بھیڑیں اور کالی بھیڑیں
’بھیڑوں (عوام) کی ایک بھیڑ کا اپنے لیے نئے بھیڑیے منتخب کرنے کا نام الیکشن ہے
لاہور:
بھیڑیں تو دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں لیکن ہمارے یہاں ایک قسم کالی بھیڑوں کی بھی ہے جو ملک کے سیاہ و سفید کی مالک ہیں۔
ویسے ہمارے عوام کی حالت بھی محض بھیڑ بکریوں کی سی تو ہے جو محض وعدوں، دعوئوں، خوش کن نعروں اور تابناک مستقبل کے سبز باغ دیکھتے ہوئے رہزنوں کو رہبر منتخب کرتے ہیں اور پھر اس کا خمیازہ بھگتنے کے باوجود وہی عمل بار بار دہراتے ہیں۔ کسی نے ہمارے انتخابی عمل کی بہت خوبصورت اور جامع تشریح یوں کی ہے کہ ''بھیڑوں (عوام) کی ایک بھیڑ کا اپنے لیے نئے بھیڑیے منتخب کرنے کا نام الیکشن ہے۔''
اس ماہ کے اوائل میں آسٹریلین بھیڑوں کا اسکینڈل سامنے آیا ہے جس کی تفصیلات یہ ہیں کہ ارباب اختیار نے آسٹریلیا سے درآمد شدہ 21 ہزار بھیڑوں کو بیماریوں کا شکار اور اس کے گوشت کو انسانی صحت کے لیے مضر قرار دے کر اپنی تحویل میں لے لیا اور فوری طور پر ان کی ہلاکتوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ اور 5 ہزار کے قریب بھیڑیں موت کے گھاٹ اتار دی گئیں۔ یہ بھیڑیں ''پی کے میٹ'' کے مالک طارق محمود بٹ نے 11 لاکھ ڈالرز میں خریدی تھیں، جن کا گوشت برآمد کیا جانا تھا۔ سندھ پولٹری حکام کے مطابق 80 بھیڑوں کے خون کے اور 9 بھیڑوں کے منہ کے نمونے لائیو اسٹاک ڈپارٹمنٹ کی لیبارٹریز سے ٹیسٹ کرائے گئے تھے جن کی رپورٹ مثبت آئی تھی۔ حکام کے مطابق بھیڑوں میں پائی جانے والی بیماری دوسرے جانوروں میں بھی منتقل ہو سکتی ہے۔
اس سنسنی خیز اور دلچسپ بین الاقوامی خبر پر آسٹریلیا کی حکومت اور بھیڑیں فروخت کرنے والی کمپنی ''ویلارڈ'' فوری حرکت میں آئے اور اس کمپنی کے ایم ڈی اسٹیفن میورلڈ پاکستان آ کر تمام معاملات کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ تمام بھیڑیں صحت مند ہیں، کسی بیماری کا شکار نہیں ہیں اور وہ کسی بھی عالمی معیار کی لیبارٹری سے ان کا معائنہ کرانے کے لیے تیار ہیں۔ اطلاعات کے مطابق درآمد کنندہ کے خلاف کسٹمز اور لائیو اسٹاک ایکٹ کے تحت محکمے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے ایف آئی آر بھی درج کرا دی ہے۔
درآمد کنندہ نے بھی بھیڑوں کو صحت مند اور بیماریوں سے پاک قرار دیتے ہوئے اسے اپنے خلاف ایک سازش قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی بین الاقوامی سطح پر تصدیق شدہ لیبارٹری نے ان بھیڑوں کو صحت مند قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اچانک بھیڑیں تلف کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اس عمل سے ان کی کمپنی کی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ برآمد کنندہ کی درخواست پر عدالت عالیہ سندھ نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ درخواست گزار کو تنگ نہ کیا جائے۔ بنچ نے ابتدائی طور پر درآمد کی گئی بھیڑوں کے ٹیسٹ اور طبی معائنے کے لیے سیکریٹری لائیو اسٹاک، ڈائو میڈیکل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد خانانی اور دیگر متعلقہ شعبوں کے سربراہوں اور آسٹریلین ماہرین کو شامل کر کے بھیڑوں کے سیمپل لے کر معائنہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ڈاکٹر رفیق خانانی کا موقف تھا کہ بھیڑوں کی بیماری دوسرے جانوروں کو نہیں لگ سکتی۔
اسلام آباد کے پیتھالوجسٹ ڈاکٹر زاہد بھٹہ نے بھی ان کے اس موقف کی تائید کی تھی، لیکن ڈاکٹر خانانی کو لائیو اسٹاک کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس کا عدالت نے سخت نوٹس لیا اور بیانات بدلنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سندھ حکومت کے ڈائریکٹر لائیو اسٹاک کی سرزنش کی اور کہا کہ آپ کو اس قومی نوعیت کے معاملے کی سنجیدگی کا احساس نہیں ہے۔ عدالت نے معاونت کے لیے وائس چانسلر آغا خان یونیورسٹی، ڈائریکٹر جنرل تحفظ ماحولیات، پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ اور مائیکرو بیالوجسٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم امتناعی میں مزید توسیع کر دی ہے۔
