ہیم ٹیکسٹائل نمائش سے پاکستان کو لاکھوں ڈالر کے آرڈرز ملنے کا امکان
ہیم ٹیکس نمائش میں یورپین خریدار پاکستانی برآمدکنندگان سے توانائی بحران سے متعلق بھی استفسار کررہے ہیں۔
QUETTA:
ہیم ٹیکسٹائل بین الاقوامی نمائش کے دوسرے دن پاکستانی پویلین یورپین ممالک کی خریداروں کی توجہ کا مرکز بن گیا جس کے نتیجے میں پاکستانی ہوم ٹیکسٹائل کیلیے لاکھوں ڈالر کے نئے برآمدی معاہدوں کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
نمائش گاہ کے ہال نمبر10.0، ہال 10.1 اور ہال نمبر10.2 میں قائم پاکستانی نمائش کنندگان کے اسٹالوں میں ٹاولز، باتھ روبز، بیڈ شیٹس ودیگر ٹاولز پروڈکٹس اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے یورپین خریداروں کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ نمائش کنندہ ذکا اللہ ڈوگر نے بتایا کہ انہوں نے اپنی موثر مارکیٹنگ پلان کے تحت ہیم ٹیکس نمائش کے پہلے دن ہی متعدد نئے خریداروں سے ہوم ٹیکسٹائل پروڈکٹس کے متعدد معاہدوں پر رضامندی حاصل کرلی تھی اور وہ پرامید ہیں کہ نمائش کے آخری دن تک پاکستانی ہوم ٹیکسائل مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو جرمنی، برطانیہ، فرانس، امریکا، اٹلی، اسپین، یونان، آسٹریلیا کے خریداروں سے لاکھوں ڈالر مالیت کے نئے برآمدی معاہدے حاصل ہوجائیں گے۔
ہیم ٹیکس نمائش میں یورپین خریدار پاکستانی برآمدکنندگان سے توانائی بحران سے متعلق بھی استفسار کررہے ہیں لیکن پاکستانی ایکسپورٹرز کی جانب سے توانائی کے حصول کے متبادل سسٹم پر پیداواری عمل جاری رکھنے اور مقررہ مدت میں معاہدوں کی تکمیل کی یقین دہانی کرانے پر یورپین خریداروں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
ہیم ٹیکسٹائل میں شریک نمائش کنندگان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدکنندگان توانائی کے بحران اور امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے یورپی یونین کی جی ایس پی پلس اسٹیٹس سے مکمل استفادہ نہیں کرپارہے ہیں، پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایکسپورٹرزقدرتی گیس کی سہولت سے محروم ہیں جبکہ کراچی کی برآمدی صنعتوں کوآج کل پانی کے بحران کا سامنا ہے۔ میسے فرینکفرٹ کے تحت منعقدہ ہیم ٹیکسٹائل میں پاکستان سے 219کمپنیوں نے اسٹال لگائے اور دنیا بھر سے 68ممالک شریک ہیں۔
پاکستانی ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت نے پاکستان کو جی ایس پی پلس ملنے کے بعد اپنے ایکسپورٹرز کو مزید ری بیٹ دے دیا ہے ، دوسری جانب یوروکی قدر بھی مسلسل گر رہی ہے، ایسے میں اگر ہمیں توانائی بحران اور امن وامان کا مسئلہ درپیش نہ ہو تو ہماری مصنوعات دنیا کا باآسانی مقابلہ کر سکتی ہیں۔ جی ایس پی پلس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس کا انھیں فائدہ پہنچا ہے، پاکستان کو 1سال میں 1ارب ڈالر کا فائدہ پہنچنے کی امید ہے۔
ہیم ٹیکسٹائل بین الاقوامی نمائش کے دوسرے دن پاکستانی پویلین یورپین ممالک کی خریداروں کی توجہ کا مرکز بن گیا جس کے نتیجے میں پاکستانی ہوم ٹیکسٹائل کیلیے لاکھوں ڈالر کے نئے برآمدی معاہدوں کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
نمائش گاہ کے ہال نمبر10.0، ہال 10.1 اور ہال نمبر10.2 میں قائم پاکستانی نمائش کنندگان کے اسٹالوں میں ٹاولز، باتھ روبز، بیڈ شیٹس ودیگر ٹاولز پروڈکٹس اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے یورپین خریداروں کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ نمائش کنندہ ذکا اللہ ڈوگر نے بتایا کہ انہوں نے اپنی موثر مارکیٹنگ پلان کے تحت ہیم ٹیکس نمائش کے پہلے دن ہی متعدد نئے خریداروں سے ہوم ٹیکسٹائل پروڈکٹس کے متعدد معاہدوں پر رضامندی حاصل کرلی تھی اور وہ پرامید ہیں کہ نمائش کے آخری دن تک پاکستانی ہوم ٹیکسائل مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو جرمنی، برطانیہ، فرانس، امریکا، اٹلی، اسپین، یونان، آسٹریلیا کے خریداروں سے لاکھوں ڈالر مالیت کے نئے برآمدی معاہدے حاصل ہوجائیں گے۔
ہیم ٹیکس نمائش میں یورپین خریدار پاکستانی برآمدکنندگان سے توانائی بحران سے متعلق بھی استفسار کررہے ہیں لیکن پاکستانی ایکسپورٹرز کی جانب سے توانائی کے حصول کے متبادل سسٹم پر پیداواری عمل جاری رکھنے اور مقررہ مدت میں معاہدوں کی تکمیل کی یقین دہانی کرانے پر یورپین خریداروں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
ہیم ٹیکسٹائل میں شریک نمائش کنندگان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدکنندگان توانائی کے بحران اور امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے یورپی یونین کی جی ایس پی پلس اسٹیٹس سے مکمل استفادہ نہیں کرپارہے ہیں، پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایکسپورٹرزقدرتی گیس کی سہولت سے محروم ہیں جبکہ کراچی کی برآمدی صنعتوں کوآج کل پانی کے بحران کا سامنا ہے۔ میسے فرینکفرٹ کے تحت منعقدہ ہیم ٹیکسٹائل میں پاکستان سے 219کمپنیوں نے اسٹال لگائے اور دنیا بھر سے 68ممالک شریک ہیں۔
پاکستانی ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت نے پاکستان کو جی ایس پی پلس ملنے کے بعد اپنے ایکسپورٹرز کو مزید ری بیٹ دے دیا ہے ، دوسری جانب یوروکی قدر بھی مسلسل گر رہی ہے، ایسے میں اگر ہمیں توانائی بحران اور امن وامان کا مسئلہ درپیش نہ ہو تو ہماری مصنوعات دنیا کا باآسانی مقابلہ کر سکتی ہیں۔ جی ایس پی پلس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس کا انھیں فائدہ پہنچا ہے، پاکستان کو 1سال میں 1ارب ڈالر کا فائدہ پہنچنے کی امید ہے۔