ہاجرہ مسرور بھی چلی گئیں
آج کتاب روپوش ہوگئی اور موبائل فون فخر کی نشانی
ہاجرہ مسرور بھی چلی گئیں، ابھی تو حمید اختر اور منشا یاد کی یادیں بھی دھندلی نہ ہوئی تھیں کہ اردو ادب ایک اور سانحے سے گزرگیا۔ یوں تو وہ بہت عرصے سے بیمار تھیں، لیکن پھر بھی ایک احساس تو تھا کہ ہم میں موجود ہیں۔ درخت جب تک قائم و دائم رہتے ہیں، لوگ اس کی چھائوں میں ٹھنڈک حاصل کرتے ہیں۔
لیکن جب وہ کسی پرزور آندھی یا طوفان کی وجہ سے گر جائیں تو اچانک خالی پن کا احساس ہوتا ہے۔ اور وہ لوگ جو روز راستے سے گزرتے ہوئے اس درخت کی موجودگی سے واقف تھے، انھیں ایک دن درخت کو اپنی جگہ نہ پا کر ایک جھٹکا تو لگتا ہی ہے۔
ہاجرہ مسرور سے زندگی میں صرف چار یا پانچ بار ملی ہوں۔ وہ بھی اس وقت تک جب وہ نرسری پر رہتی تھیں۔ ہمارے گھر سے آنے والا ایک راستہ نرسری کی پہاڑی سے اتر کر سیدھا ان کے گھر جاتا تھا۔ جب کہ بقیہ تین راستے ہل پارک، مین طارق روڈ اور پی ای سی ایچ کالج کی طرف جاتے تھے، کیونکہ ہمارا گھر کارنر کا تھا، اس لیے پہلی بار جب ان کے گھر جانا پڑا تو ہماری پرنسپل مسز زبیر نے کہا تھا کہ ''اپنے گھر کے کونے پر ہل پارک کی طرف منہ کرکے کھڑی ہوجائو اور دائیں جانب جانے والی سڑک پر آنکھیں بند کرکے چلی جائو۔ جب پہاڑی آجائے تو آنکھیں کھول کر پگڈنڈی اتر جائو اور ہاجرہ کے گھر پہنچ جائو۔''
یہ بات ہے 1966 کی، جب میں کراچی کالج کی طالبہ تھی اور جی بھر کے غیر نصابی سرگرمیوں میں حصّہ لیتی تھی۔ اسٹوڈنٹ یونین کے زیر اہتمام جب ہم نے ہفتۂ طالبات منانے کی تیاری کی تو شعبۂ اردو کی ایک مشفق استاد مسز خورشید ممتاز نے کہا کہ ہفتہ طالبات سے پہلے بزم ادب کے زیر اہتمام ایک سہ روزہ ادبی نشست کا اہتمام کیا جائے۔ ہمارا تعلق چونکہ اسٹوڈنٹ یونین اور بزم ادب دونوں سے تھا۔ لہٰذا پروگرام فوراً ہی فائنل ہوگیا اور بزم ادب کے تحت دوسرے دن ایک نشست ''بزمِ افسانہ'' کے نام سے سجانے کی منظوری مل گئی۔
صدارت ہاجرہ مسرور کے حصّے میں آئی، بزم ادب کی جنرل سیکریٹری ہونے کے ناتے انھیں دعوت دینے، لانے اور لے جانے کی ذمے داری ہمیں سونپی گئی کہ ہمارا گھر ان کے قریب ہی تھا۔ پہلی بار جب میں ان سے اپنی ایک ساتھی کے ساتھ ملی تو ان میں ایک ایسی اپنائیت تھی کہ ہم لوگ فوراً ہی بے تکلف ہوگئے۔ جی بھر کے ان سے باتیں کیں اور اپنا امپریشن قائم کرنے کے لیے ان کے افسانوی مجموعوں اور ان میں پڑھے افسانوں کے نام بھی گنا دیے۔ جب ہم نے ''ہائے اﷲ'' کا نام لیا تو مسکرا کر بولیں، ''سب افسانے پڑھے ہیں، ہائے اﷲ کے؟'' میں نے اثبات میں سر ہلایا تو بولیں ''کوئی افسانہ ایسا بھی جو سمجھ میں نہ آیا ہو۔'' ہم نے ترنت کہا، ''جی ہاجرہ آپا... وہ، تل اوٹ پہاڑ۔ سمجھ میں نہیں آیا۔'' تو وہ صرف مسکرا کر رہ گئیں۔ واقعی جب سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
