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ناممکن نہ حکومت نے اپنے رویے کو ''سوداگرانہ'' سے ''عادلانہ'' کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نہ یہ ہو گا۔ اگر یہ ہو گا تو عوام ہی کریں گے کیونکہ وہ ''روایتی ادارہ'' جو کبھی کبھار ''تبدیلیاں'' لے آیا کرتا تھا اب اس فرض سے دست بردار نظر آتا ہے۔ تو عوام کو جمہوریت قائم کرنی ہو گی جو ''مسلم عدل و انصاف'' کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ''جمہوریت عوام کے لیے، عوام کے ذریعے خدمت کا نام ہے۔'' عوام کے ذریعے عوام پر حکمرانی کا نام نہیں۔ فنکاروں کو جینے دیجیے۔ یہ معاشرے کے گلستان کی ''بلبلیں'' ہیں اور کوئی چمن بلبلوں کے بغیر ایک خاموش پھولوں کا قبرستان ہے۔ اس معاشرے کو قبرستان بننے سے بچانا بھی حکومت کا فرض ہے۔
یہ بات اس لیے قرین قیاس سے بھی زیادہ ہے کہ ہمارا ''خودغرضانہ'' رویہ اس کا عکاس ہے۔ لکھنے کو تو آپ کچھ بھی لکھ دیں اس سے نہ گندم پیدا ہو گی اور نہ چمن میں ''گلاب'' حقائق تلخ ہیں سو تلخ ہی رہیں گے جب تک ''ہم سب'' ایک ہو کر اپنے دکھ کم از کم Share نہ کریں۔
ساری دنیا جمع پر یقین رکھتی ہے۔ کشمیر، فلسطین اور اس جگہ جہاں آزادی کا سوال درپیش ہے لوگ ''جمع'' ہیں اور آزادی نہ دینے والے ''تقسیم''۔ کیونکہ ان کا بظاہر ''اجتماع'' ظلم کے لیے ہے اس لیے رد کیا جانا چاہیے کہ رد کیا جانا ہی اس کا حق ہے۔
خیر ہم تو اپنی بات کر رہے ہیں کہ 67 سال میں ہم نے من حیث القوم نہیں بلکہ ''من حیث الگروہ'' اپنے مفادات کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں ہم گروہ ہیں قوم نہیں کیونکہ قومیں اپنے افراد کی ''فلاح'' کے لیے کاوشیں کرتی ہیں ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا ''ذاتی فوائد'' پر توجہ رکھی اور ان کو ہی پروان چڑھایا۔ سب سے پہلے Merit کا خون کیا کہ یہ ذاتی فوائد کے راستے کی سب سے بڑی دیوار تھا۔کسی اور کا بچہ کیوں ترقی کرے میرا کیوں نہیں بے شک وہ قابل ہو مگر میرا بچہ تو میرا ہے نا، میرا اس قابل بچے سے کیا واسطہ ہو گا کسی کا بچہ اس کے کون سے خاندانی نجابت یا دولت کے پہیے لگے ہیں جو میرے بچے کے لگے ہوئے ہیں لہٰذا یہ نالائق دوڑے گا بھی دو نمبر کے طریقوں سے جائز بھی کہلائے گا اور ترقی بھی کرے گا۔ تباہ ہو گیا معاشرہ اس ''خودغرضی'' کے ہاتھوں۔
حاجی صاحب بھی بجلی ''کنڈے'' کی استعمال کرتے ہیں۔ سب کرتے ہیں محلے میں تو حاجی صاحب کیوں نہیں؟ اگر کہو کہ ایسا آپ کو نہیں کرنا چاہیے تھا تو بات آ جائے گی گورنمنٹ کی طرف۔ صاحب کیا کریں آپ بل دیکھیں آخر زندہ تو رہنا ہے۔ اس میں سب کے پاؤں میں ایک ہاتھی کا پاؤں گورنمنٹ ہے۔
