گاما۔ رستم زماں حکیم محمد سعید شہید کی ایک یادگار تحریر
گاما ہماری ایک بہت بڑی شخصیت کا نام ہے اور ان کا اصل نام غلام محمد تھا
GILGIT:
گاما ہماری ایک بہت بڑی شخصیت کا نام ہے۔ نام تو غلام محمد تھا، مگر مشہور ہوئے گاما جی کے نام سے۔
11 ستمبر 1910ء کے اخبار ''ٹائمز'' لندن میں گاما سے زبسکو کی کشتی کا حال لکا ہے۔ زبسکو بھی اپنے وقت کا بہت طاقت ور انسان تھا۔ وہ پہلی بار ریاست پٹیالہ میں گاما سے ہار چکا تھا۔ بڑے معرکے کی کشتی تھی۔ ہندوستان کا وائسرائے بھی اس کشتی میں شریک ہوا تھا۔ گاما کی اس فتح کے بعد بڑی شہرت ہوئی۔ پھر لفظ گاما تو ہماری عام بول چال میں آگیا۔ گاما کے معنی طاقت ور انسان ہوگئے۔ لندن میں جب گاما اور زبسکو اکھاڑے (ایرینا) میں اترے تو دونوں زبردست طاقت کے مالک تھے۔ دو پہاڑ تھے جو ٹکرانے والے تھے۔
بڑی خلقت جمع تھی۔ لندن کے اخبارات خبروں سے بھرے پڑے تھے۔ بھئی ہوا یہ کہ جب گاما اور زبسکو آمنے سامنے آئے، گاما نے یا علی کا نعرہ لگایا۔ خلقت نے یہ دیکھا کہ ان دونوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے۔ شیک ہینڈ ہوا۔ دوسرے لمحے گاما نے بھاری بھرکم جن کو ہوا میں دس بارہ فیٹ اچھال دیا اور پھر دیکھا تو زبسکو چاروں خانے چت اور گاما اس کے سینے پر سوار۔ نعرہ لگایا: اللہ اکبر!
نونہالو! میں نے زبسکو کو خط لکھا۔ مجھے زبسکو نے جو جواب دیا اس میں لکھا کہ ''گاما بڑا انسان ہے۔ دنیا کا سب سے طاقت ور آدمی ہے۔ تعریف کے لیے میرے پاس موزوں الفاظ نہیں ہیں۔'' اس کے بعد گاما نے رستم زماں کا لقب پایا۔ جب تک وہ زندہ رہے، رستم زماں رہے۔
اب کہانی شروع ہوتی ہے۔ میں جب تین سال کا تھا تو حویلی رضیہ بیگم میں قرآن حکیم پڑھنے کے لیے ایک استانی جی کے ہاں بٹھا دیا گیا۔ وہ جگت چچی جان تھیں۔ اس محلے میں ایک اکھاڑا تھا۔ میں صبح و شام دیکھتا تھا۔ پہلوان یہاں ورزش کرتے تھے۔ ڈنٹر پیلتے تھے۔ بیٹھکیاں لگاتے تھے۔ چکنی مٹی کا اکھاڑا تھا۔ اسے تیل پلایا جاتا تھا! مجھے بڑا مزہ آتا تھا۔ میری عمر چھے سال کی ابھی نہیں ہوئی تھی کہ میں نے قرآن شریف ناظرہ ختم کرلیا۔ چچا جان (حولدار رحیم بخش) نے گاڑی بان والی اونچی مسجد میں حفظ قرآن کے لیے مدرسے میں داخل کردیا۔ حافظ سید عمر دراز علی صاحب نے قرآن شریف حفظ کرانا شروع کردیا۔ خیر راستہ وہی تھا۔ اکھاڑے کی طرف سے روز ہی گزر ہوتا۔ مجھے پہلوان بننے کا شوق ہوگیا۔
