کیا نام دوں
غم کی ماری مائیں خون کے آنسو روتی رہیں، پوری قوم سوگوار ہے، عالمی برادری بھی اس غم میں شریک ہے۔
جنگل میں چیتا ،جھاڑی کے اوٹ میں چھپے اپنے ممکنہ شکار کے لیے بے تاب نظر آتا ہے۔ اسی اثناء میں ہرن کے ایک معصوم بچے کا ادھر سے گزر ہوتا ہے۔ چیتے کی نظر اس پر پڑتی ہے تو اس کے منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ وہ دبے پائوں اس کی جانب بڑھنے لگتا ہے جس کا احساس ہونے پر ہرن کا بچہ دوڑنے لگتا ہے۔چیتا بھی اس کے پیچھے دوڑنے لگتا ہے آگے ہرن کا بچہ پیچھے چیتا، دوڑتے دوڑتے بالآخر ہرن کا بچہ تھک جاتا ہے اور ایک مقام پر رک جاتا ہے اتنے میں چیتا بھی اس کے قریب آجاتا ہے اور ہرن کے اس بچے کو گھورنے لگتا ہے اور ہرن کا بچہ بھی چیتے کی طرف معصومیت سے دیکھتا ہے کہ جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ مجھے اپنا شکار مت بنائو۔ میں تو ایک معصوم بچہ ہوں، میری ننھی سی جان تمہارا بڑا پیٹ نہیں بھرسکتی۔
مجھے واپس جانے دو، میری ماں میرا انتظار کررہی ہوگی۔ اچانک چیتے کا ارادہ اسے کھانے سے بدل جاتا ہے۔ اسے اس ہرن کی معصومیت پر پیار آجاتا ہے۔ آگے بڑھ کر چیتا اسے سہلانے لگتا ہے، ہرن کا بچہ مطمئن ہوجاتا ہے۔ اسی دوران ایک اور چیتا نمودار ہوجاتا ہے اور ہرن کے بچے کو شکار کرنے کے لیے آگے بڑھنے لگتا ہے تو پہلے والا چیتا جس نے ہرن کے بچے پر رحم کرکے اس کی جان بخشی تھی وہ شکارکوآئے دوسرے چیتے پر جھپٹ پڑتا ہے تو وہ اپنی جان بچاکر بھاگ جاتا ہے اور رحم دل چیتا ہرن کے بچے کو اپنے ہمراہ لیے چلنے لگتے ہیں۔ شاید وہ اسے خطرناک علاقے سے نکال کر محفوظ مقام تک چھوڑنا چاہتا تھا۔معزز قارئین! یہ بچوں کی کوئی کہانی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فلمی سین ہے یہ حقیقت پر مبنی واقعہ ہے جو میں نے کافی عرصے پہلے مشہورچینل ''جیوگرافک'' کے ایک پروگرام میں دیکھا تھا۔
آج یہ پروگرام مجھے اس لیے یاد آیا کہ جب طالبان کے سات درندوں نے آرمی پبلک اسکول میں گھس کر 132 معصوم طالب علم بچوں سمیت 141 افراد کو شہید اور 124 کو زخمی کردیا، پشاور میں واقع ''آرمی پبلک اسکول'' میں پاکستان کے مستقبل کے معمار بچے ایک طرف درس و تدریس میں مصروف تھے تو دوسری طرف اسکول کے آڈیٹوریم میں بچوں کی تقریب تھی، اس دوران مسلح دہشت گرد اسکول میں داخل ہوئے۔ آڈیٹوریم کے ہال اور کلاس کے کمروں میں گھس کر اندھا دھند بچوں پر فائر کھول دیے۔ بعض بچوں کو ذبح کیا گیا اور ایک خاتون ٹیچر کو زندہ جلادیاگیا۔ ایک شیطان حملہ آور نے کلاس روم میں گھس کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا اور دوزخ کی آگ کی نذر ہوگیا۔
فوجی آپریشن میں ساتوں شیطان دہشت گرد جہنم رسید ہوگئے۔ غم کی ماری مائیں خون کے آنسو روتی رہیں، پوری قوم سوگوار ہے، عالمی برادری بھی اس غم میں شریک ہے، سانحہ پشاور کے اس انسانیت سوز واقعے کے ساتھ ہی پوری پاکستانی قوم طالبان دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوچکی ہے اور اس اتحاد کو گلی گلی منظم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان دہشت گردوں کے لیے پاکستان کی پاک سرزمین تنگ ہوجائے۔ذرا تصور کریں! وہ کیا دل گیر منظر ہوگا جب دہشتگرد کلاس روم میں داخل ہوکر خود کو دھماکے سے اڑا رہا ہوگا جس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں بچے شہید ہو رہے ہوںگے جب دہشت گردوں نے فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا تو بچے کلاس روم میں چھپ گئے شیطانوں نے میزوں کے نیچے جان بچانے کے لیے چھپنے والے بچوں کی ٹانگوں اور سروں کو نشانہ بنایا۔ کچھ بچوں کو پہلے تشدد کا نشانہ بنایا پھر ان پر فائر کھول دیا۔