کیا کریں گورنمنٹ کی شکایت کس ''گورنمنٹ'' سے کریں۔ اب ایک چھوٹی سی بات ہی دیکھ لیجیے کہ جو بظاہر چھوٹی مگر بہت بڑی ہے۔ حکومت نے بڑا کرم کیا ہے کہ مزدور کی تنخواہ بارہ ہزار روپے کر دی ہے یعنی 400 روپے روزانہ۔ ایک کلو دودھ 80 روپے، چاول 150 روپے، آلو 60 روپے، گوشت 400 روپے بڑا، آٹا تقریباً50 روپے، ابھی مکان کا کرایہ، بجلی اور گیس کا بل الگ ہے، بچوں کی تعلیم تو خواب ہی ہے مزدور کے لیے۔
یہ تو ذکر ہے اس مزدور کا جو روزانہ کام کرتا ہے اور شاید تنخواہ پاتا ہے۔ اگر باقاعدہ مزدور کی بات کی جائے تو31 کے مہینے میں شاید 5 جمعے اور عام طور پر 4 جمعے نکال دیں کہ بارہ ہزار میں سے 1600 روپے یا 2000 روپے اور کم کر لیں۔
دوسرے ملکوں میں جب مزدور کام کرنے آتا ہے تو اپنی کار یا کم ازکم بائیک پر آتا ہے اور ہمارے یہاں بسوں میں دھکے کھاتا ہے۔ رکشہ تو وہ افورڈ ہی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ بھی تو اس 400 میں سے ہی دینا ہوں گے۔ یہ وہ مزدور ہیں جو کارخانوں میں یا سڑکوں کے کنارے مزدوری کے لیے آپ کو نظر آتے ہیں اور جن سے آپ ضرورت کے مطابق مزدوری لیتے ہیں ادائیگی کرتے ہیں وہ بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور آپ بھی ایک طرح مطمئن ہیں۔ہمارے اس ''بے حس'' اور ''سنگدل'' معاشرے میں اور بھی کئی قسم کے مزدور ہیں جن پر شاید کسی کی توجہ نہیں ہے وہ ہیں ''قلم مزدور'' اور ''آواز مزدور'' اور شاید ایک قسم اور ہے ''ساز مزدور''۔
''قلم مزدور'' میں سارے مصنف، کالمسٹ، رپورٹر، اور قلم سے کام کرنے والے ''پڑھے لکھے مزدور'' ہیں جو دوسرے ملکوں میں ''اپنے لکھے'' پر ارب پتی بن جاتے ہیں یہاں صرف ''پتی'' بنتے ہیں اور گھر سے بھی ''جھڑکیاں'' کھاتے ہیں۔ ''آواز مزدور'' وہ سارے صدا کار ہیں، ایکٹر ہیں جو ریڈیو، ٹیلی ویژن، تھیٹر، فلم میں کام کرتے ہیں۔ اور ''ساز مزدور'' وہ سارے ''سازندے'' ہیں جو موسیقی کے شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
پاکستان میں ان میں سے کسی کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ وہ مزدور جو 12000 یا کم ماہانہ کما لیتے ہیں، یہ لوگ بعض اوقات اس سے بھی کم حاصل کر پاتے ہیں ایک ماہ میں۔ اخباروں کے ملازمین کی شکایت عام ہے کہ کئی کئی ماہ کی تنخواہیں نہیں ملتیں اب ان میں اور بلدیہ کے ملازمین میں زیادہ فرق نہیں ہے وجہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ اخبار یا چینل کما نہیں رہا۔ وجہ صاف ظاہر ہے آزادی کے لیے لڑنے والے بعد میں سوداگر بن جاتے ہیں اگر دولت کی دیوی ان کے قدم چوم لے اور پاکستان میں یہ دیوی فراخ دلی سے سب کے قدم چوم چکی ہے۔