مجھے پہلوانوں کا انداز پسند تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ پہلوانوں کی بڑی عزت تھی۔ گاما جی نے اس فن کو آسمان پر پہنچا رکھا تھا۔ گاما جی سے بھی مجھے خوب دل چسپی تھی۔ سات سال کی عمر تھی کہ میں حج بیت اللہ کو چلا گیا۔ بھئی کیا مزے دار سفر تھا۔ اس سفر حج کا ایک ایک لمحہ آج بھی یاد ہے۔ ذرا نونہال غور کریں۔ آج کل حال یہ ہے کہ جدہ اور مکۂ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہوائی جہاز میں بس 30,25 منٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ سڑکیں لاجواب ہیں، موٹر کار تین ساڑھے تین گھنٹے میں پہنچا دیتی ہے۔ 1927ء میں مکے سے مدینے میں سترہ دن میں پہنچا تھا۔ اس زمانے میں سفر اونٹوں پر ہوتا تھا۔ اونٹ رات بھر چلتے تھے ان کو کسی سائے میں پڑاؤ کرنا پڑتا تھا۔
خیر بھئی نو سال کا ہوا تو میں نے قرآن شریف حفظ کرلیا۔ بڑی خوشیاں منائی گئیں۔ بڑی شان در تقریب ہوئی۔ تیرہ سال کی عمر میں تراویح میں پورا قرآن فرفر سنا دیا۔ بس تین غلطیاں ہوئیں۔ بڑی شان دار رات تھی۔ تانبے کی تشتریوں میں بالو شاہی تقسیم ہوئی۔ خلقت ٹوٹی پڑتی تھی۔ کئی لوگ تو مسجد حوض قاضی کے حوض میں گرگئے۔
ورزش کا شوق مجھے بھی ایک دن اکھاڑے میں لے گیا۔ استاد نے کہا '' صبح آکر بھاوڑے سے اکھاڑا کھودا کرو!'' یہ بڑا مشکل کام تھا۔ اکھاڑے کی چکنی تیل دار مٹی بڑے بڑے موٹے موٹے پہلوانوں کی لڑنت سے بس جم ہی جایا کرتی تھی۔ صبح اسے نرم کرنے کے لیے کھودنا پڑتا تھا۔ پہلوانی کا پہلا سبق یہاں سے شروع ہوا۔ پھر ڈنٹر پیلنے سکھائے گئے۔ بیٹھکیاں لگانی شروع کیں۔ یہ اکھاڑا زیادہ مشہور نہیں تھا۔ استاد ماہ رخ بیگ کا بڑا شہرہ تھا۔ ان کے اکھاڑے میں بھی لڑنت کا موقع ملا۔ ان دنوں دلی میں دنگل خوب ہوا کرتے تھے۔ ہزارہا شوقین جمعہ کو دنگلوں میں جاتے۔ بڑی بڑی کُشتیاں ہوتیں۔ میں بھی دنگل جاتا اور پھر ایک بار دنگل میں ایک کشتی بھی لڑ ڈالی جو برابر چھٹی۔
پتا چلا اور بات شہر شہر پھیل گئی کہ منگل سنگھ پہلوان نے رسم زماں گاما کو چیلنج کیا ہے۔ منگل سنگھ بڑے کلے جبڑے کا پہلوان تھا۔ لگتا تھا کہ کیکر سنگھ کا شاگرد ہے۔ کیکر ایک درخت کا نام ہے جس کی مسواک بڑی اچھی ہوتی ہے۔ ایک دن ایک پہلوان آیا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، کیکر کے درخت کا تنا پکڑا اور درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ نام کیکر سنگھ پڑگیا۔
تو بھئی گاما نے منگل سنگھ کو مسکرا کر جواب دیا ''ذرا پہلے میرے بھانجے حمیدہ سے دو دو ہاتھ کرلو۔ پھر میرے بھائی امام بخش سے لڑنا۔ اس کے بعد مجھ سے بات کرنا۔'' منگل سنگھ تو بڑے زور میں تھا۔ اس نے سوچا کہ حمیدہ کو تو میں پیس کر رکھ دوں گا۔ ہاتھ مل گئے۔ معاملہ طے ہوگیا۔ کشتی دہلی میں طے پائی۔
