کے الیکٹرک اور وزارت بجلی و پانی کے تنازع میں شدت کراچی میں بجلی بحران کا خدشہ
کے الیکٹرک سے650 میگاواٹ بجلی کی خریداری کا معاہدہ رواں ماہ ختم ہوجائیگا
DUBAI:
وزارت پانی و بجلی اور کے الیکٹرک کے مابین650میگاواٹ بجلی کی فراہمی کاتنازع انتہائی شدت اختیار کرگیا ہے۔
5سالہ معاہدے کی مدت رواں ماہ ختم ہوجائے گی، وزارت پانی وبجلی معاہدے کے مطابق بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہ کرنے کاالزام عائدکرکے نیشنل گرڈسے فراہم ہونے والی بجلی میں 50فیصدسے زیادہ کٹوتی کرنے کاعندیہ دے چکی ہے جبکہ کے الیکٹرک ان تمام الزامات کویکسرمستردکرتے ہوئے وفاقی حکومت پرمعاہدے کی پابندی نہ کرنے کاالزام لگارہی ہے،دونوں فریقین تاحال نئے معاہدے کیلیے بات چیت کیلیے بھی رضامندنہیں ہوئے ہیں،این ٹی ڈی سی سے بجلی کی فراہمی میں تعطل کی صورت میں کے الیکٹرک کے پاس کوئی متبادل انتظام موجودنہیں جسکی وجہ سے کراچی میں رواں ماہ کے دوران بجلی کابدترین بحران پیدا ہونے کاخدشہ پیدا ہوگیا۔
تفصیلات کے مطابق مشرق وسطی کے بزنس گروپ ابراج کیپیٹل کے زیرانتظام کے الیکٹرک کی موجودہ انتظامیہ اور وفاقی وزارت پانی و بجلی کے مابین اپریل 2009 میں اس وقت کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے ای ایس سی) کی نجکاری پر عمل درآمد کے ترمیم شدہ معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت دونوں فریقین نے اس امر پر اتفاق رائے کیا تھا کہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی(این ٹی ڈی سی) یا واپڈا کے مابین بجلی کی خریداری کا معاہدہ علیحدہ سے کیاجائیگاجس کی مدت 5 سال ہوگی، جنوری 2010 میں این ٹی ڈی سی اورکے ای ایس سی کے مابین پاور پرچیز ایگریمنٹ پردستخط ہوگئے جس کے تحت یہ طے پایاکہ این ٹی ڈی سی کی جانب سے کے ای ایس سی کو5سال تک 650 میگاواٹ بجلی فراہم کی جائیگی اورفراہم کی جانیوالی بجلی کے نرخ واپڈا کی دیگر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے مطابق ہونگے۔
اس معاہدے کو کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ،خاص طور پر ایک نجی کمپنی کو سبسیڈائز نرخوں پر بجلی کی خریداری کے معاہدے پر اعتراضات اٹھائے گئے تاہم کے ای ایس سی نے یہ مضبوط موقف اختیار کیا کہ اگر نیشنل گرڈ سے فراہم کردہ بجلی کے نرخ زیادہ ہوں گے تو کراچی کے صارفین کواضافی بل ادا کرنے ہوں گے جبکہ نیشنل گرڈ میں موجودصرف 4 سے 5 فیصدسستی بجلی کراچی کے رہائشیوں کا بھی حق ہے اوردوسری صورت میں وفاقی حکومت کوکراچی کے صارفین کیلیے سبسڈی بڑھاناپڑے گی،تمام تراختلاف رائے کے ساتھ معاہدے کے تحت کے ای ایس سی اوربعد ازاں کے الیکٹرک کوبجلی کی فراہمی کا سلسلہ جاری رہاتاہم موجودہ وفاقی حکومت آنے کے بعدوزارت پانی و بجلی کی جانب سے کے الیکٹرک پر مختلف الزامات عائد کرنیکاسلسلہ شروع کیا گیا، تاہم اس مرتبہ کے الیکٹرک اور وفاقی حکومت کے مابین تنازع انتہائی شدید کھائی دے رہاہے۔
5 سالہ پاور پرچیز ایگریمنٹ رواں ماہ ختم ہوجائیگااور دونوں فریقین کو دوبارہ 5سالہ مدت کے معاہدے پر دستخط کرنا ہیں تاہم ایسا لگتا ہے کہ وفاقی حکومت اس معاہدے کو کے الیکٹرک سے اپنے مختلف مطالبات منوانے کیلیے استعمال کرنیکا ارادہ رکھتی ہے، وزیر مملکت برائے پانی و بجلی نے اپنے حالیہ بیان میں کے الیکٹرک پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ ترمیم شدہ معاہدے کی مطابق کراچی میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وفاقی حکومت کے الیکٹرک کو مزید 650 میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا ارادہ نہیں رکھتی ہے، ذرائع نے بتایا کہ وزارت پانی و بجلی کی جانب سے یہ عندیہ دیا جارہاہے کہ ملک بھر میں بجلی کے بحران کے پیش نظر کے الیکٹرک کو صرف 3 سو میگاواٹ بجلی کی فراہمی کی پیشکش کی جائے گی تاہم کے الیکٹرک کے ہیڈآف کمیونیکیشن اسامہ قریشی نے ان تمام الزامات کورد کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ترمیم شدہ معاہدے کے تحت ابراج کیپیٹل نے کراچی میں بجلی کی پیداوار میں 560 اور 220 میگاواٹ کے دو بجلی گھر لگانے تھے تاہم کے الیکٹرک نے مجموعی طور پر بجلی کی پیداوار میں ایک ہزا 10 میگا واٹ کا اضافہ کیا جاچکا ہے ۔