اب آپ خود فیصلہ کریں! جنگل کا ایک درندہ چیتا ہرن کے ایک بچے پر رحم کھاتے ہوئے اسے شکار نہیں کرتا اور پھر اس کا محافظ بن جاتا ہے تو پھر میں ان دہشتگردوں کو درندہ کیوں کہوں؟ درندوں کے دلوں میں بھی رحم کا مادہ ہوتا ہے جیسا اس چیتے کے دل میں نظر آیا۔ انسان تو یہ ہو نہیں سکتے کہ انسان جتنا بھی ظالم ہو معصوم بچوں پر اس طرح ظلم کرنے کا سوچ نہیں سکتے اس طرح ان پر دین و مذہب کا اطلاق نہیں ہوسکتا تو ان سفاک دہشت گردوں کو کیا نام دیاجائے؟شیطان سے بڑھ کر دوسرا برا نام کوئی نہیں۔ اس لیے شیطان نام موزوں رہے گا کیوں کہ اﷲ نے شیطان کو ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے باقی جو بھی نام دیاجائے کم ہے۔
دہشت گرد مذہب اور انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو دین کے نام پر اپنی نسلوں اور بچوں کو برباد کررہے ہیں انھیں کیفر کردار تک پہنچایاجائے۔بلاشبہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 132 معصوم طالب علموں، اساتذہ اور سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت ملکی تاریخ میں دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ ہے، اس سے پہلے 3 بڑے واقعات خیبر پختونخوا میں ہی ہوئے، ہر واقعے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے، ایک رپورٹ کے مطابق 28 اکتوبر 2009 کو پشاور قصہ خوانی بازار میں دہشت گردی میں 110 افراد، یکم جنوری 2010 کو لکی مروت میں والی بال میچ کے دوران دھماکے میں 105 جب کہ 9 جولائی 2010 کو مہمند ایجنسی میں ہونیوالے واقعے میں 121 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
دیگر بڑے واقعات میں 27 مارچ 2009 کو جمرود میں 76، اگست 2008 کو پی او ایف واہ میں خودکش حملے میں 70، 2 نومبر 2014 کو واہگہ بارڈر پر خودکش حملے میں 65، 20ستمبر 2008 کو میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں خودکش حملے میں 57، اپریل 2006 کو نشتر پارک کراچی میں 50 سے زائد، یکم جنوری 2014 کو کوئٹہ کار بم دھماکے میں 50 سے زائد شہری، 8 نومبر 2006 کو شمالی وزیرستان میں 42 فوجی جوان، یکم جولائی 2010 کو داتا دربار دھماکے میں 42 افراد جب کہ 4 ستمبر 2009 کو پریڈ لائن راولپنڈی میں مسجد ضرار پر حملے میں 40 سے زائد بچے اور بڑے شہید ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر 50 ہزار سے زائد پاکستانی فورسز اور شہری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہوچکے ہیں۔اب حالات بدل چکے ہیں پوری پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاک افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے جو اس بات کی غماز ہے کہ انشاء اﷲ! عنقریب پاکستان کی پاک سرزمین دہشت گردوں سے پاک ہوجائے گی۔
مجھے واپس جانے دو، میری ماں میرا انتظار کررہی ہوگی۔ اچانک چیتے کا ارادہ اسے کھانے سے بدل جاتا ہے۔ اسے اس ہرن کی معصومیت پر پیار آجاتا ہے۔ آگے بڑھ کر چیتا اسے سہلانے لگتا ہے، ہرن کا بچہ مطمئن ہوجاتا ہے۔ اسی دوران ایک اور چیتا نمودار ہوجاتا ہے اور ہرن کے بچے کو شکار کرنے کے لیے آگے بڑھنے لگتا ہے تو پہلے والا چیتا جس نے ہرن کے بچے پر رحم کرکے اس کی جان بخشی تھی وہ شکارکوآئے دوسرے چیتے پر جھپٹ پڑتا ہے تو وہ اپنی جان بچاکر بھاگ جاتا ہے اور رحم دل چیتا ہرن کے بچے کو اپنے ہمراہ لیے چلنے لگتے ہیں۔ شاید وہ اسے خطرناک علاقے سے نکال کر محفوظ مقام تک چھوڑنا چاہتا تھا۔معزز قارئین! یہ بچوں کی کوئی کہانی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فلمی سین ہے یہ حقیقت پر مبنی واقعہ ہے جو میں نے کافی عرصے پہلے مشہورچینل ''جیوگرافک'' کے ایک پروگرام میں دیکھا تھا۔
آج یہ پروگرام مجھے اس لیے یاد آیا کہ جب طالبان کے سات درندوں نے آرمی پبلک اسکول میں گھس کر 132 معصوم طالب علم بچوں سمیت 141 افراد کو شہید اور 124 کو زخمی کردیا، پشاور میں واقع ''آرمی پبلک اسکول'' میں پاکستان کے مستقبل کے معمار بچے ایک طرف درس و تدریس میں مصروف تھے تو دوسری طرف اسکول کے آڈیٹوریم میں بچوں کی تقریب تھی، اس دوران مسلح دہشت گرد اسکول میں داخل ہوئے۔ آڈیٹوریم کے ہال اور کلاس کے کمروں میں گھس کر اندھا دھند بچوں پر فائر کھول دیے۔ بعض بچوں کو ذبح کیا گیا اور ایک خاتون ٹیچر کو زندہ جلادیاگیا۔ ایک شیطان حملہ آور نے کلاس روم میں گھس کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا اور دوزخ کی آگ کی نذر ہوگیا۔
