’’مرد مجاہد‘‘ کے منتظر
پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں کے عوام کو فیصلہ سازی کے عمل میں کبھی شریک ہی نہیں کیا گیا
ISLAMABAD:
اس کالم کو پڑھنے والے کچھ لوگ مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ میں انگریزی اخباروں کے ادارتی صفحوں پر شایع ہونے والے مضمون نگاروں کے خیالات کو اتنی اہمیت کیوں دیتا ہوں۔ اخباروں میں بہت کچھ چھپتا رہتا ہے۔ انگریزی کے اخبار تو ویسے بھی بہت کم لوگ پڑھتے ہیں۔ ان میں چھپی باتوں پر اپنا وقت ضایع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
نظر بظاہر یہ سوالات بہت معقول اور مناسب ہیں۔ مگر تھوڑا سا غور کیجیے تو آپ کو یاد آ جائے گا کہ پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں کے عوام کو فیصلہ سازی کے عمل میں کبھی شریک ہی نہیں کیا گیا۔ وقتاً فوقتاً ان کے ووٹوں سے حکومتیں ضرور بنیں۔ مگر جب بھی ان کے سربراہوں نے خواہ وہ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا نواز شریف، ریاست کے ''دوامی مالکوں'' یعنی فوجی اشرافیہ اور نوکر شاہی کے بنائے اسکرپٹ سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کی تو انھیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
فوجی اشرافیہ اور نوکر شاہی بذاتِ خود پیش قدمی کرنے سے ہمیشہ ہچکچاتی ہیں۔ انھیں ایک ایسے ''ماحول'' کی ضرورت ہوتی ہے جہاں عوام کی اکثریت یہ طے کر لے کہ کوئی ان کا والی وارث نہیں ہے۔ ملک ''تباہی کے دہانے'' پر پہنچ چکا ہے۔ اسے بچانے کے لیے کسی''مردِ مجاہد'' کی ضرورت ہے جو اقتدار سنبھال کر جاہل اور منتشر عوام کو ڈنڈے کے زور پر سیدھے راستے پر چلائے اور ''سخت فیصلے'' کرنے کے بعد ملکی معیشت کو بحال کرتے ہوئے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے۔ میں اس کالم میں جن مضمون نگاروں کے حوالے دیتا ہوں وہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جانے کا واویلا مچا کر درحقیقت قوم کو ''مردِ مجاہد'' کی آمد کے لیے تیار کرنے کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں۔
غیر ملکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ایسے دانشوروں کی تحریروں کو پڑھ کر میرا خون اس لیے بھی کھولتا ہے کہ ان کی ذاتی زندگیوں کو بہت قریب سے جانتے ہوئے مجھے پورا علم ہے کہ مہنگائی ان لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ لوگ اسلام آباد کے مہنگے ترین علاقوں میں اپنے یا کرائے پر حاصل کیے شاندار مکانوں میں رہتے ہیں۔ کسی عالمی ادارے کے لیے Consultancy نہ بھی کر رہے ہوں تو ان کے پاس ڈرائیور والی رُعب دار کار ہوتی ہے۔ ان کے گھروں کے باہر سیکیورٹی گارڈز کھڑے ہوتے ہیں اور فون سننے اور ملانے کے لیے پرائیویٹ سیکریٹری۔
یہ لوگ اپنے خانساموں کو وہ کھانا نہیں کھلاتے جو انھیں یا ان کے مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی شادیاں اکثر ناکام ہوتی ہیں۔ مگر ان میں سے ہوئے بچے غیر ملکوں میں یا تو تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں یا پاکستان میں کسی غیر ملکی بینک یا کاروباری ادارے سے وابستہ ہوتے ہیں۔ سردیوں اور گرمیوں کی شدت سے نا آشنا ایسے دانشور ملکی معیشت کی ''زبوں حالی'' پر ''سیاپا '' کرتے مجھے قطعی منافق نظر آتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اس بات پر بہت تلملاتے پائے جاتے ہیں کہ پاکستان کی حکومتیں غریبوں کے بچوں کو معقول تعلیم دینے کا بندوبست نہ کر پائیں۔ مگر ان کے اپنے گھروں میں چھوٹی عمروں کے لوگ واقعتاً بیگار کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ عورتوں کے حقوق کے علمبردار بھی بنتے ہیں۔ مگر ان کے ہاں جو عورتیں کام کرتی ہیں ان کے چہروں پر دُکھ، اداسی اور غلامانہ بے بسی بہت نمایاں نظر آتی ہے۔
ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیکھ کر پریشان ہو جانے والے یہ دانشور منتخب حکومتوں سے زیادہ ناراض اس لیے بھی ہوا کرتے ہیں کہ وہ ان کی ''عقل'' سے فائدہ اُٹھانے کے طریقے نہیں سوچ پاتیں۔ اقتدار پر اگر فوج قابض ہو جائے تو ان کی لاٹری نکل آتی ہے۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں ہماری معیشت میں جو خوشحالی نظر آئی اس کی حقیقی وجہ یہ تھی کہ امریکا اور اس کے حواری اپنے مخصوص مفادات کے لیے ہمارے ملک کو استعمال کر رہے تھے۔
ہم نے اپنے ملک کو ان ممالک کے لیے 1950ء کی دہائی سے مارکیٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس مارکیٹنگ نے پاکستان کو طویل المدتی استحکام تو نہ بخشا مگر یہاں کے لوگوں کو ٹیکس نہ دینے کی عادت میں مبتلا کر دیا۔ اندرونی طور پر مناسب محاصل اکٹھا نہ کرنے کی وجہ سے ہم خسارے کے بجٹ بنانا شروع ہو گئے۔ ہماری ریاست کی آمدنی اور اخراجات میں جو فرق ہوتا اسے غیر ملکی امداد اور قرضوں سے پورا کر لیا جاتا۔ برسوں تک پھیلی اس روایت کے سبب اب پاکستانی ریاست قرض کی اس حد تک عادی ہو چکی ہے جیسے کوئی نشے کی لت میں مبتلا مریض ہوتا ہے۔
انگریزی اخبارات میں مضامین لکھنے والے دانشوروں نے کبھی اخلاقی جرأت نہیں دکھائی کہ وہ ماضی کی حکومتوں میں اپنی شراکت کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کی ریاست کو غیر ملکی قرض اور امداد کا عادی بنانے میں اپنے حصے کا اقرار کریں۔ پورا سچ نہ لکھ کر وہ محض آج کی تلخ حقیقتوں پر ماتم کناں رہتے ہیں۔ ان کے مضامین ذرا غور سے پڑھیے تو آخر میں پیغام یہی دیا جاتا ہے کہ اگر کسی نہ کسی طرح کوئی ''مردِ مجاہد'' آگے بڑھ کر اس ملک کی باگ ڈور سنبھال کر انھیں معاشی اور مالیاتی فیصلہ سازی کرنے دے تو معاملات سنبھل سکتے ہیں۔ ان کے مضامین علم نہیں پھیلاتے۔ نوکری کی درخواستیں ہیں جنھیں حقارت سے ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے۔
میں یہ کالم منگل کو لکھنے پر مجبور اس لیے ہوا کہ اسی دن تین مضامین دو انگریزی اخباروں میں چھپے ہیں۔ لکھے تین مختلف افراد نے ہیں مگر ان سب کا پیغام مشترکہ ہے اور وہ یہ کہ آیندہ سال آئی ایم ایف کو ڈھائی ارب ڈالر ادا کرنے کے بعد پاکستان کے خزانے میں بھونچال آ جائے گا۔ روپے کی قدر خوفناک حد تک گر جائے گی اور سارے ملک میں افراتفری مچ جائے گی۔
میں اس بحث میں اُلجھے بغیر کہ ان کے خیالات درست ہیں یا نہیں یہ کہنے کا حق ضرور رکھتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر قیامت آنے ہی والی ہے تو کیا زیادہ بہتر نہ ہو گا کہ ہم اپنے عوام کو نئے انتخابات کے ذریعے ایک حکومت بنا کر اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہونے کا موقع فراہم کریں۔ عوام کی مرضی سے بنی حکومت ''تلخ فیصلے'' کرے گی تو لوگ شاید آسانی سے ہضم بھی کر لیں گے۔