جس میں 90، 90 میگاواٹ کے 2 اضافی بجلی گھر اور پہلے سے موجود بجلی کی استطاعت میں 50 میگاواٹ کا اضافہ شامل ہے، 5سال کے دوران کراچی میں بجلی کی طلب میں 6 سو میگاواٹ کا اضافہ ہوا ہے اور کے الیکٹرک نے 12 سو 50 میگاواٹ کے نئے کنکشن فراہم کیے ہیں، انھوں نے کہا کہ معاہدے کے تحت وفاقی حکومت، کے الیکٹرک کو مطلوبہ قدرتی گیس کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے ، انھوں نے کہا کہ وزیر مملکت عابد شیر علی بغیر کسی وجہ کے تند و تیز بیانات دینے میں خاصے تجربہ رکھتے ہیں تاہم کے الیکٹرک سے متعلق ان کے الزامات کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے، گزشتہ سال مختلف صنعتی اور کاروباری تنظیموں کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواستیں زیر سماعت ہیں اور عدالت اس سلسلے میں حکم امتناع دے چکی ہے اس لیے معاہدے کے اختتام کے بعدبھی این ٹی ڈی سی بجلی کی فراہمی تاحال جاری رہے گی، تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ تاحال وزارت پانی و بجلی اور کے الیکٹرک کے مابین نئے معاہدے کیلیے بات چیت شروع نہیں ہوئی، وزیراعلی سندھ، گورنر سندھ اور ایف پی سی سی آئی کی جانب سے وفاقی حکومت سے درخواست کی جاچکی ہے کہ کے الیکٹرک کو بجلی کی فراہمی میں کٹوتی نہ کی جائے جبکہ صدر مملکت ممنون حسین بھی اس سلسلے میں اپنی مثبت رائے کااظہار کرچکے
وزارت پانی و بجلی اور کے الیکٹرک کے مابین650میگاواٹ بجلی کی فراہمی کاتنازع انتہائی شدت اختیار کرگیا ہے۔
5سالہ معاہدے کی مدت رواں ماہ ختم ہوجائے گی، وزارت پانی وبجلی معاہدے کے مطابق بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہ کرنے کاالزام عائدکرکے نیشنل گرڈسے فراہم ہونے والی بجلی میں 50فیصدسے زیادہ کٹوتی کرنے کاعندیہ دے چکی ہے جبکہ کے الیکٹرک ان تمام الزامات کویکسرمستردکرتے ہوئے وفاقی حکومت پرمعاہدے کی پابندی نہ کرنے کاالزام لگارہی ہے،دونوں فریقین تاحال نئے معاہدے کیلیے بات چیت کیلیے بھی رضامندنہیں ہوئے ہیں،این ٹی ڈی سی سے بجلی کی فراہمی میں تعطل کی صورت میں کے الیکٹرک کے پاس کوئی متبادل انتظام موجودنہیں جسکی وجہ سے کراچی میں رواں ماہ کے دوران بجلی کابدترین بحران پیدا ہونے کاخدشہ پیدا ہوگیا۔
تفصیلات کے مطابق مشرق وسطی کے بزنس گروپ ابراج کیپیٹل کے زیرانتظام کے الیکٹرک کی موجودہ انتظامیہ اور وفاقی وزارت پانی و بجلی کے مابین اپریل 2009 میں اس وقت کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے ای ایس سی) کی نجکاری پر عمل درآمد کے ترمیم شدہ معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت دونوں فریقین نے اس امر پر اتفاق رائے کیا تھا کہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی(این ٹی ڈی سی) یا واپڈا کے مابین بجلی کی خریداری کا معاہدہ علیحدہ سے کیاجائیگاجس کی مدت 5 سال ہوگی، جنوری 2010 میں این ٹی ڈی سی اورکے ای ایس سی کے مابین پاور پرچیز ایگریمنٹ پردستخط ہوگئے جس کے تحت یہ طے پایاکہ این ٹی ڈی سی کی جانب سے کے ای ایس سی کو5سال تک 650 میگاواٹ بجلی فراہم کی جائیگی اورفراہم کی جانیوالی بجلی کے نرخ واپڈا کی دیگر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے مطابق ہونگے۔
