تاریخ کا جھروکا انگریزی انصاف کا حال
پھوٹ کی وجہ سے ہی انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا اور جس روز انگریزوں میں پھوٹ ہو گی تو بس باقی رہے نام اللہ کا
QUETTA:
عدالت یا بیگار کیمپ؟ عدالت سے کوتوال شہر کے نام پروانہ جاری ہوا کہ سات سو چھکڑے بیگار میں پکڑ کر میگزین (اسلحہ خانہ) میں پہنچائے جائیں۔ (27 ما رچ 1849ء)
ایجنٹ بہادر جگا ٹیکس دلوائے ہے۔ محمد علی خاں اور محمود علی خاں لوہا ماجرا والوں نے ایک عرضی ایجنٹ بہادر کی معرفت لندن کے بادشاہ کو بھیجی ہے کہ ہم کو چھ سو روپے ماہوار تنخواہ مذکورہ دیہات کی آمدنی سے ملتی تھی مگر اس تنخواہ کی رقم سے دو سو روپے ماہوار بغیر کسی دعویٰ کے رنجیت خاں لے لیتا ہے۔ اس واسطے ہم امیدوار ہیں کہ صاحب ایجنٹ دہلی کو حکم دیا جائے کہ وہ آیندہ دو سو روپے رنجیت خاں کو نہ دیا کریں۔
مجسٹریٹ کی ''غریب ماری'' مسٹر کالون مجسٹریٹ دہلی نے شہر کے سب چوکیداروں کو حکم دیا کہ اپنی وردی خود تیار کرو۔ وردی میں سرخ پگڑی، سیاہ انگرکھا اور زرد پائجامہ ہونا چاہیے۔ وردی تیار ہونے کے بعد ملاحظے میں پیش کرنا ضروری ہے۔ چوکیداروں نے عرضی دی کہ تین روپے کی تنخواہ میں خشک روٹی ملنی مشکل ہے، وردی کس طرح تیار کی جا سکتی ہے؟ مگر چوکیداروں کا یہ عذر قبول نہیں کیا گیا۔ (5 جون 1849ء)
(اگلے ماہ کی خبر) تھانہ فیض بازار کے چوکیداروں نے ایجنٹ آفس میں عرضی دی کہ کالون صاحب کلکٹر و مجسٹریٹ نے ہم کو وردی بنانے کا حکم دیا تھا اور تاکید کی تھی کہ جلد از جلد وردی کا سرخ صافہ، سیاہ انگرکھا اور زرد پائجامہ تیار کر لو ورنہ ایک ماہ کی تنخواہ جرمانہ ہو گی۔ حسب الحکم ہم نے وردی تیار کرا لی۔ اب مجسٹریٹ صاحب نے سرکار کی طرف سے وردی تیار کرا دی اور فی کس ڈھائی روپے وردی کی قیمت کا مطالبہ ہم سے کیا۔ فدویان پر یہ ظلم ہے، دوبارہ وردی کی قیمت طلب کرنی سراسر نا انصافی ہے۔ صاحب ایجنٹ نے حکم دیا کہ کلکٹر صاحب سے ہی عرض کیا جائے۔ (13 جولائی 1849ء)
جنوبی افریقہ کے سفید فام باشندوں کا پس منظر:
حکومت انگلستان نے طے کیا تھا کہ آیندہ انگلینڈ کے مجرموں کو کیپ (جنوبی افریقہ) میں رکھا جائے گا مگر کیپ کے باشندوں نے کہا کہ انگلینڈ کے مجرم اگر یہاں رکھے جائیں گے تو اس ملک کے باشندوں کے اخلاق پر برا اثر پڑے گا، ہمارے ملک میں مجرموں کو نہ بھیجا جائے۔
(اگلے ماہ کی خبر) اخلاقی ملزموں کے دو جہاز انگستان سے کیپ کے ساحل پر پہنچے۔ سب ملزم جلا وطنی کے سزا یاب تھے۔ کیپ والوں نے ملزموں کو اپنے ملک میں نہیں اترنے دیا اور صاف کہہ دیا کہ ان لوگوں کی سکونت سے ہمارے ملک والوں پر برا اخلاقی اثر پڑے گا۔ مجبوراً دونوں جہاز واپس چلے گئے۔ (14 ستمبر 1849ء)
سکھوں کی دوسری لڑائی:
قید ملے تو ایسی ملے۔ چتر سنگھ کا لڑکا گلاب سنگھ لاہور کے جیل خانے میں قید ہے۔ ایک روز لاہور کے ریزیڈنٹ، گلاب سنگھ کے پاس خیر خبر دریافت کرنے گئے۔ گلاب سنگھ نے کہا کہ آپ میرا حال کیا پوچھتے ہیں؟ پہلے میری خدمت کے لیے سولہ آدمی مقرر تھے، اب صرف دس باقی ہیں۔ ریزیڈنٹ نے کہا کہ آپ کو بدستور سولہ آدمی ہی ملیں گے۔ (16 جنوری 1849ء)
