چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ پروٹوکول کلچر کے خلاف ہوں اور آئندہ میرے ساتھ پروٹول نہیں ہوگا۔
اسلام آباد میں اپنی رہائشگاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے دورے کے موقع پر میرے ساتھ پروٹوکول کی صرف 6 گاڑیاں تھیں اور میڈیا سے چھپ کر دہشتگردی سے متاثرہ اسکول کا دورہ کرنا چاہتا تھا لیکن کے پی کے وزرا کو دورے کا علم ہونے پر وہ بھی ساتھ چلے گئے جس کی وجہ سے قافلہ بڑا ہوگیا تاہم آئندہ اپنے ساتھ پروٹوکول نہیں رکھوں گا۔ انہوں نے کہا کہ 2013 کے انتخابات شفاف ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فیصلہ عدلیہ کو کرنے دیا جائے اور اگر عدالت کہہ دے کہ حکومت کو مینڈیٹ مل گیا تھا تو ہم ماننے کو تیار ہیں، دہشتگردی کے خلاف پوری قوم متحد ہے اس لئے ماحول خراب کرنا نہیں چاہتے۔
چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ 30 دسمبر کو حکومت سے تمام معاملات طے ہوگئے تھے لیکن اس کے بعد سے حکومت کی جانب سے رابطہ نہیں کیا گیا اس لئے مجبور ہوکر اسحاق ڈار کو تین نکات پر مبنی خط ارسال کردیا ہے جس میں مذاکرات سے متعلق ایم او یو اور ٹی او آر شامل ہیں۔ حکومت کو لکھے گئے خط سے متعلق بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت اور ہمارے درمیان جوڈیشل کمیشن آرڈیننس کے ذریعے بنانے پر اتفاق ہوگیا تھا اور اس حوالے سے حکومت سے 3 سوالات کے جواب پوچھے تھے کہ 2013 کے انتخابات شفاف اور آئین و قانون کے مطابق ہوئے یا نہیں، انتخابات میں کسی نے اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی اور عوام نے جنہیں ووٹ دیئے کیا نتائج بھی ووٹوں کے مطابق جاری ہوئے یا نہیں؟ اور عدالت سے ان تین سوالات کے جواب چاہتے ہیں اور اگر عدالت کہہ دے کہ موجودہ حکومت کو ملنے والا مینڈیٹ درست ہے تو ہم اسے تسلیم کرلیں گے۔
عمران خان نے واضح کیا کہ دھاندلی سے متعلق تحقیقات میری اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان کوئی ذاتی لڑائی نہیں بلکہ یہ جمہوریت کی لڑائی ہے، شفاف انتخابات سے آنے والی حکومت عوام پر پیسہ خرچ کرنے پر مجبور ہوتی ہے اور صحت و تعلیم اور انصاف پر پیسہ خرچ کرنے سے عوام کو ریلیف اور جمہوریت ترقی کرتی ہے اور تحریک انصاف یہی چاہتی ہے۔