جنگل کی باتیں

یہی مکھی کی زندگی کا فطرتی حسن ہے، ظاہر ہے ایسے حسن کے بارے میں کئی باتیں آپ کو ان لوگوں سے سننے کو ملیں گی۔


منظور ملاح January 15, 2015

پھر وہی مکھی،جھیلوں کا نیلا پانی، اس پانی کے نیچے ہری گھاس کی چادر بچھائی ہوئی ، درمیان میں ریتی کے چھوٹے چھوٹے ٹیلے، ان ٹیلوں کے اوپرگھنی جھاڑیاں، ان جھاڑیوں کے بیچ رہتے ہوئے لوگ اورجانور، سردیوں کے موسم میں سائیبیریا سے ہجرت کر کے آنے والے خوبصورت پرندے، پھر بندوقوں کا منہ ان کی طرف یا پانی میں لگے ہوئے جال بھی ان کے انتظار میں، رات کو آگ پر پکتا ہوا ان کا گوشت، لوگوں کی آپس میں کچہریاں اور قریبی گائوں سے گپ شپ کے لیے آنے والے لوگوں کے سر پر دودھ سے بھرے ہوئے برتن اٹھائے اکٹھے ہونا،چائے اور دودھ کی چسکیاں لینا ۔

یہی مکھی کی زندگی کا فطرتی حسن ہے، ظاہر ہے ایسے حسن کے بارے میں کئی باتیں آپ کو ان لوگوں سے سننے کو ملیں گی، جنھوں نے کسی نہ کسی حوالے سے مکھی کو اپنا مسکن نسلوں سے بنایا ہوا ہے۔ یہ باتیں وہاں کے لوگ کلچر تہذیب، روایات ، تاریخ، سوشیالوجی،اینیتھرا پالوجی کی عکاس ہوتی ہیں، جو صدیوں سے چلتی رہتی ہیں جسے لوک دانش بھی کہتے ہیں ۔ ذرا آپ بھی ان میں سے کچھ سن لیجیے۔

ایک کہاوت ہے کہ پانی میں رہ کر مگر مچھ سے بیر ۔ اس کہاوت کے برعکس مکھی کسے مگرمچھوں سے سالوں جنگ میں مصروف ایک کردار خیر محمد ، قد چھوٹا ، گھنگھریلے بال، اجڑے ہوئے دریاء کی طرح بڑھی ہوئی مونچھوں اور داڑھی کے بال ، جسم پر قمیض اوردھوتی پہنی ہوئی، ایک ہاتھ میں چھوٹی سی کلہاڑی اور دوسرے ہاتھ سے پتے کی بیڑیوں سے دھویں کے کش نکالتے ہوئے یہ شخص مگرمچھوں کا شکار کرتے تھے۔ ان کے بقول ایک بار وہ مگرمچھ کا شکار کرنے جھیل کے کنارے انھیں ڈھونڈنے گئے، تو دیکھا کہ تازہ پائوں کے نشانات جھیل کے کنارے ریت پر موجود تھے۔ اس نے ان نشانوں کا تعاقب کیا تو چند گز کے فاصلے پر پیلوں کے درخت کے نیچے ٹیلے میں زمین کھدی ہوئی تھی ، جس کے اندر مگر مچھ تھوڑی دیر پہلے گیا ہوا تھا ۔

سردی کا موسم تھا ، جس میں مگر مچھ جھیلوں کے پانی سے نکل کرکچھ فاصلے پر خشکی میں کھڈے کھودکر اندر بیٹھتے ہیں، جہاں وہ انڈے دیتے ہیں لیکن ان کا منہ ہمیشہ باہر جانے والے راستے کی طرف ہوتا ہے تاکہ کسی خطرے سے اچھی طرح نمٹ سکیں۔ کچھ دن بعد یہ واپس پانی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ جب بچے انڈوں سے نکلنا شروع ہوتے ہیں وہ بغیر رکے ایک پل پانی کا رخ کرتے ہیں، ورنہ انھیں اپنے ہی کسی بڑے مگرمچھ کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔ اس لیے تو کہتے ہیں کہ مگر مچھ اپنے بچوں کو بھی کھا جاتا ہے ۔

