بی جے پی کی خطرناک سیاست
بھارت میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں اور قومیتوں کے حوالے سے بھی رنگا رنگی موجود ہے۔
بھارت کو دنیا میں جن حوالوں سے اہمیت حاصل ہے ان میں ایک حوالہ سیکولرازم کا ہے، دنیا میں امن و آشتی کی امید سیکولرازم سے وابستہ ہے۔ بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور بھارت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔
بھارت میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں اور قومیتوں کے حوالے سے بھی رنگا رنگی موجود ہے۔ رنگ، نسل، زبان، قومیت کے حوالوں سے انسانوں کی تقسیم عام ہے اور بعض صورتوں میں یہ حوالے، یہ تقسیم انسانوں کے درمیان تعصبات اور نفرتوں کی آبیاری کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے لیکن ان حوالوں سے بٹی ہوئی قوم کو متحد رکھنے کا واحد ذریعہ حکومت کا سیکولر کردار ہوتا ہے غالباً اسی پس منظر میں بھارت کی اولین قیادت نے بھارت کو ایک سیکولر ریاست قرار دیا بلکہ اس کردار کو آئین میں تحفظ بھی فراہم کیا گیا غالباً اسی ریاستی شناخت کی وجہ سے بھارت رنگ، نسل، زبان اور قومیتوں کے تعصبات پر قابو پا کر متحد رہا جس کا اعتراف بھارت کا دانشور طبقہ برملا کرتا رہا ہے۔
اگرچہ بھارت میں سیکولرازم کو آئینی تحفظ حاصل ہے لیکن بھارت میں مذہبی حلقے بھارت کی مذہبی پہچان کے لیے سرگرداں رہے۔ بھارت کے عوام میں بھی سیکولر سوچ موجود رہی ہے اور بھارت کی سیاسی جماعتیں بھی سیکولرازم کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کرتی رہی ہیں لیکن یہ بڑی عجیب بات محسوس ہوتی ہے کہ بھارت میں بی جے پی جیسی انتہا پسند جماعت عوام میں اس حد تک مقبول ہوتی رہی کہ اب وہ دوسری بار انتخابات جیت کر اقتدار میں آئی ہے۔
بی جے پی کی پہلی حکومت انتہا پسندی کی طرف پیش رفت اس لیے نہیں کر پائی کہ اس وقت بی جے پی کی قیادت نے انتہا پسندی کے بجائے لبرل ازم کا راستہ اپنایا تھا اور واجپائی جیسا لبرل رہنما بھارت کا وزیر اعظم تھا۔ یہ سوال ذہن میں ابھرنا ایک فطری بات ہے کہ آخر بھارتی عوام بی جے پی جیسی انتہا پسند جماعت کو برسراقتدار کیوں لائے؟ کیا بھارتی عوام انتہا پسند ہو گئے ہیں؟ کم از کم بی جے پی کی پہلی حکومت کے دوران ایسی کوئی صورتحال دکھائی نہیں دیتی۔ اصل میں بھارتی عوام بھی دوسرے پسماندہ ملکوں کے عوام کی طرح معاشی پسماندگی کا مسلسل شکار رہے ہیں اور کانگریس جیسی لبرل اور جمہوریت پسند جماعت عشروں تک جب بھارتی عوام کی معاشی بدحالی کا ازالہ نہ کر سکی تو پھر فطری طور پر انھوں نے بی جے پی سے یہ امید باندھ لی کہ شاید وہ مداوا کر سکے غالباً یہی وہ بنیادی عنصر تھا جو بی جے پی کو برسر اقتدار لایا۔
لیکن بی جے پی کی حکومت بھی عوام کے مسائل حل نہ کر سکی کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں عوام کے ساتھ ہونے والی معاشی ناانصافیوں کو کسی قیمت پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔بی جے پی کی پہلی حکومت کی ناکامی کے بعد بی جے پی کے پالیسی سازوں کو یہ اندازہ تھا کہ دوسری بار عوام کی توجہ حاصل کرنا مشکل ہو گا اس تناظر میں بی جے پی کے کرتا دھرتاؤں نے محض حصول اقتدار کی خاطر وہ خطرناک راستہ اختیار کیا جو انھیں اقتدار کی منزل تک تو پہنچا سکتا تھا لیکن اس کے خطرناک اثرات بھارتی معاشرے کو کسی تباہ کن راستے پر لے جائیں گے اس کی بی جے پی کو کوئی پرواہ نہ تھی۔ اس خطرناک راستے پر پیشرفت کے لیے بی جے پی نے نریندر مودی کو آگے بڑھایا۔ گجرات میں مسلمانوں کے منظم قتل عام کے ذریعے بھارتی عوام کی سوچ پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