تاریخ تو مجھے یاد نہیں، یہ کشتی دہلی میں ہوئی، لیکن گاما دہلی نہیں آئے، نہ امام بخش آئے۔ ہاں رحیم سلطانی اسی خاندان کے نامی گرامی بزرگ پہلوان تھے۔ وہ گاما خاندان کی نمائندگی کررہے تھے۔ خیر جناب، اکھاڑے میں دونوں پہلوان اترے۔ پہلے منگل سنگھ اترے۔ بڑا ہی سڈول کالا چمکتا ہوا جسم، لمبا تڑنگا انسان، دیکھ کر ڈر لگے۔ اب یا علی کا نعرہ بلند ہوا، دھم سے حمیدہ اکھاڑے میں کودے۔ دیکھا تو بہت چھوٹا قد۔ جسم خوب گٹھا ہوا، مگر منگل سنگھ سے بہت کم۔ مسلمان تو سہم گئے۔
یہ تو شیرو بکری کا مقابلہ تھا۔ دنگل میں ایک بار تو سناٹا ہی چھاگیا! خیر صاحب، دونوں پہلوان آمنے سامنے ہوئے۔ دونوں نے ہاتھ ملائے۔ پلک جھپکی تو حمیدہ پہلوان منگل سنگھ کی پشت پر تھا۔ ابھی پلک ایک اور جھپکی تو دیکھا کہ منگل سنگھ چاروں شانے چت پڑے ہیں اور حمیدہ ان کے سینے پر سوار ہے۔ دونوں ہاتھ بلند: نعرۂ تکبیر اللہ اکبر سے سارا دنگل گونج اٹھا۔
اس ناکامی کے بعد منگل سنگھ نے گاما خاندان کو کبھی چیلنج نہیں کیا۔ ہاں پھر گاما جی دہلی آئے۔ یہاں ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا: ''میں آپ سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں۔'' وہ مسکرائے اور بڑے پیار سے 11 سال کے سعید سے کہا:
''نہ میاں کیوں میری عزت کے پیچھے پڑے ہو۔ میں ہارنا نہیں چاہتا۔''
بات آئی گئی ہوئی۔ میرا ورزش کا شوق قائم رہا۔ میں اکھاڑے جاتا رہا۔ اکھاڑا کھودتا رہا۔ لڑنت کرتا رہا۔ پہلوان بن گیا، مگر مشہور نہ ہوا۔ میں کیسے پہلوان بنتا۔ ماسٹر ممتاز حسین مجھے حساب پڑھانے آگئے۔ پھر ماسٹر اقبال حسین نے انگریزی، اردو کے لیے مجھے گھیر لیا۔ پھر دیکھا تو عربی و فارسی کے لیے مولانا قاضی سجاد حسین سر پر سوار ہوگئے۔ ان استادوں نے ہوش ٹھکانے کردیئے۔ میں نے ان استادوں کو کئی پہلوانی داؤں پر رکھا، مگر یہ بچ بچ گئے۔ ایک بار تو میں نے دھوبی پاٹ مارا، مگر یہ تڑی دے گئے۔ آخر میں نے شکست مان لی۔ پہلوانی چھوڑ دی، مگر گاما جی سے کبھی سال چھے مہینے میں ملاقات ہوجاتی تو میں ان کو چیلنج ضرور کرتا تھا اور وہ ہنس کر سینے سے لگا لیا کرتے تھے۔
سال پر سال گزرتے چلے گئے۔ گاما جی گوشہ نشین ہوگئے۔ امام بخش بھی ان کے ساتھ مصری شاہ (لاہور) میں خانہ نشین ہوگئے۔ حمیدہ کو دشمنوں نے جالندھر میں زہر دے دیا اور مستقبل کا رستم زماں یوں ختم ہوگیا۔ پاکستان بن گیا۔ میں یہاں آگیا۔ اب میں حکیم بن چکا تھا۔ ایک صبح دیکھا کہ گاما جی آرہے ہیں! میں ان کو دیکھ کر کھڑا ہوگیا اور ادب سے ان کے سامنے جھک گیا۔ انہوں نے بڑے پیار سے میری پیٹھ کو تھپتھپایا۔ سرپر دست شفقت پھیرا۔ وہ بہ حیثیت مرض آئے تھے۔