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، آندھی کا رخ مار گیا۔ سکھوں کی شکستوں کا سبب یہ ہوا کہ لڑائی کے وقت سکھ جوش میں ضرور تھے مگر آندھی چل رہی تھی۔ آندھی کا رخ سکھوں کی طرف تھا اور انگریزی فوج کی پشت آندھی کی جانب تھی۔ سکھوں کا زور ہوا کی تیزی سے ٹوٹ گیا اور انگریزی فوج کی فتح ہو گئی۔ (6 مارچ 1849ء)
ایک معافی نہیں ہو سکتی، باقی سب منظور۔ پنجاب سے خبریں آئی ہیں کہ لڑائی ہار جانے کے بعد اب سکھوں کی طرف سے صلح کے پیغام آ رہے ہیں اور سکھ معافی مانگ رہے ہیں۔ انگریزوں کی طرف سے جواب دیا جا رہا ہے کہ انگریزی سرکار کسی سے بلا وجہ لڑنا نہیں چاہتی، نہ خوں ریزی چاہتی ہے، نہ بلا وجہ کسی کو قید کرنا چاہتی ہے۔ اگر سکھ صلح چاہتے ہیں تو وہ انگریزی سرکار کی وفاداری اور پوری اطاعت کا عہد کریں اور اپنے حمایتی افغانوں کو افغانستان واپس بھیج دیں۔ اس صورت میں سکھوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، البتہ سلطان محمد خاں کو معافی نہیں دی جائے گی کیونکہ اس نے میجر لارنس کو دشمن کے حوالے کر دیا تھا۔ (13 مارچ 1849ء)
دلچسپ:
آس لگی اور ٹوٹ گئی۔ ملتان میں مسجد کالے کے پاس دفینہ ہونے کا پتہ کچھ آدمیوں نے دیا تھا، کھدوانے کے بعد خالی تھیلیاں برآمد ہوئیں۔ (12 جنوری 1849ء)
گورروں کو نہانے کی اجازت مل گئی۔ پشاور میں میجر لارنس نے سخت گرمی کی وجہ سے پلٹن کے گوروں کو غسل کرنے کی اجازت دے دی۔ (26 جون 1846ء)
تنخواہ وصول کرنے کا ''مجرب'' نسخہ۔ لکھنؤ سے اطلاع ملی کہ تنخواہ نہ ملنے وجہ سے تخمیناً دو ہزار فیل بانوں، سار بانوں اور بہلی والوں نے جمع ہو کر راستے میں نواب علی نقی خاں مختار عام کو گھیر کر لاٹھیوں سے مارا، پتھر مارے اور گالیاں دیں۔ دوسرے روز نواب مذکور نے سب کی تنخواہ تقسیم کر دی۔ (6 مارچ 1849ء)
چل میرے تحفے اگلے گھر۔ راجہ بلب گڑھ کے نمایندے نے راجہ کی طرف سے کیوڑے کے پانچ پھول پیش کیے، صاحب نے ڈاکٹر راس کی لڑکی کو بھیج دیے۔
تین کھونٹ کے بعد چار کھونٹ۔ قلعہ غزنی کے فتح کرنے والے جوانوں کو ملکہ معظمہ کی طرف سے چاندی کے تمغے دیے گئے تھے۔ ہر تمغہ کا چہرہ شاہی روپے کی طرح تھا لیکن وزن تین تولے تھا۔ ایک ظریف نے بڑے مزے کی بات کہی کہ اب تک چونکہ انگریزوں کی عمل داری ہندوستان کے تین اطراف میں ہے اس لیے تمغے کا وزن تین تولے رکھا گیا ہے، جب چار کھونٹ ہو جائے گی تو تمغے کا وزن چار تولے ہو گا۔ (21 اگست 1849ء)
پھوٹ کے پھل میں پھوٹ ہی کے خواص۔ ایک درباری نے عرض کیا کہ پھوٹ (خربوزے کی طرح کا ایک پھل) ہندوستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں نہیں ہوتی۔ پھوٹ کی وجہ سے ہی انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا اور جس روز انگریزوں میں پھوٹ ہو گی تو بس باقی رہے نام اللہ کا۔ (23 فروری 1849ء)
(ضیاء الدین لاہوری کی کتاب''بہادر شاہ ظفر کے شب و روز''سے اقتباس)