قومی ایکشن پلان
پاکستان جن خطرناک ترین مسائل میں گھرا ہوا ہے ان میں سرفہرست دہشت گردی ہے۔
لاہور:
جب کسی قوم و ملک کو اپنی بقا اور قوم کے مستقبل کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اس ملک کے عوام، سیاسی جماعتیں اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے چھوٹے اور بڑے تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں۔
پاکستان جن خطرناک ترین مسائل میں گھرا ہوا ہے ان میں سرفہرست دہشت گردی ہے جو مذہبی انتہا پسندی کا ایک خوفناک پروڈکٹ ہے۔ 16/12 کے فوری بعد ایک عشرے سے جاری دہشت گردی کے خلاف جو قومی اتحاد پیدا ہوا وہ وقت کی اور مستقبل دونوں کی ناگزیر ضرورت تھا۔ اور یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ اس اتحاد کی بدولت دہشت گردی کا نہ صرف مقابلہ کیا جائے گا بلکہ اس عفریت کو ختم کرنے میں بھی یہ قومی اتحاد اہم کردار ادا کرے گا۔ لیکن لگ یہ رہا ہے کہ جس اتحاد کا مظاہرہ 16/12 کے بعد کیا گیا تھا اس میں مختلف حوالوں سے دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ ان دراڑوں میں سے ایک دراڑ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے راہ روی ہے۔
کراچی پاکستان کا ایک ایسا شہر ہے جہاں کے اچھے اور برے دونوں حالات کا پورے ملک پر اثر پڑتا ہے۔ کراچی کے عوام کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ سکون اور اطمینان کے نام تک سے محروم ہو گئے ہیں۔ کراچی کے عوام کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے ان میں ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ بھتہ مافیا، اغوا برائے تاوان، اسٹریٹ کرائم وغیرہ شامل ہیں۔ لیاری کی گینگ وار کراچی کے لیے ایک ایسا مسئلہ بن گئی ہے جس کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ اگرچہ اس گینگ وار کے اہم سرپرست یا تو مارے گئے ہیں یا روپوش یا فرار ہیں لیکن لیاری کی گینگ وار کی شدت میں قیادت کی غیر موجودگی کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ ہر روز اس علاقے میں ٹارگٹ کلنگ، گروہوں کی آپس کی لڑائی اور پولیس مقابلوں کا سلسلہ جاری نظر آتا ہے۔
اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اس انارکی کی اصل ذمے داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن متحدہ جیسی سندھ کی دوسری بڑی جماعت کو بھی یہ شکایت پیدا ہو گئی ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کی یہ بدترین صورت حال محض جرائم پیشہ افراد کی وجہ سے نہیں پیدا ہوئی بلکہ اس کی اصل وجہ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا سیاسی استعمال ہے۔ یہ بہت سنگین الزام ہے جس کا حکومت کو تشفی بخش جواب دینا چاہیے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سیاسی استعمال کا الزام کوئی نیا الزام نہیں ہے۔ ہر دور میں یہ الزام لگتا رہا اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کرپشن کے الزامات بھی نئے نہیں ہیں۔
جہاں بھی سرمایہ دارانہ نظام موجود ہو گا وہاں کرپشن قومی جسم میں خون کی طرح دوڑتی نظر آئے گی۔ سو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بے لگام نظر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فرانس میں انقلاب فرانس سے پہلے فرانس کا حکمران جاگیردار طبقہ عدالتی عہدے (ججز) فروخت کرتا تھا۔ ہمارے ملک میں اس روایت کو نوکریاں اور تھانے فروخت کر کے زندہ رکھا جا رہا ہے۔
کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ میں ایک مخصوص فقہ کے لوگ مارے جا رہے ہیں اس حوالے سے متحدہ کو یہ شکایت ہے کہ اس کے کارکنوں کو آئے روز ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ متحدہ کے رہنما اپنے کارکنوں کی لاشوں کے ساتھ سی ایم ہاؤس پر بھی مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ آجکل صوبائی اور قومی اسمبلی میں بھی واک آؤٹ اور احتجاج کے ذریعے اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
متحدہ ایک عرصے تک سندھ حکومت کا حصہ رہی ہے لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ متحدہ اور سندھ حکومت کے درمیان کبھی اعتماد اور دیرینہ اتحاد کا مظاہرہ نہیں ہوا۔ متحدہ سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندگی کرتی ہے اور پیپلزپارٹی کی سندھ کے دیہی علاقوں میں بالادستی ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کی نمائندہ یہ دونوں جماعتیں متحد ہو کر سندھ کے زبوں حال عوام کو مصائب اور مسائل سے نکالنے کی کوشش کرتیں لیکن تماشا یہ ہو رہا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے سندھ کے عوام کے مصائب میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پیپلزپارٹی کے صلح پسند اور مفاہمت کی پالیسی کے ایجاد کنندہ آصف علی زرداری کیا سندھ میں مفاہمتی سیاست کو مضبوط نہیں کر سکتے؟ کراچی میں امن و امان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال خاص طور پر متحدہ کی یہ شکایت کہ صوبائی حکومت کی سرپرستی میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے ایک ایسا سنگین الزام ہے جس کا حکومت خصوصاً آصف علی زرداری کو فوری نوٹس لینا چاہیے اور کوئی ایسی صورت نکالنا چاہیے کہ سندھ کی یہ دونوں جماعتیں متحد ہو کر سندھ کے عوام کے مسائل حل کر سکیں۔ متحدہ کی یہ شکایات اب رد عمل کی طرف آ رہی ہے۔
اس حوالے سے سندھ میں پہیہ جام ہڑتال ہو چکی ہے اور اندازہ یہ ہے کہ اگر ان کی شکایات دور نہ ہوئیں تو وہ اس کے خلاف احتجاج کو ایک تحریک میں بدل دیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سندھ حکومت اور پی پی پی کی قیادت ان امکانات کی سنگینی کو محسوس کرتی ہے؟ عام حالات میں تو سیاسی تحریکیں اس قدر خطرناک نہیں ہوتیں کیوں کہ اس قسم کی تحریکوں کو روکنے کے بہت سارے ''روایتی اور غیر روایتی'' طریقے نکال لیے جاتے ہیں لیکن ایسے حالات میں جب کہ ملک و قوم کی بقا اور عوام کے مستقبل کا سوال سامنے ہو کیا ملک سیاسی جماعتوں میں اختلافات اور حکومت کے خلاف تحریکوں کا متحمل ہو سکتا ہے؟
ہم نے طاہر القادری اور عمران خان کی تحریک کی اس حوالے سے حمایت کی تھی کہ ان قائدین نے انقلاب اور نئے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا اور ان نعروں کی عوامی پذیرائی کو دیکھ کر اندازہ ہو سکتا ہے کہ عوام اس 67 سالہ ظالمانہ استحصالی نظام سے نجات چاہتے ہیں لیکن 16/12 کے بعد جب ساری قوم اور سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو یہ اندازہ ہو گیا کہ اب کسی قسم کے معقول یا نا معقول تحفظات کو پس پشت ڈال کر قوم کا متحد ہونا ضروری ہے تو سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے دہشت گردی کے خلاف ایک آواز ہو کر کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا اور ہم سمیت دیگر لکھاریوں نے بھی قومی اتحاد کی حمایت کی اور فی الوقت سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اپنے اختلافات پس پشت ڈالنے کا مشورہ دیا۔متحدہ سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت ہے اس کی ایک کال پر پورا سندھ بند ہو جاتا ہے کیا ایسی جماعت کو آج کے حالات میں احتجاجی سیاست کی طرف جانے دینا چاہیے؟ پیپلزپارٹی کی قیادت کہہ رہی ہے کہ ہم نے اکیسویں ترمیم کی حمایت کر کے پاکستان کو دہشت گردی سے بچا لیا ہے۔