اس معاہدے کو کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ،خاص طور پر ایک نجی کمپنی کو سبسیڈائز نرخوں پر بجلی کی خریداری کے معاہدے پر اعتراضات اٹھائے گئے تاہم کے ای ایس سی نے یہ مضبوط موقف اختیار کیا کہ اگر نیشنل گرڈ سے فراہم کردہ بجلی کے نرخ زیادہ ہوں گے تو کراچی کے صارفین کواضافی بل ادا کرنے ہوں گے جبکہ نیشنل گرڈ میں موجودصرف 4 سے 5 فیصدسستی بجلی کراچی کے رہائشیوں کا بھی حق ہے اوردوسری صورت میں وفاقی حکومت کوکراچی کے صارفین کیلیے سبسڈی بڑھاناپڑے گی،تمام تراختلاف رائے کے ساتھ معاہدے کے تحت کے ای ایس سی اوربعد ازاں کے الیکٹرک کوبجلی کی فراہمی کا سلسلہ جاری رہاتاہم موجودہ وفاقی حکومت آنے کے بعدوزارت پانی و بجلی کی جانب سے کے الیکٹرک پر مختلف الزامات عائد کرنیکاسلسلہ شروع کیا گیا، تاہم اس مرتبہ کے الیکٹرک اور وفاقی حکومت کے مابین تنازع انتہائی شدید کھائی دے رہاہے۔
5 سالہ پاور پرچیز ایگریمنٹ رواں ماہ ختم ہوجائیگااور دونوں فریقین کو دوبارہ 5سالہ مدت کے معاہدے پر دستخط کرنا ہیں تاہم ایسا لگتا ہے کہ وفاقی حکومت اس معاہدے کو کے الیکٹرک سے اپنے مختلف مطالبات منوانے کیلیے استعمال کرنیکا ارادہ رکھتی ہے، وزیر مملکت برائے پانی و بجلی نے اپنے حالیہ بیان میں کے الیکٹرک پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ ترمیم شدہ معاہدے کی مطابق کراچی میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وفاقی حکومت کے الیکٹرک کو مزید 650 میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا ارادہ نہیں رکھتی ہے، ذرائع نے بتایا کہ وزارت پانی و بجلی کی جانب سے یہ عندیہ دیا جارہاہے کہ ملک بھر میں بجلی کے بحران کے پیش نظر کے الیکٹرک کو صرف 3 سو میگاواٹ بجلی کی فراہمی کی پیشکش کی جائے گی تاہم کے الیکٹرک کے ہیڈآف کمیونیکیشن اسامہ قریشی نے ان تمام الزامات کورد کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ترمیم شدہ معاہدے کے تحت ابراج کیپیٹل نے کراچی میں بجلی کی پیداوار میں 560 اور 220 میگاواٹ کے دو بجلی گھر لگانے تھے تاہم کے الیکٹرک نے مجموعی طور پر بجلی کی پیداوار میں ایک ہزا 10 میگا واٹ کا اضافہ کیا جاچکا ہے ۔
جس میں 90، 90 میگاواٹ کے 2 اضافی بجلی گھر اور پہلے سے موجود بجلی کی استطاعت میں 50 میگاواٹ کا اضافہ شامل ہے، 5سال کے دوران کراچی میں بجلی کی طلب میں 6 سو میگاواٹ کا اضافہ ہوا ہے اور کے الیکٹرک نے 12 سو 50 میگاواٹ کے نئے کنکشن فراہم کیے ہیں، انھوں نے کہا کہ معاہدے کے تحت وفاقی حکومت، کے الیکٹرک کو مطلوبہ قدرتی گیس کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے ، انھوں نے کہا کہ وزیر مملکت عابد شیر علی بغیر کسی وجہ کے تند و تیز بیانات دینے میں خاصے تجربہ رکھتے ہیں تاہم کے الیکٹرک سے متعلق ان کے الزامات کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے، گزشتہ سال مختلف صنعتی اور کاروباری تنظیموں کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواستیں زیر سماعت ہیں اور عدالت اس سلسلے میں حکم امتناع دے چکی ہے اس لیے معاہدے کے اختتام کے بعدبھی این ٹی ڈی سی بجلی کی فراہمی تاحال جاری رہے گی، تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ تاحال وزارت پانی و بجلی اور کے الیکٹرک کے مابین نئے معاہدے کیلیے بات چیت شروع نہیں ہوئی، وزیراعلی سندھ، گورنر سندھ اور ایف پی سی سی آئی کی جانب سے وفاقی حکومت سے درخواست کی جاچکی ہے کہ کے الیکٹرک کو بجلی کی فراہمی میں کٹوتی نہ کی جائے جبکہ صدر مملکت ممنون حسین بھی اس سلسلے میں اپنی مثبت رائے کااظہار کرچکے