گستاخانہ خاکے…پوپ کی مذمت
کسی بھی مذہب یا عقیدے کا مذاق اڑانا ہر لحاظ سے غلط ہے اس کے حق میں کوئی دلیل صائب نہیں ہو سکتی۔
فرانس کے ایک جریدے میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کے خلاف رد عمل پر اس جریدے کے دفتر پر حملہ ہوا جس میں ہلاکتیں ہوئیں۔ بعد میں حملہ آور بھی مارے گئے، جریدے پر حملے کے خلاف پیرس میں 'ملین مارچ' کے نام سے احتجاجی مارچ کیا گیا۔ اس احتجاجی مارچ میں چالیس کے قریب ملکوں کے سربراہوں نے شرکت کی، ان میں مسلمان ملکوں کے رہنما بھی شامل تھے۔ لیکن فرانسیسی جریدے نے اتنے بڑے سانحے کے بعد دوبارہ توہین آمیز خاکے شائع کر دیے جس کے بعد مسلم ممالک میں بھی احتجاج شروع ہو گیا۔ گزشتہ روز پاکستان میں بھی مظاہرے ہوئے۔
عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''آزادی اظہار'' کی ایک حد ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''میری ماں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے والے کو میرا گھونسا کھانے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے''۔ انھوں نے مزید کہا کہ کسی بھی مذہب یا عقیدے کا مذاق اڑانا ہر لحاظ سے غلط ہے اس کے حق میں کوئی دلیل صائب نہیں ہو سکتی۔ پوپ فرانسس نے، جو سری لنکا کے دورے کے بعد فلپائن کے دارالحکومت منیلا پہنچ گئے ہیں' کہا ہے کہ ''میں نے ہمیشہ آزادی اظہار کے حق کی حمایت کی ہے مگر ایسی آزادی کی لازمی طور پر کچھ حدود ہونی چاہئیں۔ کوئی بھی شخص ایسا کام نہیں کر سکتا جس سے کوئی دوسرا اشتعال میں آ جائے اور نہ ہی دوسروں کے عقاید کا مذاق اڑنا چاہیے یا توہین کرنی چاہیے۔
ادھر ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوگلو نے فرانسیسی جریدے میں دوبارہ شائع ہونے والے خاکوں کی مذمت کرتے ہوئے انھیں ناقابل برداشت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے خلاف ہر سطح پر آواز اٹھائی جائے گی۔ لیکن امریکی صدر اوباما اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ وہ کسی کو بھی آزادی اظہار کے حق کو دبانے کی اجازت نہیں دیں گے اور دہشت گردی کو مل کر شکست دیں گے۔ امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم نے آزادی اظہار کی وکالت کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ ان کے ممالک میں ہولو کاسٹ'' پر شبہ ظاہر کرنے کی قانونی طور پر کیوں پابندی ہے۔
مغربی ممالک کی حکومتوں اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ پوپ فرانسس کی باتوں پر غورکریں اور اظہار رائے کی تعبیر و تشریح پر نظرثانی کریں، مذاہب یا مقدس شخصیات کی توہین کرنا تہذیب و شائستگی کے بھی خلاف ہے اور دنیا کے تسلیم شدہ آئینی و قانونی ضابطے بھی اس کی اجازت نہیں دیتے، لہذا دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر قوم اور مذہب کے پیروکاروں کو ایک دوسرے کے عقائد اور مقدس ہستیوں کا احترام ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''آزادی اظہار'' کی ایک حد ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''میری ماں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے والے کو میرا گھونسا کھانے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے''۔ انھوں نے مزید کہا کہ کسی بھی مذہب یا عقیدے کا مذاق اڑانا ہر لحاظ سے غلط ہے اس کے حق میں کوئی دلیل صائب نہیں ہو سکتی۔ پوپ فرانسس نے، جو سری لنکا کے دورے کے بعد فلپائن کے دارالحکومت منیلا پہنچ گئے ہیں' کہا ہے کہ ''میں نے ہمیشہ آزادی اظہار کے حق کی حمایت کی ہے مگر ایسی آزادی کی لازمی طور پر کچھ حدود ہونی چاہئیں۔ کوئی بھی شخص ایسا کام نہیں کر سکتا جس سے کوئی دوسرا اشتعال میں آ جائے اور نہ ہی دوسروں کے عقاید کا مذاق اڑنا چاہیے یا توہین کرنی چاہیے۔
ادھر ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوگلو نے فرانسیسی جریدے میں دوبارہ شائع ہونے والے خاکوں کی مذمت کرتے ہوئے انھیں ناقابل برداشت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے خلاف ہر سطح پر آواز اٹھائی جائے گی۔ لیکن امریکی صدر اوباما اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ وہ کسی کو بھی آزادی اظہار کے حق کو دبانے کی اجازت نہیں دیں گے اور دہشت گردی کو مل کر شکست دیں گے۔ امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم نے آزادی اظہار کی وکالت کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ ان کے ممالک میں ہولو کاسٹ'' پر شبہ ظاہر کرنے کی قانونی طور پر کیوں پابندی ہے۔
مغربی ممالک کی حکومتوں اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ پوپ فرانسس کی باتوں پر غورکریں اور اظہار رائے کی تعبیر و تشریح پر نظرثانی کریں، مذاہب یا مقدس شخصیات کی توہین کرنا تہذیب و شائستگی کے بھی خلاف ہے اور دنیا کے تسلیم شدہ آئینی و قانونی ضابطے بھی اس کی اجازت نہیں دیتے، لہذا دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر قوم اور مذہب کے پیروکاروں کو ایک دوسرے کے عقائد اور مقدس ہستیوں کا احترام ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