قرائن ظاہر کرتے ہیں کہ آسٹریلین بھیڑوں کا معاملہ وہ نہیں ہے جو نظر آ رہا ہے۔ اس میں کالی بھیڑوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ بیمار بھیڑوں کے اس معاملے میں بہت سے سوالات جواب طلب ہیں، مثلاً یہ کہ اگر یہ بھیڑیں بیمار تھیں اور بحرین نے انھیں لینے سے انکار کر دیا تھا تو یہ پاکستان کیسے پہنچ گئیں؟ پاکستان پہنچ گئیں تو انھیں کسٹم سے کیسے کلیئر کردیا گیا؟ ان بھیڑوں کے ٹیسٹ کس شکایت یا شبہے میں کرائے گئے؟ کرائے گئے تو مستند لیبارٹریز سے کیوں نہیں کرائے گئے؟ کیا ماضی میں بھی اسی قسم کے ٹیسٹ ہوتے تھے یا کوالٹی کنٹرول کا اتنا موثر نظام رہا ہے؟
پھر اتلاف کے دوران انسانی جانوں کے لیے مہلک قرار دی جانے والی 1500بھیڑیں جو حکومتِ سندھ کی تحویل میں تھیں غائب کیسے ہوگئیں؟ غائب ہونے والی بھیڑیں ارباب اختیار کے دستر خوانوں کی زینت بنیں یا شہر کے ہوٹلوں میں کھلا دی گئیں؟ سب سے بڑی بات یہ کہ اتنی بڑی تعداد میں بھیڑوں کی ہلاکت کا کیا قانونی، اخلاقی اور اسلامی جواز تھا؟ اس کی مجاز اتھارٹی کون تھی، اس کی منظوری کس سے لی گئی اور کیا اس کو اس بات کا اختیار تھا؟ اس کام میں اتنی عجلت کہ ہنگامی بنیادوں پر شہر بھر سے قصائیوں کو ٹرکوں میں بھر بھر کر لایا گیا۔ بڑے بڑے 15 فٹ گہرے گڑھے کھودنے کے لیے بلڈوزر اور ہیوی مشینوں کا بندوبست کیا گیا۔ ان اخراجات کی ادائیگی فنڈ یا بجٹ سے کیونکر اور کس کی منظوری سے کی گئی؟
حقیقت یہ ہے کہ شہروں کی مارکیٹوں میں بیمار، بوڑھے، نوزائیدہ اور مردہ جانوروں اور گدھے تک کا گوشت کھلے عام فروخت ہو رہا ہے۔ پانی بھرا گوشت جسے پریشر گوشت بھی کہا جاتا ہے کھلے عام فروخت ہو رہا ہے۔ اس لیے محتاط شہری دکانوں پر سامنے ذبح کیے جانے والے جانوروں کا گوشت زاید قیمت پر خریدنے پر مجبور ہیں۔ صحیح گوشت بیچنے والے قصاب معاشی مصائب کا شکار ہیں اور اس قسم کی دھندے بازیوں میں شامل ہونے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ معائنہ ٹیمیں اور ڈاکٹرز جانوروں کے داخلی راستوں کی چیک پوسٹیں بھی بے اثر ہیں۔
50 روپے فیس اور رشوت کے عوض ہیلتھ سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت شہر میں نوّے فیصد پانی بھرا گوشت فروخت ہو رہا ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک گائے میں ایک سے ڈیڑھ من پانی داخل کر دیا جاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ایسے گوشت کے استعمال سے یورک ایسڈ بڑھ جاتا ہے، S.Cretinex پیدا ہوتا ہے جو گردے کی بیماریوں، جوڑوں کے درد، سانس کی تکلیف اور جنسی کمزوریوں کا سبب بنتا ہے، فالج کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مٹھائیوں میں ڈٹرجنٹ سوپ اور دودھ میں میلامائن پائوڈر کی ملاوٹ بھی کھلے عام جاری ہے، حالانکہ دنیا بھر میں میلامائن کے برتنوں کے استعمال کو بھی مضر صحت قرار دے کر ترک کر دیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ میلامائن ملے دودھ کے استعمال سے سینے کے امراض اور کینسر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ عوام کی صحت و تحفظ کے ذمے دار تمام ادارے پولیس اور سیاسی عناصر اس قسم کے کاروبار میں براہِ راست ملوث ہیں۔ جب تک ان محکموں سے کالی بھیڑوں کا صفایا نہیں کیا جاتا کسی بہتری کی امید عبث ہے۔ آتشزدگی کے حالیہ واقعات اور آسٹریلین بھیڑوں جیسے معاملے میں ملوث کالی بھیڑوں کو اگر کیفرِ کردار تک پہنچا کر نشانِ عبرت نہ بنایا گیا تو اس کے نتیجے میں ملک میں رشوت کے نرخ اور قانون شکنی کا رجحان بڑھتا جائے گا۔ فیصلہ ارباب اقتدار و اختیار کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس ملک کے عوام کو کیا مستقبل دینا چاہتے ہیں۔