شادی بیاہ کی غیر شرعی رسمیں
جب تک کسی رسم کی ممانعت شریعت سے ثابت نہ ہو اس وقت تک اسے حرام یا ناجائز نہیں کہہ سکتے
آج کل شادی بیاہ کے مواقع پر مختلف رسمیں رائج ہوگئی ہیں، مثلا ً پھولوں کا سہرا، اُبٹن مایوں، مہندی، بری، فائرنگ، آتش بازی، پٹاخے، ویڈیو فلم اور گانا بجانا۔
صدرُالشریعہ فرماتے ہیں، رسوم کی بنا عرف پر ہے، یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ یہ شرعا ًواجب یا سنت یا مستحب ہیں لہٰذا جب تک کسی رسم کی ممانعت شریعت سے ثابت نہ ہو اس وقت تک اسے حرام یا ناجائز نہیں کہہ سکتے، مگر یہ ضرور ی ہے کہ رسوم کی پابندی اس حد تک کرسکتا ہے کہ کسی حرام فعل میں مبتلا نہ ہو۔ بعض لوگ اس قدر پابندی کرتے ہیں کہ ناجائز فعل کرنا پڑے تو پرواہ نہیں مگر رسم کا چھوڑنا گوارہ نہیں، مثلاً لڑکی جوان ہے اور رسوم ادا کرنے کو روپیہ نہیں تو یہ نہ ہوگا کہ رسمیں چھوڑ دیں اور نکاح کردیں کہ سبک دوش ہوں اور فتنہ کا دروازہ بند ہو۔ اب رسوم کے پورا کرنے کی بھیک مانگتے، طرح طرح کی فکریں کرتے ہیں اس خیال میں کہ کہیں سے قرض مل جائے تو شادی کریں، برسوں گزار دیتے ہیں اور یوں بہت سی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ (بہارشریعت، حصہ ہفتم، ص69)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ؒ خان فاضل بریلوی نے رسوم کے متعلق دو اہم قواعد بیان فرمائے ہیں جن کا سمجھنا ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں، شرع شریف کا قاعدہ ہے کہ جس چیز کو خدا اور رسول اچھا بتائیں وہ اچھی ہے اور جسے بُرا فرمائیں وہ بُری، اور جس سے سکوت فرمائیں یعنی شرع میں نہ اس کی خوبی بیان ہوئی نہ برائی، وہ اباحت اصلیہ پر رہتی ہے کہ اس کے فعل و ترک میں ثواب نہ عتاب۔ کسی سے مشابہت کی بنا پر کسی فعل کی ممانعت اسی وقت صحیح ہے کہ جب فاعل کا ارادہ مشابہت کا ہو، یا وہ فعل اہل باطل کا شعار و علامت خاصہ ہو جس کے سبب وہ پہچانے جاتے ہوں یا اگر خود اس فعل کی مذمت شرع مطہر سے ثابت ہو تو اسے بُرا کہا جائے گا ورنہ ہرگز نہیں اور پھولوں کا سہرا اِن سب باتوں سے پاک ہے لہٰذا جائز ہے۔ دولہا دلہن کو اُبٹن لگانا، مائیوں بٹھانا جائز ہے (بشرطیکہ کوئی اور خلاف شرع امور جیسے گانا بجانا اور نامحرموں سے اختلاط وغیرہ نہ پائے جائیں) دولہا کو مہندی لگانا ناجائز ہے۔ ڈال بَری کی رسم کہ کپڑے وغیرہ بھیجے جاتے ہیں جائز ہے البتہ دولہا کو ریشمی کپڑے پہننا پہنانا حرام ہے۔ (بہارِشریعت، حصہ ہفتم )
فی زمانہ صرف مہندی کی رسم پر لاکھوں خرچ کردیے جاتے ہیں جوکہ اسراف و حرام ہے پھر اس موقع پر عورتوں کا بن سنور کر بے پردہ نامحرموں کے سامنے آنا حرام۔ مزید یہ کہ گانا بجانا ہوتا ہے وہ بھی حرام۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان تمام خرافات کی ویڈیو فلم بنائی جاتی ہے تاکہ بے پردہ عورتوں کے ناچ گانے اور دیگر بے حیائی جب دل چاہے دیکھی جائیں، ظاہر ہے کہ یہ ویڈیو فلم بنانا اور بنوانا بھی حرام و سخت گناہ کا باعث ہیں۔ آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے بے شک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا گیا، ارشاد ہوا '' اور فضول نہ اُڑا، بے شک (مال ) اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ''(بنی اسرائیل)