مگر ایک '' ڈاکٹر ''بنے دانشور نے تو اپنے مضمون میں یہ فتویٰ صادر کر دیا ہے کہ انتخاب ہوئے تو موجودہ حکومت "Ballot Monetary Policy" بنا کر ہماری معیشت کو بالکل ہی تباہ کر دے گی۔ سادہ ترین الفاظ میں وہ صاحب کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت ملکی بینکوں سے بے دریغ قرضے لے کر اورنئے نوٹ چھاپ کر آیندہ کے انتخابات ''خریدنے'' کی کوشش کرے گی۔
ان صاحب کے ایک ہم قبیلہ دانشور کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی جانب سے ''ووٹ خریدنے'' کی غیر ذمے دارانہ پالیسیوں کے باوجود آیندہ کوئی بھی جماعت قومی اسمبلی میں اکثریت نہ حاصل کر پائے گی۔ مخلوط حکومت بنانا پڑے گی۔ نواز شریف اور عمران اگلا الیکشن جیتتے نظر آ رہے ہیں۔ ان دونوں میں شراکت اقتدار کا کوئی امکان ہی نہیں۔ نتیجاً نواز شریف یا عمران خان قومی اسمبلی میں چھوٹے چھوٹے گروہوں کے ناز نخرے اُٹھا کر ایک ''مخلوط حکومت'' بنانے پر مجبور ہوں گے اور ''مخلوط حکومتیں'' سخت فیصلے نہیں کر سکتیں۔
''سخت فیصلوں''کا ذکر کرتے ہوئے منگل کو چھپنے والے تینوں دانشور البتہ اس بات پر متفق ہیں کہ آیندہ سال کے مارچ سے پہلے آئی ایم ایف سے تین سے چار ارب ڈالر کے درمیان والے کسی پروگرام کا سمجھوتہ کیے بغیر ملکی معیشت کو سنوارا ہی نہیں جا سکتا۔ آئی ایم ایف اگر یہ رقم دینے کو تیار ہوا تو کچھ شرائط بھی عائد کرے گا جنھیں ''مخلوط حکومت'' پورا نہیں کر سکتی۔ لہٰذا آیندہ انتخاب سے گریز ہی بہتر ہو گا۔ ایک بار پھر مانے لیتے ہیں کہ یہ تینوں دانشور درست کہہ رہے ہیں۔
مگر ان کا واویلا سن کر کوئی ''مردِ مجاہد'' واقعی آگے بڑھ گیا تو ان شرائط کو کیسے پورا کر پائے گا؟ آزاد اور بے باک میڈیا کی زبان بندی اور متحرک عدلیہ کو لگام دیے بغیر وہ بھی کچھ نہ کر پائے گا۔ زبان بندی تو ایوب خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے بھی کی تھی۔ اِن تینوں نے ہمیں کہاں پہنچایا۔ اس بار حالات مختلف کیوں ہوں گے؟!
اس کالم کو پڑھنے والے کچھ لوگ مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ میں انگریزی اخباروں کے ادارتی صفحوں پر شایع ہونے والے مضمون نگاروں کے خیالات کو اتنی اہمیت کیوں دیتا ہوں۔ اخباروں میں بہت کچھ چھپتا رہتا ہے۔ انگریزی کے اخبار تو ویسے بھی بہت کم لوگ پڑھتے ہیں۔ ان میں چھپی باتوں پر اپنا وقت ضایع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
نظر بظاہر یہ سوالات بہت معقول اور مناسب ہیں۔ مگر تھوڑا سا غور کیجیے تو آپ کو یاد آ جائے گا کہ پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں کے عوام کو فیصلہ سازی کے عمل میں کبھی شریک ہی نہیں کیا گیا۔ وقتاً فوقتاً ان کے ووٹوں سے حکومتیں ضرور بنیں۔ مگر جب بھی ان کے سربراہوں نے خواہ وہ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا نواز شریف، ریاست کے ''دوامی مالکوں'' یعنی فوجی اشرافیہ اور نوکر شاہی کے بنائے اسکرپٹ سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کی تو انھیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
فوجی اشرافیہ اور نوکر شاہی بذاتِ خود پیش قدمی کرنے سے ہمیشہ ہچکچاتی ہیں۔ انھیں ایک ایسے ''ماحول'' کی ضرورت ہوتی ہے جہاں عوام کی اکثریت یہ طے کر لے کہ کوئی ان کا والی وارث نہیں ہے۔ ملک ''تباہی کے دہانے'' پر پہنچ چکا ہے۔ اسے بچانے کے لیے کسی''مردِ مجاہد'' کی ضرورت ہے جو اقتدار سنبھال کر جاہل اور منتشر عوام کو ڈنڈے کے زور پر سیدھے راستے پر چلائے اور ''سخت فیصلے'' کرنے کے بعد ملکی معیشت کو بحال کرتے ہوئے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے۔ میں اس کالم میں جن مضمون نگاروں کے حوالے دیتا ہوں وہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جانے کا واویلا مچا کر درحقیقت قوم کو ''مردِ مجاہد'' کی آمد کے لیے تیار کرنے کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں۔