یہ تو عالم ہے، اوقات کار کو تو کیا کہیں، حالات کار سے ہی فرصت نہیں تو ان کا کیا ذکر ہے وہ بھی مالک کے کرم پر ہے۔ ''مالک'' کا Concept ہی ظالمانہ ہے۔ ایک ادارے میں سب لوگ ملازم اور ایک مالک یہ ایک عجیب تصور ہے مگر ہے اور قائم ہے۔ ٹریڈ یونین ازم کا جنازہ تو ہر ادارے میں ''مالک ساختہ'' یونینوں نے نکال دیا ہے۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ نشریاتی اداروں خصوصاً ریڈیو اور شاید ٹی وی میں بھی حکومت نے ان مظلوم 'قلم مزدوروں، آواز مزدوروں اور ساز مزدوروں'' سے ٹیکس لینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور دن بہ دن اس میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اب یہ 10 فیصد ہے اور یہ Source پر ہی کاٹ لیا جاتا ہے نہ کوئی داد نہ فریاد۔ جس ملک میں ڈاکٹر ٹیکس ادا نہیں کرتے، سرمایہ دار ٹیکس میں ہیر پھیر کرتے ہیں وہاں ان ''مظلوموں'' سے باقاعدہ ماہانہ ٹیکس کی کٹوتی ہوتی ہے اور اس کی کوئی Limit بھی نہیں ہے آپ نے مہینے میں صرف ایک ہزار روپے کا پروگرام کیا ہے تو وہ 100 روپے جس کا دو کلو آٹا آپ کے بچوں کے لیے آ جاتا حکومت لے لے گی کہ وہ آپ کے بچوں سے بھی زیادہ غریب ہے۔
جو ہونا چاہیے اور نہیں ہو گا وہ یہ ہے کہ یہ TAX فوری طور پر ختم کیا جائے یا کم ازکم اسے بیس ہزار روپے ماہانہ ملنے کی صورت میں لاگو کیا جائے وہ بھی صرف 2 فیصد تا کہ فنکار بھی ٹیکس خوش دلی سے دے دیں اگر ان پر لاگو ہے اور وہ بھی اتنا کم ہو کہ ان کو یہ احساس نہ ہو کہ اگر یہ پیسے نہ کٹتے تو شاید بچے کا جوتا ہی آ جاتا جس کے لیے وہ کئی ماہ سے ضد کر رہا ہے۔
ہم افسانے نہیں لکھتے، زندگی کے حقائق سول سوسائٹی کے سامنے رکھتے ہیں، انتظامیہ کو بتاتے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ نہ تو سول سوسائٹی اس پر ''ردعمل'' کا اظہار کرتی ہے نہ انتظامیہ اس پر توجہ دیتی ہے، تعجب تو یہ ہے کہ ہم جن کے مسائل کے لیے قلم اٹھاتے ہیں وہ بھی ہماری بات سے کوئی اثر قبول کر کے ردعمل ظاہر نہیں کرتے صرف خوف کا شکار رہتے ہیں کہ اس ماہ بھی بکنگ ملے گی یا نہیں؟
سہولتوں کا مطالبہ ایک ایسے معاشرے میں کیا جا سکتا ہے جو زندہ لوگوں کا معاشرہ ہو۔ ہم وقتی حادثوں اور المیوں پر وقتی آنسو بہانے والے لوگ ہیں۔ ''زندہ جل جانے والے لوگ'' ہوں یا پشاور کے اسکول کے ''شہید بچے'' ہم سب کچھ تھوڑے دنوں میں فراموش کر دیں گے۔
کیا مجرموں نے توبہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ناممکن نہ حکومت نے اپنے رویے کو ''سوداگرانہ'' سے ''عادلانہ'' کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نہ یہ ہو گا۔ اگر یہ ہو گا تو عوام ہی کریں گے کیونکہ وہ ''روایتی ادارہ'' جو کبھی کبھار ''تبدیلیاں'' لے آیا کرتا تھا اب اس فرض سے دست بردار نظر آتا ہے۔ تو عوام کو جمہوریت قائم کرنی ہو گی جو ''مسلم عدل و انصاف'' کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ''جمہوریت عوام کے لیے، عوام کے ذریعے خدمت کا نام ہے۔'' عوام کے ذریعے عوام پر حکمرانی کا نام نہیں۔ فنکاروں کو جینے دیجیے۔ یہ معاشرے کے گلستان کی ''بلبلیں'' ہیں اور کوئی چمن بلبلوں کے بغیر ایک خاموش پھولوں کا قبرستان ہے۔ اس معاشرے کو قبرستان بننے سے بچانا بھی حکومت کا فرض ہے۔