بہرحال انھوں نے بڑی محبت سے دعوت نامہ قبول کیا۔ ٹھیک چار دن بعد ہم انھیں لینے پہنچے تو انھوں نے خود دروازہ کھولا اور ہمیں اندر لے گئیں۔ میز کے قریب رکھی کرسی پر سفید کپڑوں میں ایک شخصیت بیٹھی تھی۔ ہاجرہ آپا نے شفقت سے پوچھا، ''انھیں جانتی ہو؟'' جی یہ احمد ندیم قاسمی صاحب ہیں۔ ہم نے بے دھڑک کہا تو ندیم صاحب کے ساتھ ہی ہاجرہ آپا ہنس پڑیں۔ ندیم صاحب سے یہ ہماری پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ ورنہ ان کے افسانوں سے تو آشنائی بہت پہلے کی تھی۔ وہ بڑی شفقت سے ملے اور اس بات پر بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ نوجوان نسل ادب میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔
ان کی خوشی بجا تھی کہ اس دور میں کوئی ادبی کتاب، کوئی افسانوی مجموعہ یا کسی بڑے شاعر کا مجموعۂ کلام ہاتھ میں رکھنا فخر کی بات سمجھی جاتی تھی۔ اچھی کتاب ایک اسٹیٹس سمبل تھی۔ لوگ کتاب کا نام دیکھ کر مرعوب ہو جایا کرتے تھے۔ آج کتاب روپوش ہوگئی اور موبائل فون فخر کی نشانی، کہ تہی دست اندر سے خالی ہیں اور اسی خالی پن اور کم علمی کو چھپانے کے لیے وہ کبھی قیمتی موبائل فون کا سہارا لیتی ہے تو کبھی مہنگی گاڑیوں کا، کہ اس تہی دست نسل کو وہ ورثہ نہیں ملا جو خاندانی اور تہذیبی طور پر نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔
جب دو نمبر کے کاروبار کی برکت سے لوگ 40 گز کے کوارٹر سے اٹھ کر 800 گز کے بنگلوں میں منتقل ہونے لگے تو وہاں کتابیں کہاں سے آتیں۔ البتہ کچھ زمانہ شناس ایسے بھی ہیں جو خوبصورت جلدوں والی پردوں کے رنگوں سے میچ کرتی کتابیں بھی خرید لیتے ہیں تاکہ بھرم قائم رہے۔ خواہ انھیں ان کے نام بھی نہ معلوم ہوں، البتہ میڈیا کو انٹرویو دیتے وقت وہ کیمرہ مین کو ضرور ہدایت کردیتے ہیں کہ بطور خاص کتابوں کی شیلف کو نمایاں طور پر دِکھایا جائے۔
خیر تو ہم اور ہماری ساتھی ہاجرہ آپا کو ساتھ لے کر کالج پہنچے۔ اس نشست میں کالج کی سات طالبات نے حصّہ لیا تھا۔ اس وقت تک مختلف رسائل اور اخبارات میں صفحہ خواتین پر میرے پانچ چھ افسانے چھپ چکے تھے۔ البتہ تین افسانوں کا معاوضہ ادا کردیا گیا تھا، ورنہ صرف ریڈیو پاکستان کراچی ہی پروگرام میں شرکت کا معاوضہ دیا کرتا تھا لیکن ہم نے ہاجرہ آپا کو آخر وقت تک یہ نہ بتایا کہ ہم بھی افسانہ پڑھ رہے ہیں۔ بہرحال جب آخر میں ہماری باری آئی اور اپنا افسانہ ''خواب عذاب'' پڑھا تو ہال بہت دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔
