آرٹس کونسل 22 دسمبر سے 12 جنوری تک
تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ حزب مخالف نے جمہوری روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے تقریب میں شرکت کا فیصلہ کر لیا۔
RAWALPINDI:
ہر سال کی طرح 22 جنوری 2014ء کو بھی آرٹس کونسل کے انتخابات منعقد ہوئے، دو پینل مدمقابل، ایک پینل کی قیادت ماضی کی طرح احمد شاہ اور اعجاز فاروقی کر رہے تھے جب کہ دوسرے پینل کا نام شہر قائد پینل تھا جس کے قائد معروف صنعت کار خلیل احمد نینی تال والا تھے۔ انتخابات سے قبل زبردست گہما گہمی تھی۔
گو کہ آرٹس کونسل کے ممبران کی تعداد تقریباً 5,500 محدود صاحب الرائے مرد و زن پر مشتمل ہے، زبردست معرکہ ہوا فریقین کی جانب سے مقابلہ زبردست تھا دونوں جانب سے فنکار، ادیب، موسیقار، صنعتکار، ادیب، شاعر صاحبان ذوق اہل قلم صف آرا تھے پولنگ زور و شور سے جاری رہی ایک ایک ووٹ پر نام پکارا جاتا رہا کہ کس کا یہ ووٹ ڈالا گیا کئی گھنٹے یہ ووٹنگ چلتی رہی اور پھر گنتی جاری رہی مگر نہ کوئی شور و غل اور نہ کوئی عداوت پھر فجر کے وقت نتائج آنے پر جو مجموعی طور پر 20 فیصد ووٹ خلیل احمد نینی تال والا کی تمام پارٹی کے کم نکلے، ماسوائے ان کی گورننگ باڈی کے 12 افراد اوسطاً شہر قائد کے زیادہ نکلے جن میں رضوان صدیقی اور زیبا بختیار شامل ہیں بہرصورت شہر قائد کے 2 افراد جو اس الیکشن میں جیت گئے وہ بھی معمولی اکثریت سے جس میں رضوان صدیقی قابل ذکر اس لیے کہ ماضی میں وہ آرٹس کونسل میں کافی سرگرم رہے ہیں اور زیبا بختیار کو معمولی اکثریت ان کی فنکارانہ صلاحیتوں پر مل گئی۔
باقی ماندہ شہر قائد کے افراد شکست سے دوچار ہوئے امید تو یہ تھی کہ انتخابات کے اختتام پر شہر قائد کے دو اہم لیڈران نجم الدین شیخ اور خلیل احمد نینی تال والا اسی لمحے آرٹس کونسل آتے اور منتخب ٹیم کو بغل گیر کرتے اور یہ اعلان کرتے کہ جو ہوا سو ہوا سب ختم ہوا نہ دل میں کوئی ملال ہے پھر سے سب ہیں رطب اللسان نہ کوئی کدورت نہ کوئی خیال ہے یہ تو آرٹس کونسل کی مثال ہے مگر صد افسوس کہ اس صاف کھلے آسمان کے تھیٹر کی آسمانی شام گل رنگ کے گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کی نرم گفتار، نظریات کا مترجم تصادم سب مکدر ہو کر رہ گئے جب یہ پتہ چلا کہ نتائج کورٹ میں چیلنج کر دیے گئے اور 23 تاریخ سے آرٹس کونسل کی اداس فضا میں گلوں میں رنگ بھرے پھر سے باد نو بہار چلی جب آرٹس کونسل کی گورننگ باڈی نے اور متفقہ طور پر جیتنے والوں نے دو تہائی اکثریت سے زائد لوگوں نے 22 روز بعد یہ فیصلہ کیا کہ 2015ء کی کابینہ 13 جنوری کو شام 6:30 بجے نو منتخب ارکان کی تقریب حلف برداری آرٹس کونسل کے پرشکوہ آڈیٹوریم میں منعقد ہو اور ایسا ہی ہوا۔
تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ حزب مخالف نے جمہوری روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے تقریب میں شرکت کا فیصلہ کر لیا اس طرح شہر قائد قائد پینل کے بائیکاٹ اور ہائیکورٹ میں درخواست گزاری کی منطق ازخود رد ہو گئی اور سب سے بڑھ کر کمشنر کراچی اور شہری انتظامیہ کی پرمغز اور شفاف تقریر سے انتخاب کے گرد آلود مطلع کی گنجائش باقی نہ رہی۔ اگر تقریب کا معمولی جائزہ لیا جائے تو نہ صرف پورا آڈیٹوریم مکمل طور پر بھرا تھا شہر بھر کے دانشور، صاحبان علم و ہنر موجود تھے، پورا مجمع ایسا لگ رہا تھا کہ تقریب میں شریک ہر فرد پوری طور سے چارج ہے۔ نعرے، جوابی نعرے ماضی حال کے موازنے جاری رہے۔
تقریب کا آغاز کلام پاک کی تلاوت سے ہوا ایک معروف بزنس مین علیم فرپو نے تلاوت کی سعادت حاصل کی جو اکثر آرٹس کونسل آف کراچی کے فنکاروں کے کام بھی آتے ہیں۔ پروگرام کی کمپیئرنگ کے فرائض محترمہ ہما میر نے انجام دیے۔ اور نہایت خوش اسلوبی سے پروگرام کو آگے بڑھایا جیسا کہ ان کے رہنما محمد احمد شاہ اعزازی جنرل سیکریٹری نے ترتیب دیا تھا جو دن کے 11 بجے یا قبل سے رات گیارہ بجے تک آرٹس کونسل میں موجود رہتے ہیں جب کہ ماضی کے صدور کو کئی کئی روز یا ان کی ٹیم کے قائدین کو تلاش کرنا پڑتا تھا۔
12 جنوری کی تقریب حلف برداری جب منعقد ہوئی تو کمشنر کراچی شعیب صدیقی نے اپنی تقریر کے دوران آرٹس کونسل کے انتخاب کو جمہوری عمل کی ترقی سے تعبیر کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آرٹس کونسل کے انتخابات جمہوری عمل کا ایک ناقابل مثال نمونہ ہے جو کم از کم پاکستان کے کسی شہر میں موجود نہیں۔ گلے میں ہاتھ ڈالے اور دو مختلف امیدواروں کے کارکن ادھر انتخاب ختم ہوا، معرکہ خاک میں ملا۔ کیونکہ یہ کوئی نظری معاملہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں تو ایک ہی مقصد کو دو مختلف زاویوں سے آگے بڑھانا ہوتا ہے۔
حکومتوں کو تجاویز پیش کرنا بھی ملک و ملت کی ترقی کی راہ ہے اور اگر ادب اور فن میں کسی کاروباری کو دلچسپی ہے تو پھر اس کو ادب آرٹ اور سائنس کے انعامات پر توجہ کی ضرورت ہے اور آرٹس سے منسلک افراد کی حوصلہ افزائی ہے آپ کو اگر یاد ہو تو ایک زمانہ تھا کہ ایوب خان نے رائٹرز گلڈ بنائی تھی اور اہل قلم کو درجہ دیا گیا تھا اسی دور میں آدم جی ادبی انعام بھی دیا جاتا تھا جس سے اہل قلم کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔
موضوع سخن کو مزید پھیلانے کی ضرورت ہے مجھے ان ہی دنوں آرٹس کونسل کے ایک معروف واٹر کلر آرٹسٹ سے ملاقات ہوئی جو آرٹس کونسل کے 1986ء سے رکن ہیں دوران گفتگو وہ یہ کہنے لگے بھائی انیس! ابھی ہم یہاں بیٹھے ہیں سر پر چھتری ہے یہ نیلا سائبان سر پر مگر وہ بھی ایک دور تھا۔ کون سا دور برادر! 86-83ء کا تو کیا تھا بھائی! شام ہوتے ہی یہ بھوت بنگلہ بن جاتا تھا اور یہ دیکھو کس قدر چہل پہل ہے مگر یہ سب اچانک نہ ہوا رفتہ رفتہ کارواں بڑھتا گیا قافلہ سالار بدلتے گئے یاور مہدی نے پنیری کو پانی دیا دھوپ دی اور ابتدائی عشاق جمع کیے ان میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو وہ بزم طلبا ریڈیو پاکستان سے لائے تھے۔ وہ حلقہ شعرا و ادبا خصوصیت کے ساتھ تھا اور پھر ترقی کے ابواب کھلتے گئے۔
کافی وقت انھوں نے لگائے ان کے بعد کئی لیڈر آئے ان میں انیق احمد بھی آئے جو آرٹس کونسل میں آسانی سے دستیاب نہ تھے۔ پروگرام کے ہونے کی بات کیا ان کا انعقاد کیسا جب کہ پروگرام کرانے والے ہی موجود نہ ہوں چند لاکھ سالانہ کے عطیات بھی نہ تھے اگر آرٹس کونسل کی ترقی کے ادوار کو دیکھنے کی بات ہے تو گزشتہ 6 سال سے اس کا روپ و رنگ نکھرا ہے ماضی کے احوال تو یہ تھے کہ اگر رکشہ ٹیکسی والے سے پوچھا جائے کہ آرٹس کونسل جانا ہے تو ان کو بتانا ہوتا تھا کہ وہ کس جگہ ہے سندھ اسمبلی، یا شاہین سینٹر کے قریب اب آپ لانڈھی میں موجود ہوں تو رکشہ والا کیا عام آدمی کو معلوم ہے کہ آرٹس کونسل کراچی کہاں ہے۔ یہ تو رہی بات عام آدمی کی کیونکہ اردگرد سے نکلنے والے لوگ خود آرٹس کونسل کی پہچان بنتے جا رہے ہیں۔
ڈرامے، میوزیکل شوز، ادبی پروگرام، یوتھ فیسٹیول وغیرہ نعتیہ پروگرام ہر ایک کا الگ چہرہ میلاد النبی، مجلس سوز حسین غرض وسعت قلب و نظر کا نظارہ رفتہ رفتہ بن گیا آرٹس کونسل۔ یہ قیادت تھی احمد شاہ، اعجاز فاروقی پینل کی۔ کئی کئی روز ادبی میلے کی کیفیت عالمی ادبا سے ملاپ پڑوسی ملک سے ثقافتی روابط کوئی آسان کام نہیں۔ اس موقع پر میر انیسؔ نے بجا طور پر فرمایا:
سبک ہو چلی تھی ترازوئے شعر
مگر ہم نے پلہ گراں کر دیا
میری قدر کر اے زمین سخن
تجھے بات میں آسماں کر دیا
گورنر سندھ نے حلف برداری کی تقریب میں صدارتی خطبہ دیا تو ایک جائزہ ادارے کی کارکردگی اور گرانٹ کا جائزہ لیا۔ نئے یونٹوں کا قیام سرعت اور بروقت بلڈنگ کی تعمیر اور مزید گرانٹ کا وعدہ فرمایا یہ ادارہ جہاں کبھی چند لاکھ کی گرانٹ نہ ملتی تھی آج گورنر صاحب نے 3.5 کروڑ کی خطیر گرانٹ کا عندیہ دیا امید ہے کہ جمہوری مسائل جمہوری انداز میں حل ہوں گے اور دوسرے مسائل سے دور ہٹ کر ادبی اور فنی ادارے جلد اپنی ماضی کی روش اختیار کر لیں گے اور کام کرنے والوں کو کام کرنے کے مواقعے فراہم کریں گے نہ کہ ادب کو تھانہ کچہری سے جوڑ دیا جائے بلکہ یوں ہو کہ:
کہکشاں اپنی تمناؤں کی ہے راہ گزر
کاش اس راہ پہ مل کر کبھی پرواز کریں
اک نئی زیست کا در باز کریں
(ن۔م راشد)