ناچ گانے بجانے کی رسم کے متعلق صدرُالشریعہ مولانا امجد علی قادری قدس سرہ فرماتے ہیں ۔ اکثر جاہل خاندانوں میں رواج ہے کہ محلے کی یا رشتے دار عورتیں جمع ہوتی ہیں اور گاتی بجاتی ہیں یہ حرام ہے۔ اول ڈھول بجانا ہی حرام پھر عورتوں کا گانا، مزید برآں عورتوں کی آواز نامحرموں کو پہنچنا اور وہ بھی گانے کی اور عشق و ہجر وصال کے اشعار۔ (بہارشریعت، حصہ ہفتم، ص70)
ناچ کے متعلق صدر الشریعہ رقم طراز ہیں، ناچ میں جن فواحش و بدکاریوں اور محرب اخلاق باتوں کا اجتماع ہوتا ہے ان کے بیان کی حاجت نہیں، ایسی ہی مجلسوں میں اکثر نوجوانوں آوارہ ہوجاتے ہیں، دھن دولت برباد کر بیٹھتے ہیں، بازاریوں سے تعلق اور بُرے نتائج رونما ہوتے ہیں اگر کوئی ان بدکاریوں سے محفوظ رہا تو اتنا تو ضرور ہوتا ہے کہ حیا و غیرت اٹھا کر طاق پر رکھ دیتا ہے۔ (بہار شریعت)
مذکورہ بالا ناجائز رسموں کو ایسا لازم سمجھ لیا گیا ہے کہ گویا ان کے بغیر شادی ہی نہ ہوگی۔ ناچ، باجے اور آتش بازی حرام ہیں، کون ان کی حرمت سے واقف نہیں مگر بعض لوگ ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ یہ نہ ہوں تو گویا شادی ہی نہ ہوئی بلکہ بعض تو اتنے بے باک ہوتے ہیں کہ اگر شادی میں یہ حرام کام نہ ہوں تو اسے غمی اور جنازے سے تعبیر کرتے ہیں (خدا کی پناہ ) یہ خیال نہیں کرتے کہ بُری رسم ایک تو گناہ اور شریعت کی مخالفت ہے دوسرے مال کا ضائع کرنا ہے، تیسرے تمام تماشائیوں کے گناہ کا یہی سبب ہے اور سب کے گناہوں کے مجموعہ کے برابر اس اکیلے پر گناہ کا بوجھ ہے (کہ اگر یہ اپنے گھر گناہوں کے سامان نہ پھیلاتا تو آنے والے ان گناہوں میں مبتلا نہ ہوتے۔
صدرُالشریعہ فرماتے ہیں، رسوم کی بنا عرف پر ہے، یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ یہ شرعا ًواجب یا سنت یا مستحب ہیں لہٰذا جب تک کسی رسم کی ممانعت شریعت سے ثابت نہ ہو اس وقت تک اسے حرام یا ناجائز نہیں کہہ سکتے، مگر یہ ضرور ی ہے کہ رسوم کی پابندی اس حد تک کرسکتا ہے کہ کسی حرام فعل میں مبتلا نہ ہو۔ بعض لوگ اس قدر پابندی کرتے ہیں کہ ناجائز فعل کرنا پڑے تو پرواہ نہیں مگر رسم کا چھوڑنا گوارہ نہیں، مثلاً لڑکی جوان ہے اور رسوم ادا کرنے کو روپیہ نہیں تو یہ نہ ہوگا کہ رسمیں چھوڑ دیں اور نکاح کردیں کہ سبک دوش ہوں اور فتنہ کا دروازہ بند ہو۔ اب رسوم کے پورا کرنے کی بھیک مانگتے، طرح طرح کی فکریں کرتے ہیں اس خیال میں کہ کہیں سے قرض مل جائے تو شادی کریں، برسوں گزار دیتے ہیں اور یوں بہت سی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ (بہارشریعت، حصہ ہفتم، ص69)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ؒ خان فاضل بریلوی نے رسوم کے متعلق دو اہم قواعد بیان فرمائے ہیں جن کا سمجھنا ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں، شرع شریف کا قاعدہ ہے کہ جس چیز کو خدا اور رسول اچھا بتائیں وہ اچھی ہے اور جسے بُرا فرمائیں وہ بُری، اور جس سے سکوت فرمائیں یعنی شرع میں نہ اس کی خوبی بیان ہوئی نہ برائی، وہ اباحت اصلیہ پر رہتی ہے کہ اس کے فعل و ترک میں ثواب نہ عتاب۔ کسی سے مشابہت کی بنا پر کسی فعل کی ممانعت اسی وقت صحیح ہے کہ جب فاعل کا ارادہ مشابہت کا ہو، یا وہ فعل اہل باطل کا شعار و علامت خاصہ ہو جس کے سبب وہ پہچانے جاتے ہوں یا اگر خود اس فعل کی مذمت شرع مطہر سے ثابت ہو تو اسے بُرا کہا جائے گا ورنہ ہرگز نہیں اور پھولوں کا سہرا اِن سب باتوں سے پاک ہے لہٰذا جائز ہے۔ دولہا دلہن کو اُبٹن لگانا، مائیوں بٹھانا جائز ہے (بشرطیکہ کوئی اور خلاف شرع امور جیسے گانا بجانا اور نامحرموں سے اختلاط وغیرہ نہ پائے جائیں) دولہا کو مہندی لگانا ناجائز ہے۔ ڈال بَری کی رسم کہ کپڑے وغیرہ بھیجے جاتے ہیں جائز ہے البتہ دولہا کو ریشمی کپڑے پہننا پہنانا حرام ہے۔ (بہارِشریعت، حصہ ہفتم )
فی زمانہ صرف مہندی کی رسم پر لاکھوں خرچ کردیے جاتے ہیں جوکہ اسراف و حرام ہے پھر اس موقع پر عورتوں کا بن سنور کر بے پردہ نامحرموں کے سامنے آنا حرام۔ مزید یہ کہ گانا بجانا ہوتا ہے وہ بھی حرام۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان تمام خرافات کی ویڈیو فلم بنائی جاتی ہے تاکہ بے پردہ عورتوں کے ناچ گانے اور دیگر بے حیائی جب دل چاہے دیکھی جائیں، ظاہر ہے کہ یہ ویڈیو فلم بنانا اور بنوانا بھی حرام و سخت گناہ کا باعث ہیں۔ آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے بے شک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا گیا، ارشاد ہوا '' اور فضول نہ اُڑا، بے شک (مال ) اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ''(بنی اسرائیل)
ناچ گانے بجانے کی رسم کے متعلق صدرُالشریعہ مولانا امجد علی قادری قدس سرہ فرماتے ہیں ۔ اکثر جاہل خاندانوں میں رواج ہے کہ محلے کی یا رشتے دار عورتیں جمع ہوتی ہیں اور گاتی بجاتی ہیں یہ حرام ہے۔ اول ڈھول بجانا ہی حرام پھر عورتوں کا گانا، مزید برآں عورتوں کی آواز نامحرموں کو پہنچنا اور وہ بھی گانے کی اور عشق و ہجر وصال کے اشعار۔ (بہارشریعت، حصہ ہفتم، ص70)
ناچ کے متعلق صدر الشریعہ رقم طراز ہیں، ناچ میں جن فواحش و بدکاریوں اور محرب اخلاق باتوں کا اجتماع ہوتا ہے ان کے بیان کی حاجت نہیں، ایسی ہی مجلسوں میں اکثر نوجوانوں آوارہ ہوجاتے ہیں، دھن دولت برباد کر بیٹھتے ہیں، بازاریوں سے تعلق اور بُرے نتائج رونما ہوتے ہیں اگر کوئی ان بدکاریوں سے محفوظ رہا تو اتنا تو ضرور ہوتا ہے کہ حیا و غیرت اٹھا کر طاق پر رکھ دیتا ہے۔ (بہار شریعت)
مذکورہ بالا ناجائز رسموں کو ایسا لازم سمجھ لیا گیا ہے کہ گویا ان کے بغیر شادی ہی نہ ہوگی۔ ناچ، باجے اور آتش بازی حرام ہیں، کون ان کی حرمت سے واقف نہیں مگر بعض لوگ ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ یہ نہ ہوں تو گویا شادی ہی نہ ہوئی بلکہ بعض تو اتنے بے باک ہوتے ہیں کہ اگر شادی میں یہ حرام کام نہ ہوں تو اسے غمی اور جنازے سے تعبیر کرتے ہیں (خدا کی پناہ ) یہ خیال نہیں کرتے کہ بُری رسم ایک تو گناہ اور شریعت کی مخالفت ہے دوسرے مال کا ضائع کرنا ہے، تیسرے تمام تماشائیوں کے گناہ کا یہی سبب ہے اور سب کے گناہوں کے مجموعہ کے برابر اس اکیلے پر گناہ کا بوجھ ہے (کہ اگر یہ اپنے گھر گناہوں کے سامان نہ پھیلاتا تو آنے والے ان گناہوں میں مبتلا نہ ہوتے۔