دنیا کا کوئی دانشور، کوئی مفکر، کوئی فلسفی یہ نہیں مان سکتا کہ کوئی ملک انتہا پسندی کے ذریعے عوام کے مسائل حل کر سکتا ہے نہ عوام کے مستقبل کو تابناک بنا سکتا ہے۔پاکستان میں جاگیردار طبقے نے اقتدار اور سیاست پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے 1949ء میں قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا اس قرارداد کے مطابق پاکستان ایک مذہبی ریاست بن گیا اگرچہ قرارداد مقاصد بنیادی طور پر جاگیردار طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے آئین میں شامل کی گئی جس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ پانچ عشروں تک قرارداد مقاصد آئین کی زینت تو بنی رہی لیکن کسی بھی حکومت نے قرارداد مقاصد پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی ہی نہیں کیونکہ اس قرارداد کا مقصد سیاست اور اقتدار پر اشرافیہ کی گرفت مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا، لیکن اس قرارداد کی وجہ سے ایک برائے نام مذہبی تشخص ملک کو مل گیا۔
پاکستان میں قرارداد مقاصد آئین کا حصہ تو رہی لیکن اس پر عملدرآمد کیوں نہ ہو سکا یہ ایک ایسا سوال ہے جو گہرائی سے جائزہ لینے کا متقاضی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ قرارداد پاکستان میں ایک انتہا پسند کلچر کو فروغ دینے کا وسیلہ بن گئی آج ہم ملک میں جس انتہا پسندی کا سامنا کر رہے ہیں کیا اس کا تعلق قرارداد مقاصد سے ہے؟ہم بات کر رہے تھے بھارت میں بی جے پی کی سیاست کی۔ بی جے پی نے 2014ء کے الیکشن میں انتہا پسندی کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنایا اور عوام نے بی جے پی کے انتخابی منشور کی روشنی میں نریندر مودی جیسے بدنام زمانہ انتہا پسند شخص کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا۔ بی جے پی کا یہ خطرناک کھیل اگر حصول اقتدار تک محدود رہتا تو پھر بھی اس قدر خطرناک نہ ہوتا لیکن لگتا ہے بی جے پی میں انتہا پسند گروہ اس قدر طاقتور ہو گیا ہے کہ اس نے بھارت کے سیکولر تشخص کو انتہا پسندی میں بدلنے کی عملی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
بھارتی تعلیمی نصاب کو ہندو میتھالوجی کے مطابق بنایا جا رہا ہے بھارت کی تاریخ کو ہندو دھرم کے پس منظر میں ازسر نو لکھنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ آٹھ سو سال بعد بھارت کو مذہبی تشخص حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔
بھارت کا باشعور اور بی جے پی کی احمقانہ کوششوں کے خطرناک نتائج کا ادراک رکھنے والا دانشور طبقہ ان کوششوں پر سخت تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ اور اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہا ہے کہ بھارت کا یہ مذہبی تشخص بھارت کو ٹکڑوں میں بانٹ دے گا۔مودی حکومت انتہا پسندی میں اندھی ہو کر بعض ایسے اقدامات کر رہی ہے جو اس خطے میں پہلے سے پھیلی ہوئی انتہاپسندی کی جلتی پر تیل کا کام کریں گے۔ کشمیر کو بھارتی آئین میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے جس کی وجہ سے کشمیر عملاً ایک متنازعہ علاقہ بنا ہوا ہے کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کو ختم کر کے مودی حکومت کشمیر کو بھارت کی دوسری ریاستوں کی حیثیت دینے کی تیاری کر رہی ہے جو اس خطے میں انتہا پسندی کو کھاد فراہم کرے گی۔