دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مسائل
آپریشن ضرب عضب میں فوج کو بڑی کامیابیاں ملی ہیں اور اس نے دہشت گردوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تباہ کر دیا ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جمعرات کو لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے، پاکستانی حکومت اور فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری رہے گا، پاکستان جلد تمام مسائل پر قابو پا لے گا، حالیہ واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد کس حد تک جا سکتے ہیں، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت مل کر کام کر رہی ہے، فوجی عدالتیں عوام کی مرضی سے قائم کی گئی ہیں، دہشت گردی ایک بیماری ہے جس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔
پاکستان داخلی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑ رہا ہے، آپریشن ضرب عضب میں فوج کو بڑی کامیابیاں ملی ہیں اور اس نے دہشت گردوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تباہ کر دیا ہے مگر ملک بھر میں دہشت گردی کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں بلکہ وہ اپنی قوت کے ساتھ بدستور موجود ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف ملک بھر میں آپریشن کیا جائے گا۔ یہ اطلاعات منظر عام پر آ چکی ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں موجود دہشت گردوں کے مابین آپس میں رابطے موجود ہیں اور کسی بھی کارروائی کے لیے وہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔
لہذا اس نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے حکومت کو تمام سیکیورٹی اداروں اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر منظم کر کے بھرپور آپریشن کرنا ہو گا۔ امن کا دشمن دہشت گرد بے چہرہ ہے اور اس کے ٹھکانے بھی واضح نہیں اس لیے یہ جنگ جیتنے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد جس طرح سیاسی اور عسکری قیادت نے متحد ہو کر اس عفریت سے نجات پانے کے عزم کا اظہار کیا ہے اس سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ جلد ہی اس مسئلے پر قابو پا لیا جائے گا۔ دریں اثنا ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے لندن میں تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن ضرب عضب میں اب تک 2 ہزار دہشت گرد ہلاک اور 200 فوجی جوان شہید ہو چکے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ دہشت گردوں کی فنڈنگ ختم کرنے کے لیے عالمی حمایت بہت ضروری ہے۔
ان کے معاشی وسائل اور فنڈنگ کے ذرائع ختم کرنا ہوں گے، کراچی ایئر پورٹ پر حملہ وہ فیصلہ کن موڑ تھا جس کے بعد آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا گیا۔ مبصرین کے مطابق دہشت گردوں کو نہ صرف اندرون ملک میں موجود ان کے ہمدردوں کی طرف سے فنڈنگ اور حمایت کا سلسلہ جاری ہے بلکہ بیرون ممالک سے بھی بعض قوتیں انھیں معاشی وسائل فراہم کر رہی ہیں، جب تک اس سلسلے کو ختم نہیں کیا جاتا دہشت گردوں کو اپنی کارروائیوں کے لیے قوت ملتی رہے گی۔ پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر نبرد آزما دیکھ کر بھارت کی انتہا پسند حکومت نے پاکستان کے لیے سرحدوں پر مسائل پیدا کرنے شروع کر دیے ہیں۔ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بھی اس مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی جانب سے سرحدوں کی مسلسل خلاف ورزیاں پاکستان اور خطے میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔
حیران کن امر ہے کہ بھارت ایک جانب دہشت گردی کا واویلا مچاتا ہے اور جب پاکستان دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہا ہے تو اس میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے سرحدوں پر شرانگیزیاں شروع کر دیتا ہے۔ عالمی طاقتیں بھی اس مسئلے پر دہرا معیار اپناتے ہوئے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں وہ پاکستان پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ تو ڈالتی ہیں مگر بھارت کی بلا اشتعال کارروائیاں روکنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرتیں۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کے لیے ہمیشہ پہل کی مگر اس نے دوستانہ فضا پیدا کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا، اس کی اشتعال انگیزیوں کے جواب میں پاکستان نے ہمیشہ تحمل اور بردباری کا ثبوت دیا ہے۔
دریں اثناء سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کے حوالے سے شائع ہونے والے بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زیر التوا مقدمات کی ذمے دار عدالتیں نہیں خود سرکار ہے، عدالت نے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے واضح کیا کہ فوجداری قوانین میں خامیاں اور سقم ہے، حکومت موثر قانون سازی کیوں نہیں کرتی حکومت اپناکام کرتی تو آج مقدمات زیر التوا نہ ہوتے۔ ملزموں کے خلاف شہادتیں اکٹھی کرنا اور چالان مکمل کرنا پولیس کا کام ہے مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیس اپنے یہ فرائض انجام دینے میں کوتاہی برت رہی ہے۔ یہ شکایت کی جاتی ہے کہ پولیس ملزم پکڑتی ہے تو عدالتیں انھیں رہا کر دیتی ہیں جس سے جرائم میں کمی نہیں آ رہی۔
