سماج کا ارتقاء
انسانی سماج کے ارتقاء کے بارے میں تحقیق سے انسانوں کا فائدہ ہوا اور انسانی معاشرے کے مسائل کے حل میں مدد ملی۔
انسانی سماج کے ارتقاء کے بارے میں تحقیق سے انسانوں کا فائدہ ہوا اور انسانی معاشرے کے مسائل کے حل میں مدد ملی۔ انسانی ارتقاء پر تحقیق کے نتائج کے ذریعے طبی سائنس نے ترقی کی۔ مسلمان فلسفیوں میں علم حیوانیات کا امام ابو عثمان حافظ ''869-778 عیسوی'' پہلا فلسفی تھا جس نے سب سے پہلے انواع کے ارتقاء پر توجہ دی اور مختلف انواع و مخلوقات پر آب و ہوا اور ماحول کے اثرات کا جائزہ لیا، جس کے بعد جغرافیہ دان ابوالحسن مسعودی 957-922ء نے ارتقاء کی ضرورت کی طرف توجہ دی۔ ارتقاء کو باقاعدہ نظریے کی شکل البیرونی کے ہم عصر ممتاز مورخ ابن مسکوبہ 942-1032ء نے دی۔
چارلس ڈارون کا شمار نظریہ ارتقاء کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ ڈارون اور الفریڈ رسل نے 1858ء میں مشترکہ طور پر اپنے تحقیقی مقالے شائع کیے تھے جن میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ تمام جانداروں کے مورث اعلیٰ دنیا کے دور اولین کے چند جانور ہیں۔ ڈارون کی پہلی کتاب Original Species (اصل نواع) 1858ء میں شائع ہوئی جس میں انھوں نے اپنے افکار اور خیالات وضاحت سے بیان کیے۔ ڈارون کی دوسری تنصیف Descent of Man and Selection in Relation to Sex تھی۔ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ معروف دانش ور اعجاز احمد نے اس کتاب کا ترجمہ شجرہ انسانی کے نام سے کیا۔ اعجاز احمد جو فلسفے کے طالب علم ہیں انھوں نے ڈارون کی انتہائی مشکل انگریزی کو آسان اور سادہ سلیس اردو میں منتقل کیا ہے۔ اعجاز احمد کا یہ ترجمہ 9 ابواب اور 288 صفحات پر مشتمل ہے۔
مصنف نے کتاب کا انتساب اپنے چچا ڈاکٹر منظور احمد کے نام موسوم کیا ہے۔ ڈاکٹر منظور احمد کراچی کے معروف جنرل فزیشن تھے مگر انھوں نے کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو کر ساری زندگی جدوجہد میں گزاری۔ اس کتاب کے ابواب میں حیوانات اور انسان کی ذہنی صلاحیتوں اور ہمدردی کی جہتوں پر اعلیٰ درجے کی بحث کی گئی ہے۔ حیوانیات، جن میں شکاری درندے، پرندے اور کیڑے مکوڑے شامل ہیں' ان سے متعلق مسائل کو ڈارون نے بحث کا موضوع بنایا ہے اور مختلف صلاحیتوں کی وضاحت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ارسطو کو اپنے چڑیا گھر میں ٹہلتے وقت اس امر کا یقین ہو گیا تھا کہ حیات کے لامتناہی تنوع کو ایک مسلسل (سلسلے) کے اندر ترتیب دیا جا سکتا ہے۔
جس میں ہر کڑی دوسری کڑی سے غیر ممیز ہو گی۔ تمام اعتبار سے ان میں خواہ وہ ساخت ہو، طریقہ حیات ہو یا بچوں کی پرورش ہو یا حس اور احساس ہو ادنیٰ ترین اعضاء سے اعلیٰ ترین عضووں تک لطیف مدارج ہیں۔ ادنیٰ حالت میں ہم زندہ اور مردہ میں مشکل سے امتیاز کر سکتے ہیں۔ جاندار اور بے جان عالم میں اس قدر تدریجی تغیر ہے کہ وہ سرحدیں جو ان کو علیحدہ کرتی ہیں مبہم ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ پرندے اور رینگنے والے جانور اپنی ساخت کے اعتبار سے بہت قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ بندر اپنی شکل کے اعتبار سے انسان اور چوپایوں کی درمیانی کڑی ہے۔