میں نے ان کے لیے دواؤں کا انتظام کیا۔ وہ لاہور چلے گئے۔ سال سوا سال بعد معلوم ہوا کہ استاد زیادہ علیل ہیں۔ میں مصری شاہ گیا۔ محترمہ بیگم گاما نے بڑی محبت سے بٹھایا۔ میں گاما جی کے سرہانے بیٹھ گیا اور دیر تک بیٹھا رہا۔ وہ گاما جس نے زبسکو کو فیٹوں ہوا میں اچھال دیا تھا، بڑھاپے اور علالت کی وجہ سے وہ ایک مکھی کو نہ اڑاسکتے تھے۔ ایک دور تھا کہ گاما کی یومیہ خوراک دو سیر بادام، دس سیر دودھ اور پندرہ سیر گوشت کی یخنی تھی۔ وہ دو تین ہزار ڈنٹر روز پیلتے تھے۔ ہزاروں بیٹھکیاں لگاتے تھے۔ آج میں نے دیکھا کہ دودھ کی ایک پیالی ان کے سامنے رکھی تھی اور اسے پینے کو ان کا دل نہیں چاہتا تھا۔
آخر گاما جی کا آخری وقت آگیا۔ دنیا کا سب سے طاقت ور انسان موت سے شکست کھاگیا۔ ان کا جنازہ اٹھا تو لاہور شہر آنسوؤں سے تر ہوگیا۔ ریڈیو پاکستان نے ان کے جنازے پر رننگ کمٹنری نشر کی۔ ادیب الملک نواب خواجہ محمد شفیع صاحب کمنٹیٹر تھے۔ خواجہ صاحب نے لوگوں کو رلا دیا۔ پھر میری درخواست پر خواجہ محمد شفیع صاحب نے ''گاما'' نام کی ایک کتاب لکھی جسے میں نے اپنے استاد رستم زماں گاما کے احترام میں شائع کیا۔ گاما زندہ باد!
گاما ہماری ایک بہت بڑی شخصیت کا نام ہے۔ نام تو غلام محمد تھا، مگر مشہور ہوئے گاما جی کے نام سے۔
11 ستمبر 1910ء کے اخبار ''ٹائمز'' لندن میں گاما سے زبسکو کی کشتی کا حال لکا ہے۔ زبسکو بھی اپنے وقت کا بہت طاقت ور انسان تھا۔ وہ پہلی بار ریاست پٹیالہ میں گاما سے ہار چکا تھا۔ بڑے معرکے کی کشتی تھی۔ ہندوستان کا وائسرائے بھی اس کشتی میں شریک ہوا تھا۔ گاما کی اس فتح کے بعد بڑی شہرت ہوئی۔ پھر لفظ گاما تو ہماری عام بول چال میں آگیا۔ گاما کے معنی طاقت ور انسان ہوگئے۔ لندن میں جب گاما اور زبسکو اکھاڑے (ایرینا) میں اترے تو دونوں زبردست طاقت کے مالک تھے۔ دو پہاڑ تھے جو ٹکرانے والے تھے۔
بڑی خلقت جمع تھی۔ لندن کے اخبارات خبروں سے بھرے پڑے تھے۔ بھئی ہوا یہ کہ جب گاما اور زبسکو آمنے سامنے آئے، گاما نے یا علی کا نعرہ لگایا۔ خلقت نے یہ دیکھا کہ ان دونوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے۔ شیک ہینڈ ہوا۔ دوسرے لمحے گاما نے بھاری بھرکم جن کو ہوا میں دس بارہ فیٹ اچھال دیا اور پھر دیکھا تو زبسکو چاروں خانے چت اور گاما اس کے سینے پر سوار۔ نعرہ لگایا: اللہ اکبر!
