با ادب بانصیب

یہ بےحد ضروری ہے کہ ہم علم ودانش کدوں اور اُن سے مربوط نشانیوں کیلئے عقیدت،محبت اور ادب واحترام کے جذبات کواُجاگر کریں

یہ بےحد ضروری ہے کہ ہم علم ودانش کدوں اور اُن سے مربوط نشانیوں کیلئے عقیدت،محبت اور ادب واحترام کے جذبات کواُجاگر کریں۔ فوٹو فائل

چار سال قبل مُجھے بنکاک تھائی لینڈ کی کیسٹسارٹ (Kasetsart University) یونیورسٹی میں ایڈووکیسی کے حوالے سے ایک کورس میں شرکت کا موقع ملا۔ میرا ایک ماہ کایہ قیام بنکاک شہر سے ذرا باہر یونیورسٹی کیمپس کے اندر ہی تھا۔ یہ یونیورسٹی تھائی لینڈ کی قدیم اور بڑی درسگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہاں مختلف شعبہ ہائے تدریس سے ہزاروں طلباء مستفید ہوتے ہیں۔ ابتدائی طور پر اس یونیورسٹی کا مقصد زراعت سے متعلقہ علوم کی ترویج تھی مگر اب یہاں سائنس، آرٹس،انجینئیرنگ اور دوسرے جدید علوم کے شعبہ جات تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔

کیمپس کے اندر کی زندگی میں بہت سی متاثر کُن چیزیں تھیں مگر میں جن دو باتوں سے میں بہت متاثر ہوا اُن میں سے ایک طلباء کی کثیر تعداد کا کیمپس کے اندر سائیکل کا استعمال تھا۔ سائیکلوں سے کھچا کھچ بھرا سائیکل اسٹینڈ جس پر طلباء اور طالبات کا آنا جانا لگا رہتا تھا، یہ منظر واقعی اثر انگیز تھا۔ دوسرا داخلی گیٹ کے ساتھ لگے وہ تین مُجسمے تھے جو کہ اس یونیورسٹی کے بانیوں کے تھے۔ صُبح ہوتے ہی طالبعلم اندر داخل ہوتے ہیں اورسر سبز لان کے اندر چبوترے کو جس پر یہ مُجسمے لگے ہوتے ہیں پھولوں کے ساتھ بھرنا شروع کردیتے ہیں۔

صبح صبح کا یہ منظر میرے لئے بہت حیران کُن تھا اور یہ عمل ہر روز سینکڑوں لڑکیاں اور لڑکے انتہائی احترام اور عقیدت کے ساتھ مختلف رنگوں کے پھول اور گُلدستے رکھتے ہوئے دُہراتے ہیں۔ آپ یقین کیجئے میرے لئے عقیدت کے اظہار اور اُن بانیوں کے لئے طلباء کی طرف سے ادب کا عملی مظاہرہ انتہائی پُر مسرت اور حیرانگی کا باعث تھا۔ یہ مُجسمے ہر وقت پھولوں سے بھرے رہتے ہیں ۔



فوٹو؛ وکی میڈیا

میرے لیے منظر اتنا حیران کُن اور پُر مسرت کیوں تھا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم جس یونیورسٹی کی ڈگری ہم حاصل کئے بیٹھے تھے وہاں آج تک ہماری آنکھوں نے طالبعلموں کی طرف سے ایسا والہانہ عقیدت کا اظہار کبھی کسی کے لیے نہیں دیکھا تھا ۔