غیر ملکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ایسے دانشوروں کی تحریروں کو پڑھ کر میرا خون اس لیے بھی کھولتا ہے کہ ان کی ذاتی زندگیوں کو بہت قریب سے جانتے ہوئے مجھے پورا علم ہے کہ مہنگائی ان لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ لوگ اسلام آباد کے مہنگے ترین علاقوں میں اپنے یا کرائے پر حاصل کیے شاندار مکانوں میں رہتے ہیں۔ کسی عالمی ادارے کے لیے Consultancy نہ بھی کر رہے ہوں تو ان کے پاس ڈرائیور والی رُعب دار کار ہوتی ہے۔ ان کے گھروں کے باہر سیکیورٹی گارڈز کھڑے ہوتے ہیں اور فون سننے اور ملانے کے لیے پرائیویٹ سیکریٹری۔
یہ لوگ اپنے خانساموں کو وہ کھانا نہیں کھلاتے جو انھیں یا ان کے مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی شادیاں اکثر ناکام ہوتی ہیں۔ مگر ان میں سے ہوئے بچے غیر ملکوں میں یا تو تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں یا پاکستان میں کسی غیر ملکی بینک یا کاروباری ادارے سے وابستہ ہوتے ہیں۔ سردیوں اور گرمیوں کی شدت سے نا آشنا ایسے دانشور ملکی معیشت کی ''زبوں حالی'' پر ''سیاپا '' کرتے مجھے قطعی منافق نظر آتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اس بات پر بہت تلملاتے پائے جاتے ہیں کہ پاکستان کی حکومتیں غریبوں کے بچوں کو معقول تعلیم دینے کا بندوبست نہ کر پائیں۔ مگر ان کے اپنے گھروں میں چھوٹی عمروں کے لوگ واقعتاً بیگار کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ عورتوں کے حقوق کے علمبردار بھی بنتے ہیں۔ مگر ان کے ہاں جو عورتیں کام کرتی ہیں ان کے چہروں پر دُکھ، اداسی اور غلامانہ بے بسی بہت نمایاں نظر آتی ہے۔
ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیکھ کر پریشان ہو جانے والے یہ دانشور منتخب حکومتوں سے زیادہ ناراض اس لیے بھی ہوا کرتے ہیں کہ وہ ان کی ''عقل'' سے فائدہ اُٹھانے کے طریقے نہیں سوچ پاتیں۔ اقتدار پر اگر فوج قابض ہو جائے تو ان کی لاٹری نکل آتی ہے۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں ہماری معیشت میں جو خوشحالی نظر آئی اس کی حقیقی وجہ یہ تھی کہ امریکا اور اس کے حواری اپنے مخصوص مفادات کے لیے ہمارے ملک کو استعمال کر رہے تھے۔
ہم نے اپنے ملک کو ان ممالک کے لیے 1950ء کی دہائی سے مارکیٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس مارکیٹنگ نے پاکستان کو طویل المدتی استحکام تو نہ بخشا مگر یہاں کے لوگوں کو ٹیکس نہ دینے کی عادت میں مبتلا کر دیا۔ اندرونی طور پر مناسب محاصل اکٹھا نہ کرنے کی وجہ سے ہم خسارے کے بجٹ بنانا شروع ہو گئے۔ ہماری ریاست کی آمدنی اور اخراجات میں جو فرق ہوتا اسے غیر ملکی امداد اور قرضوں سے پورا کر لیا جاتا۔ برسوں تک پھیلی اس روایت کے سبب اب پاکستانی ریاست قرض کی اس حد تک عادی ہو چکی ہے جیسے کوئی نشے کی لت میں مبتلا مریض ہوتا ہے۔