انعامی مقابلے کے اعلان میں تاخیر ہورہی تھی، شاید جج کسی فیصلے پر پہنچ نہیں پارہے تھے۔ بہرحال جب اعلان ہوا تو ہمیں دوسرا انعام ملا تھا ۔ مقابلے کے نتائج کے بعد ہاجرہ آپا نے ہمیں اپنے پاس بلایا اور کہا، ''صرف پہلا یا دوسرا انعام کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ایسا ہوتا ہے، آپ کا افسانہ بہت اچھا تھا، وقتی ناکامی سے قلم نہ چھوڑ دینا۔'' بعد میں ساری کہانی کھل گئی اور ہاجرہ آپا کے الفاظ کے معنی سمجھ میں آگئے۔ ہماری ایک شفیق اور محترم استاد نے بتایا کہ ہاجرہ مسرور نے ہمیں نمبر زیادہ دیے تھے جب کہ تیسری جج نے محض اقربا پروری اور جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس طالبہ کو زیادہ نمبر دیے تھے وہ انھی کی برادری سے تعلق رکھتی تھی جب کہ ہاجرہ آپا نے اس پر احتجاج بھی کیا تھا، لیکن قاعدے کے مطابق تینوں ججوں کے مجموعی نمبروں پر مقابلے کا اعلان کیا جاتا ہے۔
اسی لیے وہ بھی مجبور ہوگئیں، لیکن انھیں اس بات سے بہت تکلیف پہنچی کہ ایک سینئر استاد بھی برادری، زبان اور علاقائی دلدل میں پھنس کر اپنا وقار مجروح کرسکتا ہے۔ بعد میں وہ افسانہ جب ایک اخبار میں ''خلوصِ تنہا'' کے عنوان سے دو قسطوں میں شایع ہوا تو جہاں بہت سے تعریفی خطوط آئے، وہیں ہاجرہ آپا نے طلعت باجی کو فون کرکے بہت تعریف کی اور بتایا کہ وہ اس افسانے کو اپنی طرف سے پہلا انعام دے چکی تھیں۔
پھر اس افسانے کو میں نے اپنے پہلے افسانوی مجموعے ''گلاب زخموں کے'' میں بعینہ ویسا ہی شامل کرلیا جیسے کالج میں ہاجرہ آپا کی موجودگی میں پڑھا تھا۔وہ بہت خاموشی سے چلی گئیں، اپنے ہم سفر احمد علی خان کے پاس جو کہ صرف ایک انگریزی معاصر کے ایڈیٹر ہی نہیں بلکہ ایک بہت باخبر بزرگ صحافی اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ ہاجرہ آپا کو ادیبوں کی بے حسی کا شکوہ تھا، شاید اس لیے کہ وہ جس تہذیب کی پروردہ تھیں وہاں تو زبانی کلامی رشتوں کی بھی ایک اہمیت تھی کہ جس کو بھائی کہہ دیا اس کے ساتھ زندگی بھر سگی بہن کا سا برتائو رکھا اور جسے بہن بنالیا تو سگے بھائی سے بڑھ کر نبھایا۔ وہ اسی تہذیب کی اسیر تھیں جو کہیں گم ہوگئی۔ آج ادیبوں کا رشتہ اگر باقی ہے تو صرف خودغرضی سے کہ کون کس ادیب کو کتنا زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ چاہے کام نکل جانے کے بعد پیٹھ پیچھے گالیاں دیں کہ خودغرضی اور موقع پرستی ہی اب ادیبوں اور شاعروں کی پہچان ہے۔