درست سمجھا لیکن دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے جس قومی اتحاد پر سب جماعتوں کا اتفاق ہے کیا سیاسی کشمکش سے یہ اتحاد موثر ثابت ہو سکتا ہے؟ اس وقت مسئلہ کسی کی اصولی حمایت یا مخالفت کا نہیں ہے کیوں کہ اس قسم کی حمایت اور مخالفت عام حالات میں تباہ کن ثابت نہیں ہوتی لیکن آج کے حالات میں اصولوں کے بجائے ضرورت کو ترجیح دینا ضروری ہے۔تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف اپنی جو تحریک 16/12 کے بعد روک دی تھی اب وہ اس تحریک کو دوبارہ شروع کرنے جا رہے ہیں۔
ادھر مولانا فضل الرحمن نے اکیسویں ترمیم کے خلاف خاص طور پر اس ترمیم میں دینی مدرسوں اور مذہب کے حوالے کے خلاف مذہبی جماعتوں کو متحد کرنے جا رہے ہیں کیا یہ اتحاد برائے اتحاد ہو گا۔ یا یہ اتحاد کسی تحریک کی طرف جائے گا؟ یہ سوال بڑا اہم ہے، ہمارے ملک کی 67 سالہ تاریخ میں اگرچہ عوام نے مذہبی جماعتوں کو کبھی اقتدار میں آنے نہیں دیا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مذہبی جماعتیں منظم ہیں اور ان کے کارکن اپنی قیادت کے حکم پر ہر وقت سڑکوں پر آ سکتے ہیں۔ اس لیے مذہبی جماعتوں کی قیادت کو ان دو مسائل یعنی دہشت گردی کے خاتمے کی جد وجہد اور اکیسویں ترمیم میں دینی مدرسوں اور مذہب کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا موازنہ کر کے یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے اجتماعی مفادات دونوں میں سے کس کو ترجیح دینے کے متقاضی ہیں۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی ایکشن پلان منظور کیا جا چکا ہے۔ اس پر عملدرآمد کی ذمے داری ریاستی مشینری پر زیادہ عائد ہوتی ہے خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کرپشن، امتیازات سے باہر نکل کر اپنی ذمے داریاں پورے نہ کریں تو دہشت گردی کے خلاف بنایا جانے والا ایکشن پلان کاغذات کی زینت بن کر رہ جائے گا۔
جب کسی قوم و ملک کو اپنی بقا اور قوم کے مستقبل کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اس ملک کے عوام، سیاسی جماعتیں اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے چھوٹے اور بڑے تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں۔
پاکستان جن خطرناک ترین مسائل میں گھرا ہوا ہے ان میں سرفہرست دہشت گردی ہے جو مذہبی انتہا پسندی کا ایک خوفناک پروڈکٹ ہے۔ 16/12 کے فوری بعد ایک عشرے سے جاری دہشت گردی کے خلاف جو قومی اتحاد پیدا ہوا وہ وقت کی اور مستقبل دونوں کی ناگزیر ضرورت تھا۔ اور یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ اس اتحاد کی بدولت دہشت گردی کا نہ صرف مقابلہ کیا جائے گا بلکہ اس عفریت کو ختم کرنے میں بھی یہ قومی اتحاد اہم کردار ادا کرے گا۔ لیکن لگ یہ رہا ہے کہ جس اتحاد کا مظاہرہ 16/12 کے بعد کیا گیا تھا اس میں مختلف حوالوں سے دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ ان دراڑوں میں سے ایک دراڑ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے راہ روی ہے۔
کراچی پاکستان کا ایک ایسا شہر ہے جہاں کے اچھے اور برے دونوں حالات کا پورے ملک پر اثر پڑتا ہے۔ کراچی کے عوام کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ سکون اور اطمینان کے نام تک سے محروم ہو گئے ہیں۔ کراچی کے عوام کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے ان میں ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ بھتہ مافیا، اغوا برائے تاوان، اسٹریٹ کرائم وغیرہ شامل ہیں۔ لیاری کی گینگ وار کراچی کے لیے ایک ایسا مسئلہ بن گئی ہے جس کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ اگرچہ اس گینگ وار کے اہم سرپرست یا تو مارے گئے ہیں یا روپوش یا فرار ہیں لیکن لیاری کی گینگ وار کی شدت میں قیادت کی غیر موجودگی کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ ہر روز اس علاقے میں ٹارگٹ کلنگ، گروہوں کی آپس کی لڑائی اور پولیس مقابلوں کا سلسلہ جاری نظر آتا ہے۔
اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اس انارکی کی اصل ذمے داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن متحدہ جیسی سندھ کی دوسری بڑی جماعت کو بھی یہ شکایت پیدا ہو گئی ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کی یہ بدترین صورت حال محض جرائم پیشہ افراد کی وجہ سے نہیں پیدا ہوئی بلکہ اس کی اصل وجہ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا سیاسی استعمال ہے۔ یہ بہت سنگین الزام ہے جس کا حکومت کو تشفی بخش جواب دینا چاہیے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سیاسی استعمال کا الزام کوئی نیا الزام نہیں ہے۔ ہر دور میں یہ الزام لگتا رہا اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کرپشن کے الزامات بھی نئے نہیں ہیں۔
جہاں بھی سرمایہ دارانہ نظام موجود ہو گا وہاں کرپشن قومی جسم میں خون کی طرح دوڑتی نظر آئے گی۔ سو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بے لگام نظر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فرانس میں انقلاب فرانس سے پہلے فرانس کا حکمران جاگیردار طبقہ عدالتی عہدے (ججز) فروخت کرتا تھا۔ ہمارے ملک میں اس روایت کو نوکریاں اور تھانے فروخت کر کے زندہ رکھا جا رہا ہے۔
کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ میں ایک مخصوص فقہ کے لوگ مارے جا رہے ہیں اس حوالے سے متحدہ کو یہ شکایت ہے کہ اس کے کارکنوں کو آئے روز ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ متحدہ کے رہنما اپنے کارکنوں کی لاشوں کے ساتھ سی ایم ہاؤس پر بھی مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ آجکل صوبائی اور قومی اسمبلی میں بھی واک آؤٹ اور احتجاج کے ذریعے اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
متحدہ ایک عرصے تک سندھ حکومت کا حصہ رہی ہے لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ متحدہ اور سندھ حکومت کے درمیان کبھی اعتماد اور دیرینہ اتحاد کا مظاہرہ نہیں ہوا۔ متحدہ سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندگی کرتی ہے اور پیپلزپارٹی کی سندھ کے دیہی علاقوں میں بالادستی ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کی نمائندہ یہ دونوں جماعتیں متحد ہو کر سندھ کے زبوں حال عوام کو مصائب اور مسائل سے نکالنے کی کوشش کرتیں لیکن تماشا یہ ہو رہا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے سندھ کے عوام کے مصائب میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پیپلزپارٹی کے صلح پسند اور مفاہمت کی پالیسی کے ایجاد کنندہ آصف علی زرداری کیا سندھ میں مفاہمتی سیاست کو مضبوط نہیں کر سکتے؟ کراچی میں امن و امان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال خاص طور پر متحدہ کی یہ شکایت کہ صوبائی حکومت کی سرپرستی میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے ایک ایسا سنگین الزام ہے جس کا حکومت خصوصاً آصف علی زرداری کو فوری نوٹس لینا چاہیے اور کوئی ایسی صورت نکالنا چاہیے کہ سندھ کی یہ دونوں جماعتیں متحد ہو کر سندھ کے عوام کے مسائل حل کر سکیں۔ متحدہ کی یہ شکایات اب رد عمل کی طرف آ رہی ہے۔