بہرحال خیر محمد اس کھڈے میں چند قدم اندر گئے تو پتا چلا کہ مگر مچھ موجود ہے۔ اس نے اپنی کمر سے ایک مضبوط رسی کو باندھا ہوا تھا، تو اس کے ہاتھ میں لوہے کی تیز دھار والے اوزار کے ساتھ لگی ہوئی ایک لمبی لاٹھی بھی تھی ، جسے مقامی زبان میں '' چھت'' کہتے ہیں۔ کچھ فاصلے پر کھڑے خیر محمد نے اپنی لاٹھی آہستہ آہستہ مگر مچھ کی طرف بڑھاناشروع کی، کیوںکہ ایک دم یہ لاٹھی مارتے تو مگر مچھ کے حملے کا خطرہ موجود تھا۔ جب یہ لاٹھی اندھیرے میں کہیں ایک جگہ پر جا رکی تو خیر محمد نے اس لاٹھی کو ذرا سا ہلا کر دیکھا تو اس سے پتہ چل گیا کہ لاٹھی مگر مچھ نے مضبوطی سے اپنے منہ میں دے رکھی ہے۔ پھر خیر محمد آہستہ آہستہ ہاتھ اور پائوں کے بل پر اس لاٹھی کو چھوتا ہوا آگے چلتا گیا، کچھ ہی دیر میں اس کے ہاتھ کسی ایک جسامت پر لگے جس سے محسوس ہوا کہ یہی مگر مچھ ہے۔

اس نے آہستہ آہستہ مگر مچھ کے سر اور جسم کے اوپر والے حصے پر میٹھی میٹھی خراش کرنا شروع کر دی، جس سے انڈوں پر بیٹھا ہوا مگر مچھ آہستہ آہستہ پھولتا گیا اور پھر اپنے ٹانگوں پر کھڑا ہوا تو خیر محمد نے پیچھے سے گھوم کر اپنی کمر سے رسی کھول کر اس کے جسم کے درمیانی حصے میں اگلی اور پچھلی ٹانگوں کی بیچ میں سے گذار کر ایک سرے میں باندھی ہوئی گھٹی سے دوسرا سرا گذار کر آہستہ آہستہ باہر کی طرف چلتے گئے اور بڑے احتیاط سے مگر مچھ کے منہ سے لاٹھی بھی نکال لی ۔

جب مگر مچھ نے محسوس کیا کہ کوئی اجنبی چیز اس کے جسم سے لگی ہوئی ہے تو اس نے پیچھے کی طرف کھینچنا شروع کیا، جسے وہ پیچھے کھینچنے لگا تو رسی اس کے جسم کو مضبوطی سے پکڑتی گئی پھر اچانک آگے کی طرف خیر محمد کی طرف لپکا لیکن کیونکہ اندر اندر میرا ہاتھ، اس لیے صرف حرکات ہی سے کچھ محسوس کیا جا سکتا تھا۔ تاہم اتنے میں خیر محمد باہر آچکے تھے اور رسی کے دوسرے سرے کو کمر سے کھول کر وہاں موجود پیلو کے درخت میں سخت مضبوطی سے باندھ کر خود کچھ فاصلے پر دور کھڑے ہو گئے۔

کچھ دیر بعد مگر مچھ بھی باہر آگیا ، اور زمین پر ادھر ادھر بھاگنے لگا، لیکن پھر آخر کار تھک کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔ خیر محمد نے اپنی لوہے کی تیز دھار والی لاٹھی سے اس کے مغز پر چوٹ دے ماری، یوں وہ کچھ دیر بعد اختتام زندگی کی طرف چل پڑا ۔ مگر مچھ کے سینے والے حصے پر موجودکھال کا ٹکڑا اتار لیا ، جسے وہ بیچتے تھے۔ اس خیر محمد کو کئی بار مگر مچھوں کی لمبے نوکیلے دانتوں کا شکار ہونا پڑا اور میڈیکل اینتھراپالوجی کی بنیاد پر وہاں پرندوں کی بیٹھوں سے لے کر پودوں کے پتوں تک اپنے زخموں کی پٹیاں کرتے اور کئی دن اکیلے اکیلے ٹیلے پر پڑے رہتے۔ ان کے پائوں اور ٹانگوں پر زخموں کے کئی نشانات موجود ہوتے تھے۔ جو ان کی سخت محنت کی علامت بھی تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جب جنرل ضیاء الحق نے ملک میں طویل مارشل لا لگایا تو سندھ میں اس کے رد عمل میں ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوئی، اس تحریک میں شامل ہونیوالوں کو جیلوں میں بند کیا گیا، کوڑے برسائے گئے، دربدرکر دیا گیا، تو وقتی طور پر یہ تحریک ماند پڑ گئی لیکن اس کے ردعمل میں سندھ میں ڈاکو فیکٹر وجود میں آیا اور دریائے سندھ میں کچے کا علاقہ ان ڈاکوئوں کا مرکز تھا۔ کہتے ہیں کہ پہلا ڈاکو بھی کسی سرکاری ادارے کا بھگوڑا تھا، پھر یہ سلسلہ چلتا گیا ۔

