آئیے اپنے حصے کا فلاحی معاشرہ قائم کریں
حکومت کو یہ خیال کئی اسباب سے آیا ہے اول تو حکومت کے پاس نہ تو اتنا وسیع نیٹ ورک ہے نہ وسائل نہ انفرااسٹرکچر۔
لاہور:
حکومت ایک ایسا قانون بنانے پر غورکر رہی ہے جس کے تحت تاجروں، صنعتکاروں اور دیگر صاحب حیثیت افراد کے لیے اپنے ملازمین کے بچوں کو کم ازکم میٹرک تک تعلیم دلانا لازمی قرار دیا جائے گا اور اس کے عوض انھیں ٹیکسوں میں خاص تناسب سے معافی سمیت دیگر مراعات بھی دی جائیں گی۔
اس وقت بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے متمول حضرات یا وہ جن کے دلوں میں اپنے آس پاس کے لوگوں کی خدمت اور فلاح کا جذبہ ہے یہ نیک کام رضاکارانہ طور پر انجام دے رہے ہیں لیکن حکومت اب اسے ایک باقاعدہ منظم منصوبے کی شکل دینا چاہتی ہے۔ حکومت کو یہ خیال کئی اسباب سے آیا ہے اول تو حکومت کے پاس نہ تو اتنا وسیع نیٹ ورک ہے نہ وسائل نہ انفرااسٹرکچر۔ اس طرح سرکاری محکمے ایسی غریب اور بے وسیلہ وسیع آبادی تک پہنچنے سے قاصر ہیں جو تعلیم سے محروم ہے۔ اسی لیے حکومت خاص طور پر محروم طبقات کے بچوں کو لازمی تعلیم فراہم کرنے کی ذمے داری جزوی طور پر معاشرے کے متمول افراد کو منتقل کرنا چاہتی ہے۔
اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں ایسے لوگوں کو ریگولرائز کیا جائے گا جو پہلے سے رضاکارانہ طور پر یہ ذمے داری انجام دے رہے ہیں اور اپنے ملازمین کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔ ایسے افراد اور گھرانوں کی نشاندہی کرکے انھیں رجسٹر کیا جائے گا۔ ان کی خدمات کو سراہا جائے گا اخبارات میں ان کے نام شایع کیے جائیں گے اور پھر انھیں معاشرے کے ان لوگوں کے لیے ماڈل اور مثال بنایا جائے گا جو وسائل ہونے کے باوجود یہ نیک کام نہیں کر رہے ہیں۔
پھر متمول شخصیتوں اور اداروں کو قانون کے تحت اس بات کا پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنے ملازمین کے بچوں کو تعلیم کی مناسب سہولتیں فراہم کریں جس کے لیے وہ سب سے پہلے ایسے گھرانوں کی فہرست مرتب کریں گے اور ان بچوں کا سراغ لگائیں گے جن کو تعلیم دلانا ان کی ذمے داری بن سکتی ہے اور پھر ایسے بچوں کو مختلف اسکولوں میں ان کی عمر اور اہلیت کے مطابق داخلے دلائیں گے۔اس ذمے داری کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنی مرضی سے درمیانے درجے کے ایسے اسکولوں کا انتخاب کرسکتے ہیں جو نسبتاً کم فیسیں لے کر تعلیم کی معیاری سہولتیں فراہم کر رہے ہیں اور وہ اگر چاہیں تو ایسے بچوں کو رعایتی پیکیج بھی دلوا سکتے ہیں۔
حکومت کی طرف سے معاشرے کے باحیثیت افراد کو مذہبی اور اخلاقی تعلیمات کے ذریعے بھی ان کی ذمے داریوں کا احساس دلایا جائے گا۔ انھیں بتایا جائے گا کہ ہمارا مذہب دنیا کے تمام مذاہب سے زیادہ اپنے اردگرد کے لوگوں خاص طور پر اقربا اور مساکین کا خیال رکھنے کا درس دیتا ہے اور خیال رکھنے کا مطلب محض لوگوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا نہیں بلکہ صحت اور تعلیم کی مناسب سہولتیں بھی فراہم کرنا ہے محض کاغذ پر نہیں بلکہ عملی طور پر بھی۔ کیونکہ اگر آپ لوگوں کو تعلیم کے زیور سے بہرہ ور کردیں گے تو عین ممکن ہے کہ وہ خود کفیل اور صاحب روزگار ہوجائیں اور پھر آپ کو انھیں مفت کھانا کھلانے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔
اس سلسلے میں جو قانون بنایا جا رہا ہے اگرچہ ابھی اسے حتمی شکل نہیں دی گئی ہے مگر اس میں جو کچھ تجویز کیا گیا ہے اور ابھی تک اس کی جو تفصیلات معلوم ہوئی ہیں ان کے مطابق سب سے پہلے اس میں مالی حیثیت کے مطابق ایسے افراد اور اداروں کا تعین کیا جائے گا جن کے لیے اپنے ملازمین کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنا لازمی ہوگا اور یہ بھی کہ وہ کم ازکم کتنے افراد کے لیے تعلیم کا بندوبست کرسکتے ہیں اور اس مقصد سے کتنا سرمایہ خرچ کرسکتے ہیں اور اسی حساب سے کتنا ٹیکس ریبیٹ لے سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی قانون میں ان ملازمین کی صراحت کی جائے گی جو اس اسکیم سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔
ابتدائی مرحلے میں یہ سمجھا گیا ہے کہ ایسے ملازمین جن کی تنخواہ پندرہ ہزار یا اس سے کم ہے اس اسکیم سے استفادہ کرسکتے ہیں تاہم متمول حضرات اور اداروں کو یہ صوابدیدی اختیارات دیے جائیں گے کہ وہ اپنے حالات کے مطابق مستحق گھرانوں کا انتخاب کرسکتے ہیں۔اس مقصد سے جو قانون سازی کی جائے گی اس میں یہ بات بھی یقینی بنائی جائے گی کہ اس اسکیم سے استفادہ کرنے والوں کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو انھیں فراہم کی جانے والی مفت تعلیم کی سہولت کو جس حد تک ممکن ہو کانفیڈنشل رکھا جائے اور کسی بھی اسکول کی کسی بھی کلاس میں یہ فرق سامنے نہ آسکے کہ کون باقاعدہ فیس ادا کرکے تعلیم حاصل کر رہا ہے اور کون مذکورہ اسکیم کے تحت مفت پڑھ رہا ہے اس مقصد سے یہ کوشش بھی کی جائے گی کہ ملازمین اور ان کے بچے اسے اپنا حق سمجھتے ہوئے اس اسکیم سے استفادہ کریں۔
اس اسکیم کے تحت جو طلبا و طالبات تعلیم حاصل کریں گے ان کے لیے اس کا جاری رہنا ان کی کارکردگی سے بھی مشروط ہوگا یعنی یہ سہولت اور رعایت انھیں اس وقت تک حاصل رہے گی جب تک کہ وہ مقررہ اور مطلوبہ گریڈ حاصل کرتے رہیں گے مطلب یہ کہ ان کے لیے محض پاس ہونا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ انھیں اچھے مارکس لینے کے لیے محنت بھی کرنی پڑے گی اور دل لگا کر پڑھنا پڑے گا اور جو طلبا اچھی پوزیشن حاصل کریں گے ان کو فارن اسکالر شپس سمیت مختلف انعامات بھی دیے جائیں گے۔
متعلقہ سرکاری حلقوں میں ابھی تک یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ اس اسکیم کو فی الحال متمول شخصیتوں کے گھریلو ملازمین تک محدود رکھا جائے یا اسے اداروں تک توسیع دی جائے کیونکہ ماہرین کے خیال میں اول الذکر صورت میں اس اسکیم پر عملدرآمد آسان ہوگا۔ کیونکہ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد فی الوقت بھی کچھ غیر منظم انداز میں سہی یہ کام کر رہی ہے جسے اس اسکیم کے ذریعے ریگولرائز کیا جائے گا۔
ابھی یہ پہلو بھی زیر غور ہے کہ ملازمین کے بچوں کی تعلیم لازمی قرار دینے کے لیے قانون میں سخت سزائیں رکھی جائیں یا فی الحال مذہب اور اخلاقیات کا واسطہ دے کر مالدار لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا جائے اور انھیں موبلائز کیا جائے اگر سیدھی انگلیوں سے ہی گھی نکل آئے تو پھر سخت سزاؤں کا سہارا لینے کی کیا ضرورت ہے۔
یہ تو طے ہے اگر سرکاری کے ساتھ ساتھ نجی سطح پر بھی اس طرح مفت لازمی تعلیم کا بندوبست ہوگیا تو یہ ایک فلاحی معاشرے کے قیام کی طرف بھی ایک اہم قدم ہوگا۔ ظاہر ہے جس قسم کی حکومتیں اور حکمران ہمیں میسر آتے رہے ہیں ان کی موجودگی ایک فلاحی ریاست اور فلاحی معاشرے کا قیام ایک ایسا خواب بن گیا ہے جسے مایوسی کے عالم میں لوگوں نے دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہم ایک اچھے فلاحی معاشرے سے قریب تر ہونے کے بجائے دور ہوتے جا رہے ہیں اس لیے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ فلاحی معاشرے کے لیے حکومت یا کسی غیبی قوت کا انتظار کرنے کے بجائے خود پہل کی جائے اپنے آس پاس اپنی ایک چھوٹی سی دنیا خود تخلیق کی جائے اور جس حد تک بھی ممکن ہو اس کے دکھ درد دور کیے جائیں۔یہ محسوس کرنے کا بھی اپنا ایک سیٹسفیکشن ہے کہ آپ ایک بامقصد زندگی گزار رہے ہیں اور لوگوں کے کام آرہے ہیں۔