نونہالو! میں نے زبسکو کو خط لکھا۔ مجھے زبسکو نے جو جواب دیا اس میں لکھا کہ ''گاما بڑا انسان ہے۔ دنیا کا سب سے طاقت ور آدمی ہے۔ تعریف کے لیے میرے پاس موزوں الفاظ نہیں ہیں۔'' اس کے بعد گاما نے رستم زماں کا لقب پایا۔ جب تک وہ زندہ رہے، رستم زماں رہے۔
اب کہانی شروع ہوتی ہے۔ میں جب تین سال کا تھا تو حویلی رضیہ بیگم میں قرآن حکیم پڑھنے کے لیے ایک استانی جی کے ہاں بٹھا دیا گیا۔ وہ جگت چچی جان تھیں۔ اس محلے میں ایک اکھاڑا تھا۔ میں صبح و شام دیکھتا تھا۔ پہلوان یہاں ورزش کرتے تھے۔ ڈنٹر پیلتے تھے۔ بیٹھکیاں لگاتے تھے۔ چکنی مٹی کا اکھاڑا تھا۔ اسے تیل پلایا جاتا تھا! مجھے بڑا مزہ آتا تھا۔ میری عمر چھے سال کی ابھی نہیں ہوئی تھی کہ میں نے قرآن شریف ناظرہ ختم کرلیا۔ چچا جان (حولدار رحیم بخش) نے گاڑی بان والی اونچی مسجد میں حفظ قرآن کے لیے مدرسے میں داخل کردیا۔ حافظ سید عمر دراز علی صاحب نے قرآن شریف حفظ کرانا شروع کردیا۔ خیر راستہ وہی تھا۔ اکھاڑے کی طرف سے روز ہی گزر ہوتا۔ مجھے پہلوان بننے کا شوق ہوگیا۔
مجھے پہلوانوں کا انداز پسند تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ پہلوانوں کی بڑی عزت تھی۔ گاما جی نے اس فن کو آسمان پر پہنچا رکھا تھا۔ گاما جی سے بھی مجھے خوب دل چسپی تھی۔ سات سال کی عمر تھی کہ میں حج بیت اللہ کو چلا گیا۔ بھئی کیا مزے دار سفر تھا۔ اس سفر حج کا ایک ایک لمحہ آج بھی یاد ہے۔ ذرا نونہال غور کریں۔ آج کل حال یہ ہے کہ جدہ اور مکۂ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہوائی جہاز میں بس 30,25 منٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ سڑکیں لاجواب ہیں، موٹر کار تین ساڑھے تین گھنٹے میں پہنچا دیتی ہے۔ 1927ء میں مکے سے مدینے میں سترہ دن میں پہنچا تھا۔ اس زمانے میں سفر اونٹوں پر ہوتا تھا۔ اونٹ رات بھر چلتے تھے ان کو کسی سائے میں پڑاؤ کرنا پڑتا تھا۔
خیر بھئی نو سال کا ہوا تو میں نے قرآن شریف حفظ کرلیا۔ بڑی خوشیاں منائی گئیں۔ بڑی شان در تقریب ہوئی۔ تیرہ سال کی عمر میں تراویح میں پورا قرآن فرفر سنا دیا۔ بس تین غلطیاں ہوئیں۔ بڑی شان دار رات تھی۔ تانبے کی تشتریوں میں بالو شاہی تقسیم ہوئی۔ خلقت ٹوٹی پڑتی تھی۔ کئی لوگ تو مسجد حوض قاضی کے حوض میں گرگئے۔