عدالتوں کا کام حقائق کی روشنی میں جمع کروائی گئی شہادتوں کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ کسی بے گناہ کو سزا نہیں دے سکتیں۔ حکومت کو جہاں پولیس کے محکمے کو درست کرنے پر توجہ دینی چاہیے وہاں عدالتوں کے مسائل حل کرنا بھی اس کی ذمے داری ہے۔ ملک کو درپیش دہشت گردی سمیت دیگر مسائل اس وقت ہی حل ہوں گے جب حکومت اور تمام ادارے اپنے فرائض بخوبی انجام دیں گے۔
پاکستان داخلی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑ رہا ہے، آپریشن ضرب عضب میں فوج کو بڑی کامیابیاں ملی ہیں اور اس نے دہشت گردوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تباہ کر دیا ہے مگر ملک بھر میں دہشت گردی کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں بلکہ وہ اپنی قوت کے ساتھ بدستور موجود ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف ملک بھر میں آپریشن کیا جائے گا۔ یہ اطلاعات منظر عام پر آ چکی ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں موجود دہشت گردوں کے مابین آپس میں رابطے موجود ہیں اور کسی بھی کارروائی کے لیے وہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔
لہذا اس نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے حکومت کو تمام سیکیورٹی اداروں اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر منظم کر کے بھرپور آپریشن کرنا ہو گا۔ امن کا دشمن دہشت گرد بے چہرہ ہے اور اس کے ٹھکانے بھی واضح نہیں اس لیے یہ جنگ جیتنے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد جس طرح سیاسی اور عسکری قیادت نے متحد ہو کر اس عفریت سے نجات پانے کے عزم کا اظہار کیا ہے اس سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ جلد ہی اس مسئلے پر قابو پا لیا جائے گا۔ دریں اثنا ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے لندن میں تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن ضرب عضب میں اب تک 2 ہزار دہشت گرد ہلاک اور 200 فوجی جوان شہید ہو چکے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ دہشت گردوں کی فنڈنگ ختم کرنے کے لیے عالمی حمایت بہت ضروری ہے۔
ان کے معاشی وسائل اور فنڈنگ کے ذرائع ختم کرنا ہوں گے، کراچی ایئر پورٹ پر حملہ وہ فیصلہ کن موڑ تھا جس کے بعد آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا گیا۔ مبصرین کے مطابق دہشت گردوں کو نہ صرف اندرون ملک میں موجود ان کے ہمدردوں کی طرف سے فنڈنگ اور حمایت کا سلسلہ جاری ہے بلکہ بیرون ممالک سے بھی بعض قوتیں انھیں معاشی وسائل فراہم کر رہی ہیں، جب تک اس سلسلے کو ختم نہیں کیا جاتا دہشت گردوں کو اپنی کارروائیوں کے لیے قوت ملتی رہے گی۔ پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر نبرد آزما دیکھ کر بھارت کی انتہا پسند حکومت نے پاکستان کے لیے سرحدوں پر مسائل پیدا کرنے شروع کر دیے ہیں۔ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بھی اس مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی جانب سے سرحدوں کی مسلسل خلاف ورزیاں پاکستان اور خطے میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔
حیران کن امر ہے کہ بھارت ایک جانب دہشت گردی کا واویلا مچاتا ہے اور جب پاکستان دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہا ہے تو اس میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے سرحدوں پر شرانگیزیاں شروع کر دیتا ہے۔ عالمی طاقتیں بھی اس مسئلے پر دہرا معیار اپناتے ہوئے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں وہ پاکستان پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ تو ڈالتی ہیں مگر بھارت کی بلا اشتعال کارروائیاں روکنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرتیں۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کے لیے ہمیشہ پہل کی مگر اس نے دوستانہ فضا پیدا کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا، اس کی اشتعال انگیزیوں کے جواب میں پاکستان نے ہمیشہ تحمل اور بردباری کا ثبوت دیا ہے۔
دریں اثناء سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کے حوالے سے شائع ہونے والے بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زیر التوا مقدمات کی ذمے دار عدالتیں نہیں خود سرکار ہے، عدالت نے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے واضح کیا کہ فوجداری قوانین میں خامیاں اور سقم ہے، حکومت موثر قانون سازی کیوں نہیں کرتی حکومت اپناکام کرتی تو آج مقدمات زیر التوا نہ ہوتے۔ ملزموں کے خلاف شہادتیں اکٹھی کرنا اور چالان مکمل کرنا پولیس کا کام ہے مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیس اپنے یہ فرائض انجام دینے میں کوتاہی برت رہی ہے۔ یہ شکایت کی جاتی ہے کہ پولیس ملزم پکڑتی ہے تو عدالتیں انھیں رہا کر دیتی ہیں جس سے جرائم میں کمی نہیں آ رہی۔
عدالتوں کا کام حقائق کی روشنی میں جمع کروائی گئی شہادتوں کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ کسی بے گناہ کو سزا نہیں دے سکتیں۔ حکومت کو جہاں پولیس کے محکمے کو درست کرنے پر توجہ دینی چاہیے وہاں عدالتوں کے مسائل حل کرنا بھی اس کی ذمے داری ہے۔ ملک کو درپیش دہشت گردی سمیت دیگر مسائل اس وقت ہی حل ہوں گے جب حکومت اور تمام ادارے اپنے فرائض بخوبی انجام دیں گے۔