جرم مذہب کا نہیں انسان کا ہے

جب ہم کہتے ہیں کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے تو اسکا مطلب نہیں کہ اِدھر رہنےوالے ہربندے کیلیے’’مسلمان‘‘ ہونا ضروری ہے۔

ہرمذہب اور نظریہ اپنے اندراچھائی کاعنصر رکھتا ہے یہ انسان ہوتا ہے جو برا کام کرتا ہے اس لیے میری تمام دانشوروں کالم نگاروں سے اپیل ہے کہ قوم کو نظریات پہ کنفیوز کرنے کی بجائے اصل مسائل پر توجہ دیں۔ فوٹو: فائل

یہ بحث دوبارہ سے سراٹھارہی ہے کہ کیا واقعی ریاست کا کوئی مذہب ہونا چاہیئے یا نہیں؟ کہا جاتا ہے کہ قریب بارہویں صدی میں رومن کتھولک چرچ نے انصاف کا ایک ایسا نظام بنایا ہوا تھا جسے ''انکوزی ایشن'' کہا جاتا ہے جس کا مقصد عیسائیت کے بنیادی نظریات سے اختلاف رکھنے والوں کو کڑی سزائیں دینا تھا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ پادریوں کے ظلم و ستم اور ناانصافی کا ہتھیارتھا۔

اُسوقت پادری کسی پر بھی مذہب سے بغاوت کا کوئی الزام لگا کراسے کڑی سے کڑی سزا دے سکتے تھے۔ انکوزی ایشن ایسی خوفناک سزاوں پر مشتمل نظامِ انصاف تھا کہ جس کے تصور سے ہی بدن میں جھر جھری آجاتی ہے۔ لیکن پھر بغاوت ہوئی اورمغرب نے انتہا پسند پادریوں اور نام نہاد عیسائی مبلغین کے جرائم سے تنگ آکر مذہب اور ریاست کو الگ کردیا جبکہ مغرب کو یہ کام کرنے میں کئی صدیاں لگ گئیں۔

یہ بات انسانی تاریخ کا حصہ رہی ہے کہ مغلوب قومیں ہمیشہ طاقتور قوموں کی نقل کرنے کی کوشش کرتی ہیں جب مغرب کی دیکھا دیکھی دنیا کی بہت سی قومیں ریاست اور مذہب کو جدا جدا کررہیں تھیں۔ عین اُسی وقت برصغیر ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کا اِس قدر جینا دوبھر کرچکے تھے کہ مسلمان مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کے بٹوارے پر مجبور ہوگئے۔ اُسوقت ایک انگریزی لباس پہننے والا مسلمان چٹان بن کر انگریز اور ہندو کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم ایک تجربہ کریں گے چونکہ اسلام بہترین ضابطہ حیات ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب چند مذہبی رسومات سے آگے انسان کی رہنمائی نہیں کرتا لیکن اسلام ہمیں پانی پینے سے لیکر تجارت کرنے تک اور پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک ہر کام کے اصول و ضوابط فراہم کرتا ہے لہذا ہم اسلام کے نام پر ایک ملک بنائیں گے۔

اُسوقت کے بڑے بڑے سیاسی ماہرین کا خیال تھا کہ اول تو پاکستان بن نہیں سکے گا اور اگر بن بھی گیا تو یہ ملک چند سال سے زیادہ چل نہیں سکے گا۔ لیکن پاکستان نہ صرف بنا بلکہ ایسا چلا کہ دنیا حیران رہ گئی ۔ تجارت سے لے کر کھیل کے میدانوں تک پاکستانی جھنڈے کی کامیابیاں نظر آنے لگیں۔ پاکستان کا بطور اسلامی ریاست ترقی کرنا ان مغربی حلقوں کے لیے خاصا تشویشناک تھا جنہوں نے صدیوں کی قربانیاں دے کر اپنے ممالک میں عیسائیت کو چرچ تک محدود کیا تھا۔


لہذا عالمی میڈیا پر ''انکوزی ایشن'' کی طرز پر ایسے مسلمان نمودار ہوئے جن کے بارے میں تو کبھی تاریخ میں پڑھا تھا اورنہ کبھی حقیقت میں دیکھا تھا۔ یہ مسلمان چہروں سے کرخت ہاتھوں میں چھریاں لیے دنیا کے مختلف خطوں میں مسلم وغیرمسلم کی تفریق کے بغیر گلے کاٹتے نظرآتے۔ ابھی حال ہی میں گستاخانہ خاکے چھاپنے والے اخبار کے دفتر پر حملہ ہوا اگرچہ اس بارحملہ آور پاکستان سے نہیں تھے لیکن اس حملے کا فائدہ کسے ہوا؟ یقینی طور پریہ سوچنے کی بات ہے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب بھی پاکستان میں کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے تو ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ نادر تھیوری پیش کردیتا ہے کہ چونکہ پاکستان کے نام کے ساتھ لفظ ''اسلامی'' لکھا ہے اسی لیے یہ سب کچھ ہورہا ہے اگر یہ لفظ ''سیکولر'' کردیا جائے تو راتوں رات سب ٹھیک ہوجائے گا۔انکا کہنا ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو ان سے سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں ہوتا؟ جب ریاست کی ایک قومی زبان ہوسکتی ہے، جب نسل رنگ اور جغرافیائی حدود کی بنا پر ملک بن سکتا ہے تو مذہب کے نام پر بھی ملک بھی بن سکتا ہے ۔

اِدھرکنفیوژن ہے جو ہمارے اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں سمجھ پاتے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ اِدھر رہنے والے ہر بندے کے لیے ''مسلمان'' ہونا ضروری ہے بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ اِدھر اسلامی قوانین کا اطلاق کیا جائے گا ۔ لیکن یہاں موجود عیسائی، ہندو یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو آزادی ہے کہ اپنے مذہب پر عمل کرسکتا ہے بلکہ اُن کو اسلامی قوانین تحفظ فراہم کریں گے۔

ویسے یہاں تمام دانشور حضرات سے اپیل ہے کہ جب بھی کوئی دہشتگردی کا واقعہ رونما ہو تو اُسے اسلام کے ساتھ جوڑ کر یہ کہنا مت شروع کردیا کریں کہ چونکہ پاکستان کے ساتھ لفظ ''اسلامی'' لگا ہوا اس لیے یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ بھارت میں جب بھی کوئی ہندو چوری کرتا پکڑا جائے یا کسی خاتون کا ریپ کردے تو کہا جائے کہ چونکہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے لہذا اس لیے یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ ہرمذہب اور نظریہ اپنے اندراچھائی کاعنصر رکھتا ہے یہ انسان ہوتا ہے جو برا کام کرتا ہے اس لیے میری تمام دانشوروں کالم نگاروں سے اپیل ہے کہ قوم کو نظریات پہ کنفیوز کرنے کی بجائے اصل مسائل پر توجہ دیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story