ورزش کا شوق مجھے بھی ایک دن اکھاڑے میں لے گیا۔ استاد نے کہا '' صبح آکر بھاوڑے سے اکھاڑا کھودا کرو!'' یہ بڑا مشکل کام تھا۔ اکھاڑے کی چکنی تیل دار مٹی بڑے بڑے موٹے موٹے پہلوانوں کی لڑنت سے بس جم ہی جایا کرتی تھی۔ صبح اسے نرم کرنے کے لیے کھودنا پڑتا تھا۔ پہلوانی کا پہلا سبق یہاں سے شروع ہوا۔ پھر ڈنٹر پیلنے سکھائے گئے۔ بیٹھکیاں لگانی شروع کیں۔ یہ اکھاڑا زیادہ مشہور نہیں تھا۔ استاد ماہ رخ بیگ کا بڑا شہرہ تھا۔ ان کے اکھاڑے میں بھی لڑنت کا موقع ملا۔ ان دنوں دلی میں دنگل خوب ہوا کرتے تھے۔ ہزارہا شوقین جمعہ کو دنگلوں میں جاتے۔ بڑی بڑی کُشتیاں ہوتیں۔ میں بھی دنگل جاتا اور پھر ایک بار دنگل میں ایک کشتی بھی لڑ ڈالی جو برابر چھٹی۔
پتا چلا اور بات شہر شہر پھیل گئی کہ منگل سنگھ پہلوان نے رسم زماں گاما کو چیلنج کیا ہے۔ منگل سنگھ بڑے کلے جبڑے کا پہلوان تھا۔ لگتا تھا کہ کیکر سنگھ کا شاگرد ہے۔ کیکر ایک درخت کا نام ہے جس کی مسواک بڑی اچھی ہوتی ہے۔ ایک دن ایک پہلوان آیا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، کیکر کے درخت کا تنا پکڑا اور درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ نام کیکر سنگھ پڑگیا۔
تو بھئی گاما نے منگل سنگھ کو مسکرا کر جواب دیا ''ذرا پہلے میرے بھانجے حمیدہ سے دو دو ہاتھ کرلو۔ پھر میرے بھائی امام بخش سے لڑنا۔ اس کے بعد مجھ سے بات کرنا۔'' منگل سنگھ تو بڑے زور میں تھا۔ اس نے سوچا کہ حمیدہ کو تو میں پیس کر رکھ دوں گا۔ ہاتھ مل گئے۔ معاملہ طے ہوگیا۔ کشتی دہلی میں طے پائی۔
تاریخ تو مجھے یاد نہیں، یہ کشتی دہلی میں ہوئی، لیکن گاما دہلی نہیں آئے، نہ امام بخش آئے۔ ہاں رحیم سلطانی اسی خاندان کے نامی گرامی بزرگ پہلوان تھے۔ وہ گاما خاندان کی نمائندگی کررہے تھے۔ خیر جناب، اکھاڑے میں دونوں پہلوان اترے۔ پہلے منگل سنگھ اترے۔ بڑا ہی سڈول کالا چمکتا ہوا جسم، لمبا تڑنگا انسان، دیکھ کر ڈر لگے۔ اب یا علی کا نعرہ بلند ہوا، دھم سے حمیدہ اکھاڑے میں کودے۔ دیکھا تو بہت چھوٹا قد۔ جسم خوب گٹھا ہوا، مگر منگل سنگھ سے بہت کم۔ مسلمان تو سہم گئے۔
یہ تو شیرو بکری کا مقابلہ تھا۔ دنگل میں ایک بار تو سناٹا ہی چھاگیا! خیر صاحب، دونوں پہلوان آمنے سامنے ہوئے۔ دونوں نے ہاتھ ملائے۔ پلک جھپکی تو حمیدہ پہلوان منگل سنگھ کی پشت پر تھا۔ ابھی پلک ایک اور جھپکی تو دیکھا کہ منگل سنگھ چاروں شانے چت پڑے ہیں اور حمیدہ ان کے سینے پر سوار ہے۔ دونوں ہاتھ بلند: نعرۂ تکبیر اللہ اکبر سے سارا دنگل گونج اٹھا۔
اس ناکامی کے بعد منگل سنگھ نے گاما خاندان کو کبھی چیلنج نہیں کیا۔ ہاں پھر گاما جی دہلی آئے۔ یہاں ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا: ''میں آپ سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں۔'' وہ مسکرائے اور بڑے پیار سے 11 سال کے سعید سے کہا:
''نہ میاں کیوں میری عزت کے پیچھے پڑے ہو۔ میں ہارنا نہیں چاہتا۔''
بات آئی گئی ہوئی۔ میرا ورزش کا شوق قائم رہا۔ میں اکھاڑے جاتا رہا۔ اکھاڑا کھودتا رہا۔ لڑنت کرتا رہا۔ پہلوان بن گیا، مگر مشہور نہ ہوا۔ میں کیسے پہلوان بنتا۔ ماسٹر ممتاز حسین مجھے حساب پڑھانے آگئے۔ پھر ماسٹر اقبال حسین نے انگریزی، اردو کے لیے مجھے گھیر لیا۔ پھر دیکھا تو عربی و فارسی کے لیے مولانا قاضی سجاد حسین سر پر سوار ہوگئے۔ ان استادوں نے ہوش ٹھکانے کردیئے۔ میں نے ان استادوں کو کئی پہلوانی داؤں پر رکھا، مگر یہ بچ بچ گئے۔ ایک بار تو میں نے دھوبی پاٹ مارا، مگر یہ تڑی دے گئے۔ آخر میں نے شکست مان لی۔ پہلوانی چھوڑ دی، مگر گاما جی سے کبھی سال چھے مہینے میں ملاقات ہوجاتی تو میں ان کو چیلنج ضرور کرتا تھا اور وہ ہنس کر سینے سے لگا لیا کرتے تھے۔
سال پر سال گزرتے چلے گئے۔ گاما جی گوشہ نشین ہوگئے۔ امام بخش بھی ان کے ساتھ مصری شاہ (لاہور) میں خانہ نشین ہوگئے۔ حمیدہ کو دشمنوں نے جالندھر میں زہر دے دیا اور مستقبل کا رستم زماں یوں ختم ہوگیا۔ پاکستان بن گیا۔ میں یہاں آگیا۔ اب میں حکیم بن چکا تھا۔ ایک صبح دیکھا کہ گاما جی آرہے ہیں! میں ان کو دیکھ کر کھڑا ہوگیا اور ادب سے ان کے سامنے جھک گیا۔ انہوں نے بڑے پیار سے میری پیٹھ کو تھپتھپایا۔ سرپر دست شفقت پھیرا۔ وہ بہ حیثیت مرض آئے تھے۔
میں نے ان کے لیے دواؤں کا انتظام کیا۔ وہ لاہور چلے گئے۔ سال سوا سال بعد معلوم ہوا کہ استاد زیادہ علیل ہیں۔ میں مصری شاہ گیا۔ محترمہ بیگم گاما نے بڑی محبت سے بٹھایا۔ میں گاما جی کے سرہانے بیٹھ گیا اور دیر تک بیٹھا رہا۔ وہ گاما جس نے زبسکو کو فیٹوں ہوا میں اچھال دیا تھا، بڑھاپے اور علالت کی وجہ سے وہ ایک مکھی کو نہ اڑاسکتے تھے۔ ایک دور تھا کہ گاما کی یومیہ خوراک دو سیر بادام، دس سیر دودھ اور پندرہ سیر گوشت کی یخنی تھی۔ وہ دو تین ہزار ڈنٹر روز پیلتے تھے۔ ہزاروں بیٹھکیاں لگاتے تھے۔ آج میں نے دیکھا کہ دودھ کی ایک پیالی ان کے سامنے رکھی تھی اور اسے پینے کو ان کا دل نہیں چاہتا تھا۔
آخر گاما جی کا آخری وقت آگیا۔ دنیا کا سب سے طاقت ور انسان موت سے شکست کھاگیا۔ ان کا جنازہ اٹھا تو لاہور شہر آنسوؤں سے تر ہوگیا۔ ریڈیو پاکستان نے ان کے جنازے پر رننگ کمٹنری نشر کی۔ ادیب الملک نواب خواجہ محمد شفیع صاحب کمنٹیٹر تھے۔ خواجہ صاحب نے لوگوں کو رلا دیا۔ پھر میری درخواست پر خواجہ محمد شفیع صاحب نے ''گاما'' نام کی ایک کتاب لکھی جسے میں نے اپنے استاد رستم زماں گاما کے احترام میں شائع کیا۔ گاما زندہ باد!