اس حوالے سے سندھ میں پہیہ جام ہڑتال ہو چکی ہے اور اندازہ یہ ہے کہ اگر ان کی شکایات دور نہ ہوئیں تو وہ اس کے خلاف احتجاج کو ایک تحریک میں بدل دیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سندھ حکومت اور پی پی پی کی قیادت ان امکانات کی سنگینی کو محسوس کرتی ہے؟ عام حالات میں تو سیاسی تحریکیں اس قدر خطرناک نہیں ہوتیں کیوں کہ اس قسم کی تحریکوں کو روکنے کے بہت سارے ''روایتی اور غیر روایتی'' طریقے نکال لیے جاتے ہیں لیکن ایسے حالات میں جب کہ ملک و قوم کی بقا اور عوام کے مستقبل کا سوال سامنے ہو کیا ملک سیاسی جماعتوں میں اختلافات اور حکومت کے خلاف تحریکوں کا متحمل ہو سکتا ہے؟
ہم نے طاہر القادری اور عمران خان کی تحریک کی اس حوالے سے حمایت کی تھی کہ ان قائدین نے انقلاب اور نئے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا اور ان نعروں کی عوامی پذیرائی کو دیکھ کر اندازہ ہو سکتا ہے کہ عوام اس 67 سالہ ظالمانہ استحصالی نظام سے نجات چاہتے ہیں لیکن 16/12 کے بعد جب ساری قوم اور سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو یہ اندازہ ہو گیا کہ اب کسی قسم کے معقول یا نا معقول تحفظات کو پس پشت ڈال کر قوم کا متحد ہونا ضروری ہے تو سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے دہشت گردی کے خلاف ایک آواز ہو کر کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا اور ہم سمیت دیگر لکھاریوں نے بھی قومی اتحاد کی حمایت کی اور فی الوقت سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اپنے اختلافات پس پشت ڈالنے کا مشورہ دیا۔متحدہ سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت ہے اس کی ایک کال پر پورا سندھ بند ہو جاتا ہے کیا ایسی جماعت کو آج کے حالات میں احتجاجی سیاست کی طرف جانے دینا چاہیے؟ پیپلزپارٹی کی قیادت کہہ رہی ہے کہ ہم نے اکیسویں ترمیم کی حمایت کر کے پاکستان کو دہشت گردی سے بچا لیا ہے۔
درست سمجھا لیکن دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے جس قومی اتحاد پر سب جماعتوں کا اتفاق ہے کیا سیاسی کشمکش سے یہ اتحاد موثر ثابت ہو سکتا ہے؟ اس وقت مسئلہ کسی کی اصولی حمایت یا مخالفت کا نہیں ہے کیوں کہ اس قسم کی حمایت اور مخالفت عام حالات میں تباہ کن ثابت نہیں ہوتی لیکن آج کے حالات میں اصولوں کے بجائے ضرورت کو ترجیح دینا ضروری ہے۔تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف اپنی جو تحریک 16/12 کے بعد روک دی تھی اب وہ اس تحریک کو دوبارہ شروع کرنے جا رہے ہیں۔
ادھر مولانا فضل الرحمن نے اکیسویں ترمیم کے خلاف خاص طور پر اس ترمیم میں دینی مدرسوں اور مذہب کے حوالے کے خلاف مذہبی جماعتوں کو متحد کرنے جا رہے ہیں کیا یہ اتحاد برائے اتحاد ہو گا۔ یا یہ اتحاد کسی تحریک کی طرف جائے گا؟ یہ سوال بڑا اہم ہے، ہمارے ملک کی 67 سالہ تاریخ میں اگرچہ عوام نے مذہبی جماعتوں کو کبھی اقتدار میں آنے نہیں دیا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مذہبی جماعتیں منظم ہیں اور ان کے کارکن اپنی قیادت کے حکم پر ہر وقت سڑکوں پر آ سکتے ہیں۔ اس لیے مذہبی جماعتوں کی قیادت کو ان دو مسائل یعنی دہشت گردی کے خاتمے کی جد وجہد اور اکیسویں ترمیم میں دینی مدرسوں اور مذہب کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا موازنہ کر کے یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے اجتماعی مفادات دونوں میں سے کس کو ترجیح دینے کے متقاضی ہیں۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی ایکشن پلان منظور کیا جا چکا ہے۔ اس پر عملدرآمد کی ذمے داری ریاستی مشینری پر زیادہ عائد ہوتی ہے خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کرپشن، امتیازات سے باہر نکل کر اپنی ذمے داریاں پورے نہ کریں تو دہشت گردی کے خلاف بنایا جانے والا ایکشن پلان کاغذات کی زینت بن کر رہ جائے گا۔