سوال یہ تھا کہ کیا یہ بھگوڑا خود ڈاکو بنا، یا اس کے پیچھے بھی اس وقت کے خفیہ ہاتھ تھے؟ یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے۔ اس ڈاکو عنصر نے مکھی پر بھی اپنے اثرات چھوڑے اور سندھ کی ایک پیرانی گدی کے معتقد ٹویو بھنبھرو ، جو بھٹو صاحب کے سخت حریف تھے،وہ خیرپور کے ریتیلے ٹیلوں کے سلسلے نارا سے نمودار ہو کر مکھی چلا آیا، ڈاکو ٹویو بھنبھرو نے اپنے پیر کے مریدوں کے علاوہ کسی کو بھی نہیں چھوڑا لیکن ساتھ میں بھٹو دشمنی میں کئی غیر مذہب حر کتیں بھی کیں۔

جب لوگ مچھلی یا آبی پرندوں کا شکار کرنے جاتے تو ان سے رقم ،گھڑیاں، آٹا وغیرہ بندوق کے زور پر چھینتا۔ لیکن جس کے بھی سر کے بالوں کے قلم لمبے ہوتے پہلے اس پر گالیوں کی بوچھاڑ کرتا اور پھر اپنے ساتھیوں کو کہتا کہ بلیڈ سے ایسے شخص کے قلم کاٹے جائیں، کیوںکہ ایسے لمبے قلم بھٹو رکھتے تھے، کئی لوگوں کو اس غیر اخلاقی حرکت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسا ہی ایک واقعہ ایک شکار کرنیوالے ٹولے کو پیش آیا یہ کوئی 1985-86 کی بات ہے ۔ شکار کرنیوالوں میں ایک سوبھو خان بھی تھے۔پہلے باری باری ان شکاریوں کے بال کاٹے گئے لیکن جب سوبھو خان کی باری آئی تو اس نے ڈاکو ٹویو بھنبھرو کے سامنے سینہ تان لیا اور ڈاکو ٹویو کو کہا کہ مجھے گولی مارنی ہے تو ماردو لیکن خبردارمجھے گالی نہ دینا نہ ہی میرے سر کے بالوں کے قریب آنا، ورنہ معاملہ خراب ہو سکتا ہے۔

اس پر ٹویو بھنبھرو تھوڑے دیر سوچنے میں لگ گئے اور پھر اپنے اونٹ پر چڑھ کر کسی اور طرف روانہ ہو گئے دوسرے لوگ سوچنے لگے کہ اب اللہ خیر کرے سوبھو خان کا لیکن پھر کبھی بھی اس ڈاکو نے اس واقعے کے بعد ایسی حرکت نہ کی۔ سوبھو خان کی جرات وہمت نے آئندہ ایسی حرکت کے تمام راستے بندکردیے ۔ جب کسی نے بعد میں جاکر ٹویو بھنبھرو سے پوچھا تو اس کا جواب ان پرانے سندھی سماج کی روایت کا عکاس تھا کہ '' مرد، مرد کے برابر ہوتا ہے، اور جو مرد دلیر ہو، اس کی ہم قدر کرتے ہیں، چاہے وہ ہمارا دشمن کیوں نہ ہو۔ سوبھو خان وہ واحد آدمی تھا جس نے جرات کی، ورنہ سب بھیڑیں تھیں ، مجھے کوئی مرد کا بچہ نظر نہ آیا۔''

یہ صرف چند واقعات بیان کیے ہیں اگر موقع ملا تو اس تاریخی علاقے کے مزید واقعات پڑھنے والوں سے شیئر کروں گا۔ جس میں ان کے لیے دلچسپی کا سامان بھی موجود ہوگا تو اس ملک کے ایک سرسبز ماحولیاتی طور پر شاہکار خطے کے کئی رنگ موجود ہوں گے جو ہماری نظر انداز کی ہوئی مقامی تاریخ، ثقافت،ماحولیات، روایات وغیرہ کی نمائندگی کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں