بیڈ ٹائمنگ

ویسے خدا بخت جگائے لیکن ابھی تک ریحام خان عمران کے لئے کچھ زیادہ خوش بخت ثابت نہیں ہوئی ہیں۔

ویسے خدا بخت جگائے لیکن ابھی تک ریحام خان عمران کے لئے کچھ زیادہ خوش بخت ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان دنیائے کرکٹ کے بے تاج بادشاہ تھے جن کی رائٹ ٹائمنگ بہت مشہور تھی۔ 92 کے ورلڈکپ میں تیسرے نمبر پر کوئی بیٹسمن اسکور کرکے نہیں دے رہا تھا، اس موقع پر عمران نے رائٹ ٹائم پر خود کو تیسرے نمبر پہ کھلایا اور اپنی اسی رائٹ ٹائمنگ کی بدولت پاکستان کو فتح سے ہمکنار کرایا۔ پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں عمران خان سے اچھی ٹائمنگ بہت ہی کم دیکھنے کو ملی ہے۔



فوٹو؛ فائل

لیکن وقت نے ثابت کیا کہ دنیائے کرکٹ کا گڈ ٹائمر(Good Timer) سیاسی میدان کا بیڈ ٹائمر (Bad Timer) ثابت ہوا۔ سیاست کے میدان میں عمران کی ٹائمنگ ہمیشہ ہی غلط ٹہری۔ 2003-2002 کے عام انتخابات میں پی ایم شپ کی آس ہو یا 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ، ان کی ٹائمنگ ہمیشہ ہی غلط رہی۔ نہ وہ وقت پی ایم شپ کی آس کا تھا اور نہ انتخابات کے بائیکاٹ کا۔



فوٹو؛ فائل

اسی طرح 2013 کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا اور اس کے لئے سوا سال کے بعد احتجاجی دھرنے کی ٹائمنگ بھی غلط ثابت ہوئی۔



فوٹو؛ فائل


اور تو اور رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی ٹائمنگ بھی غلط ہی ٹہری۔ آپ کے شہر میں بچوں کی شہادت کا ابھی چہلم بھی نہ ہوپایا، ابھی قبر کے پھول سوکھ بھی نہ پائے کہ اس صوبے کی حکمران جماعت کے سربراہ نے اپنے سر پر سہرے کے پھول سجالئے۔ اس صورت حال میں ان کی ٹائمنگ کو غلط نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے۔



فوٹو؛ فائل

عمران خان اپنی اسی غلط ٹائمنگ کی روایت کو جاری و ساری رکھتے ہوئے آرمی پبلک اسکول پہنچ گئے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ''گو عمران گو'' کے نعرے لگے اور جواباً خان صاحب معصومانہ سوال کرتے پائے گئے کہ یہ احتجاج میرے خلاف کیوں ہورہا ہے؟ میں ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہوں، صوبے کے وزیراعلی تو پرویزخٹک ہیں اور اسکول آرمی کا ہے۔ اب اس سب میں میرا رول بتایا جائے کہ میرے خلاف احتجاج کیوں؟

کتنی عجیب سی بات ہے کہ 4 ماہ لگاتار حکومت کے خلاف احتجاج کرتے، سول نافرمانی کرتے عمران خان اپنے سامنے آرمی پبلک اسکول کے معصوم شہداء کے لواحقین کے احتجاج کو سننے کی تاب نہ رکھ پائے۔ خان صاحب کے معصوم سوال پر کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ جیسے خان صاحب کی سمجھ نہ آیا کہ احتجاج کس بات کا ہے، اسی طرح مظاہرین کی سمجھ نہ آیا کہ شادی کس بات کی۔ بڑی واضح سی بات ہے کہ اس پورے واقعے کی ذمہ داری اخلاقی طور پر عمران خان کو اس لئے لینی چاہیئے کہ وہ خیبر پختونخواہ کی حکمران جماعت کے سربراہ ہیں، اور سربراہ ہی ہر چیز کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ خود خان صاحب بستر علالت سے کنٹینر تک تمام واقعات کی ذمہ داری حکمرانوں و قاعدین پر ڈالتے رہے ہیں۔ اب اگر بحیثیت سربراہ حکمران جماعت بھی وہ اپنی ذمہ داری نہ لیں گے تو پھر انہیں حکمران کہلانے کا بھی کوئی حق نہیں۔



فوٹو؛ فائل

فرانس میں 12 ہلاکتیں ہوئیں تو ان کے وزیراعظم نے اپنے سیکیورٹی و انتظامی ناکامی کو تسلیم کرلیا۔ لیکن ہمارے حکمران بتائیں کہ اتنا بڑا سانحہ ہوگیا کسی حکومت نے غلطی تسلیم کی؟ غلطی تسلیم کرنا تو دور کی بات سیکورٹی کی ذمہ دار شخصیات میں سے کسی کو معطل کیا؟ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ فیلیئر پولیس، سی آئی اے ،سی آئی ڈی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کا بھی تھا۔ اب تو یہ بات سچ لگنے لگی ہے کہ تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آچکی ہے کیونکہ اب ہر حکمران کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔

ویسے خدا بخت جگائے لیکن ابھی تک ریحام خان عمران کے لئے کچھ زیادہ خوش بخت ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story