فوجی آپریشن میں ساتوں شیطان دہشت گرد جہنم رسید ہوگئے۔ غم کی ماری مائیں خون کے آنسو روتی رہیں، پوری قوم سوگوار ہے، عالمی برادری بھی اس غم میں شریک ہے، سانحہ پشاور کے اس انسانیت سوز واقعے کے ساتھ ہی پوری پاکستانی قوم طالبان دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوچکی ہے اور اس اتحاد کو گلی گلی منظم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان دہشت گردوں کے لیے پاکستان کی پاک سرزمین تنگ ہوجائے۔ذرا تصور کریں! وہ کیا دل گیر منظر ہوگا جب دہشتگرد کلاس روم میں داخل ہوکر خود کو دھماکے سے اڑا رہا ہوگا جس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں بچے شہید ہو رہے ہوںگے جب دہشت گردوں نے فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا تو بچے کلاس روم میں چھپ گئے شیطانوں نے میزوں کے نیچے جان بچانے کے لیے چھپنے والے بچوں کی ٹانگوں اور سروں کو نشانہ بنایا۔ کچھ بچوں کو پہلے تشدد کا نشانہ بنایا پھر ان پر فائر کھول دیا۔
اب آپ خود فیصلہ کریں! جنگل کا ایک درندہ چیتا ہرن کے ایک بچے پر رحم کھاتے ہوئے اسے شکار نہیں کرتا اور پھر اس کا محافظ بن جاتا ہے تو پھر میں ان دہشتگردوں کو درندہ کیوں کہوں؟ درندوں کے دلوں میں بھی رحم کا مادہ ہوتا ہے جیسا اس چیتے کے دل میں نظر آیا۔ انسان تو یہ ہو نہیں سکتے کہ انسان جتنا بھی ظالم ہو معصوم بچوں پر اس طرح ظلم کرنے کا سوچ نہیں سکتے اس طرح ان پر دین و مذہب کا اطلاق نہیں ہوسکتا تو ان سفاک دہشت گردوں کو کیا نام دیاجائے؟شیطان سے بڑھ کر دوسرا برا نام کوئی نہیں۔ اس لیے شیطان نام موزوں رہے گا کیوں کہ اﷲ نے شیطان کو ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے باقی جو بھی نام دیاجائے کم ہے۔
دہشت گرد مذہب اور انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو دین کے نام پر اپنی نسلوں اور بچوں کو برباد کررہے ہیں انھیں کیفر کردار تک پہنچایاجائے۔بلاشبہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 132 معصوم طالب علموں، اساتذہ اور سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت ملکی تاریخ میں دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ ہے، اس سے پہلے 3 بڑے واقعات خیبر پختونخوا میں ہی ہوئے، ہر واقعے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے، ایک رپورٹ کے مطابق 28 اکتوبر 2009 کو پشاور قصہ خوانی بازار میں دہشت گردی میں 110 افراد، یکم جنوری 2010 کو لکی مروت میں والی بال میچ کے دوران دھماکے میں 105 جب کہ 9 جولائی 2010 کو مہمند ایجنسی میں ہونیوالے واقعے میں 121 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
دیگر بڑے واقعات میں 27 مارچ 2009 کو جمرود میں 76، اگست 2008 کو پی او ایف واہ میں خودکش حملے میں 70، 2 نومبر 2014 کو واہگہ بارڈر پر خودکش حملے میں 65، 20ستمبر 2008 کو میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں خودکش حملے میں 57، اپریل 2006 کو نشتر پارک کراچی میں 50 سے زائد، یکم جنوری 2014 کو کوئٹہ کار بم دھماکے میں 50 سے زائد شہری، 8 نومبر 2006 کو شمالی وزیرستان میں 42 فوجی جوان، یکم جولائی 2010 کو داتا دربار دھماکے میں 42 افراد جب کہ 4 ستمبر 2009 کو پریڈ لائن راولپنڈی میں مسجد ضرار پر حملے میں 40 سے زائد بچے اور بڑے شہید ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر 50 ہزار سے زائد پاکستانی فورسز اور شہری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہوچکے ہیں۔اب حالات بدل چکے ہیں پوری پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاک افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے جو اس بات کی غماز ہے کہ انشاء اﷲ! عنقریب پاکستان کی پاک سرزمین دہشت گردوں سے پاک ہوجائے گی۔