انگریزی اخبارات میں مضامین لکھنے والے دانشوروں نے کبھی اخلاقی جرأت نہیں دکھائی کہ وہ ماضی کی حکومتوں میں اپنی شراکت کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کی ریاست کو غیر ملکی قرض اور امداد کا عادی بنانے میں اپنے حصے کا اقرار کریں۔ پورا سچ نہ لکھ کر وہ محض آج کی تلخ حقیقتوں پر ماتم کناں رہتے ہیں۔ ان کے مضامین ذرا غور سے پڑھیے تو آخر میں پیغام یہی دیا جاتا ہے کہ اگر کسی نہ کسی طرح کوئی ''مردِ مجاہد'' آگے بڑھ کر اس ملک کی باگ ڈور سنبھال کر انھیں معاشی اور مالیاتی فیصلہ سازی کرنے دے تو معاملات سنبھل سکتے ہیں۔ ان کے مضامین علم نہیں پھیلاتے۔ نوکری کی درخواستیں ہیں جنھیں حقارت سے ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے۔
میں یہ کالم منگل کو لکھنے پر مجبور اس لیے ہوا کہ اسی دن تین مضامین دو انگریزی اخباروں میں چھپے ہیں۔ لکھے تین مختلف افراد نے ہیں مگر ان سب کا پیغام مشترکہ ہے اور وہ یہ کہ آیندہ سال آئی ایم ایف کو ڈھائی ارب ڈالر ادا کرنے کے بعد پاکستان کے خزانے میں بھونچال آ جائے گا۔ روپے کی قدر خوفناک حد تک گر جائے گی اور سارے ملک میں افراتفری مچ جائے گی۔
میں اس بحث میں اُلجھے بغیر کہ ان کے خیالات درست ہیں یا نہیں یہ کہنے کا حق ضرور رکھتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر قیامت آنے ہی والی ہے تو کیا زیادہ بہتر نہ ہو گا کہ ہم اپنے عوام کو نئے انتخابات کے ذریعے ایک حکومت بنا کر اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہونے کا موقع فراہم کریں۔ عوام کی مرضی سے بنی حکومت ''تلخ فیصلے'' کرے گی تو لوگ شاید آسانی سے ہضم بھی کر لیں گے۔
مگر ایک '' ڈاکٹر ''بنے دانشور نے تو اپنے مضمون میں یہ فتویٰ صادر کر دیا ہے کہ انتخاب ہوئے تو موجودہ حکومت "Ballot Monetary Policy" بنا کر ہماری معیشت کو بالکل ہی تباہ کر دے گی۔ سادہ ترین الفاظ میں وہ صاحب کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت ملکی بینکوں سے بے دریغ قرضے لے کر اورنئے نوٹ چھاپ کر آیندہ کے انتخابات ''خریدنے'' کی کوشش کرے گی۔
ان صاحب کے ایک ہم قبیلہ دانشور کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی جانب سے ''ووٹ خریدنے'' کی غیر ذمے دارانہ پالیسیوں کے باوجود آیندہ کوئی بھی جماعت قومی اسمبلی میں اکثریت نہ حاصل کر پائے گی۔ مخلوط حکومت بنانا پڑے گی۔ نواز شریف اور عمران اگلا الیکشن جیتتے نظر آ رہے ہیں۔ ان دونوں میں شراکت اقتدار کا کوئی امکان ہی نہیں۔ نتیجاً نواز شریف یا عمران خان قومی اسمبلی میں چھوٹے چھوٹے گروہوں کے ناز نخرے اُٹھا کر ایک ''مخلوط حکومت'' بنانے پر مجبور ہوں گے اور ''مخلوط حکومتیں'' سخت فیصلے نہیں کر سکتیں۔
''سخت فیصلوں''کا ذکر کرتے ہوئے منگل کو چھپنے والے تینوں دانشور البتہ اس بات پر متفق ہیں کہ آیندہ سال کے مارچ سے پہلے آئی ایم ایف سے تین سے چار ارب ڈالر کے درمیان والے کسی پروگرام کا سمجھوتہ کیے بغیر ملکی معیشت کو سنوارا ہی نہیں جا سکتا۔ آئی ایم ایف اگر یہ رقم دینے کو تیار ہوا تو کچھ شرائط بھی عائد کرے گا جنھیں ''مخلوط حکومت'' پورا نہیں کر سکتی۔ لہٰذا آیندہ انتخاب سے گریز ہی بہتر ہو گا۔ ایک بار پھر مانے لیتے ہیں کہ یہ تینوں دانشور درست کہہ رہے ہیں۔
مگر ان کا واویلا سن کر کوئی ''مردِ مجاہد'' واقعی آگے بڑھ گیا تو ان شرائط کو کیسے پورا کر پائے گا؟ آزاد اور بے باک میڈیا کی زبان بندی اور متحرک عدلیہ کو لگام دیے بغیر وہ بھی کچھ نہ کر پائے گا۔ زبان بندی تو ایوب خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے بھی کی تھی۔ اِن تینوں نے ہمیں کہاں پہنچایا۔ اس بار حالات مختلف کیوں ہوں گے؟!