جامعہ پنجاب سے فارغ تخصیل افراد شاید ضرور جانتے ہوں کہ اولڈ کیمپس کے باہر ایک مجسمہ نصب ہے جس پر انگریزی زبان میں الفریڈ وولنر تحریر ہے۔ الفریڈ وولنر نے 1902 سے 1936 تک کا عرصہ پنجاب یونیورسٹی میں لائبریرین سے وائس چانسلر تک کے مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دیتے ہوئے گزارا تھا۔ اُن کا انتقال بھی لاہور ہی میں ہوا اور اُن کی تدفین بھی لاہور ہی کے ایک قبرستا ن میں ہوئی۔ اتنے عرصے تک دی جانے والی خدمات پر کم از کم الفریڈ وولنرکے متعلق اس یونیورسٹی کے طلباء کے لیے زیادہ سے زیادہ آگاہی کا انتظام کیا جانا ضروری تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ ہم اپنے محسنوں کو یاد رکھنے کے معاملے میں ذرا کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اب دیکھئے ہم نے وولنر کے مجسمے کو اولڈ یا نیوکیمپس کے اندر کسی مرکزی جگہ پر رکھنے کے بجائے ہم نے اُس کو برلب سڑک فُٹ پاتھ پررکھ دیا جس پر اکثر سیاسی نعرے لکھے ہوتے ہیں یا کوئی اشتہار لگا کر چلا جاتا ہے۔ جیسے کہ شاید معلموں سے ہماری والہان عقیدت اور ادب کا یہی طریقہ کار ہے، جبکہ بچپن سے ہم سُنتے اور پڑھتے آئے ہیں کے 'باادب بانصیب، بے ادب بد نصیب'۔ مگر جب یونیورسٹی انتظامیہ نے ہی اُن کو اُٹھا کر فُٹ پاتھ پر لاکھڑا کیا تو باقی کسی کے ادب و لحاظ کا کیا کہنا۔



فوٹو؛ و


مال روڈ پر اس مجسمے کے سامنے ایک طرفہ ایک جنگی جہاز نصب ہے اور پھر ایک عدد تاریخی توپ چوک میں نصب ہے۔ جس پر ان دونوں کے حوالے سے نصب تختیاں بھی آپ کو مل جائیں گی۔ مگر مُجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آتا کہ جب اس چوک کا ایک راستہ تاریخی حیثیت کے حامل گورنمنٹ کالج لاہور کو جاتا ہے۔ ایک طرف نیشنل کالج آف آرٹس کی عمارت ہے اور دوسری طرف جامعہ پنجاب، اُس کے عقب میں اورنٹیئل کالج کی تاریخی بلڈنگ واقع ہے، تو ہونا تویہ چاہیئے تھا کہ اس چوک پر علم دوستی کی علامت کے طورپر الفریڈ وولنر کا مجسمہ ہوتا۔ جب کہ ہمارے شہر کے متظمین کے بھی کیا کہنے کہ وہاں پر جنگی جہاز اور توپ نصب کردی جو اہمیت کے لحا ظ سے ضرور بہت اہم ہوں گی مگر علم و دانش کی علامات کے طور پر ہر گز میل نہیں کھاتیں اور درسگاہوں اور دانشگاہوں کے بیچوں بیچ اس کی کوئی تُک بھی نہیں بنتی۔

آج ہم جس مشکل دور سے گزر رہے ہیں وہاں یہ بے حد ضروری ہے کہ ہم علم و دانش کدوں اور اُن سے مربوط نشانیوں کے لیے عقیدت، محبت اور ادب واحترام کے جذبات کو اُجاگر کریں۔ آج کے دور کے لحاظ سے یہ پیغام دینا اور بھی ضروری ہے کہ یہاں کے لوگ اپنی دانشگاہوں کو صرف خون سے سُرخ نہیں کرتے بلکہ اپنی درسگاہوں اور اساتذہ سے والہانہ عقیدت بھی رکھتے ہیں اور اُس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ہم سب جو طالبعلم ہیں ان کو چائیے کہ جب بھی موقع ملے اپنے معلم اور اُستاد کی عظت کریں اور یہ عمل دُنیا بھر کی علم شناسوں، معلموں اور اُستادوں اور درسگاہوں کے ساتھ عقیدت کا اظہار ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں.
Load Next Story