اعجاز احمد نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ ڈارون کا نظریہ ارتقاء مسلمانوں میں بہت زیادہ موضوعِ بحث رہا اور عموماً اہلِ علم اس نظریے کو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہی قرار دیتے ہیں۔ ممتاز عالمِ دین ڈاکٹر حمید اﷲ کا نظریہ اہلِ علم کے خیالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کے نزدیک ڈارون کا نظریہ نیا نہیں، بلکہ مسلمان اہلِ فکر کا ہی دیا ہوا ہے۔ اس ضمن میں وہ اخوان الصفاء اور ابن مسکوبہ کی کتابوں الفورز الاصغر کا حوالہ دیتے ہیں اور ڈارون کو ملحد کہنے میں بھی متامل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ڈارون کا نظریہ ہمارے یہاں بعض اوقات اس لیے سنجیدگی پیدا کرتا ہے کہ ہم فرض کرتے ہیں کہ ڈارون ایک ملحد تھا اور خدا کو نہیں مانتا تھا حالانکہ ڈارون کی سوانح عمری پڑھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ خدا کا قائل تھا۔
جب اس نے اپنے آبائی فن علم طب کی تعلیم مکمل کر لی اور ڈاکٹر بن گیا تو یکایک کایا پلٹ گئی۔ دنیا سے وہ نفوذ ہو گیا اور خدا کی طرف مائل ہوا۔ چنانچہ کیمبرج یونیورسٹی کے شعبہ الہیات میں جہاں عیسائی مذہب کی تعلیم بھی دی جاتی تھی یہاں ڈارون نے اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے عربی زبان بھی پڑھی۔ ان کے خطوط کا جو مجموعہ شائع ہوا ہے اس میں کئی خط اس نے اپنے عربی کے استاد کے نام لکھے ہیں اور بے حد ادب و احترام سے اس کا نام لیا ہے اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں کیمبرج یونیورسٹی میں عربی نصاب کی جو کتابیں پڑھائی جاتی تھیں اور تقابلِ ادیان کی تعلیم دی جاتی تھی، ان میں یا تو اخوان الصفاء کے اقتباسات ہونگے یا ابن مسکوبہ کی کتاب کے انتخابات۔ ان دونوں کتابوں میں ارتقاء کا نظریہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ دونوں کتابیں تیسری و چوتھی صدی کی کتابیں ہیں۔ ڈارون نے اس کتاب میں مختلف نوعیت کے تجربات بیان کیے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ''انسان اندرونی طفیلیوں سے لپٹا ہوتا ہے جس کے بعض اوقات جان لیوا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ بیرونی طفیلیوں کے حملے کی زد میں آتا ہے جن کا تعلق انھیں انواع اور خاندانوں سے ہوتا ہے جو دوسرے مامایہ پر حملہ آور ہوتے ہیں خاص طور پر خارش جس کے ایک ہی نوع کے جراثیم ہوتے ہیں۔ انسان دوسرے مامایہ حتیٰ کہ کیڑوں کی طرح اس پراسرار قانون کا پابند ہے جس کے نتیجے میں عمومی طبعی افعال مثلاً وضع حمل، بلوغت اور مختلف بیماریوں کے دورانیے جو چاند کی تاریخوں کے مطابق تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ ڈارون انسان کو سماجی حیوان قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ یہ خصوصیات جانوروں اور پرندوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ سب نے دیکھا ہو گا کہ گھوڑے، کتے اور بھیڑیں وغیرہ اپنے ساتھیوں سے علیحدہ ہو کر کتنے پریشان ہو جاتے ہیں۔ گھوڑے اور کتے اپنے ساتھی سے دوبارہ مل کر اپنے جذبات و احساسات کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔
انسانی ارتقاء پر اردو میں کئی کتابیں موجود ہیں مگراعجاز احمد نے ڈارون کی اس تخلیق کو بہت خوبصورتی سے اردو میں منتقل کیا ہے جو انسانی سماج کے ارتقاء کے طالب علموں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ فزکس کے سابق سربراہ ڈاکٹر عبدالحمید نیئر نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چارلس ڈارون کے نظریات نے انسانی سوچ میں جس انقلاب کو جنم دیا وہ پاکستان کے عوام تک نہیں پہنچ پائے۔
عالم انسانی کے تخیلات ڈارون کے نظریات کو سمجھ کر اس کے آگے کئی منازل طے کر چکے ہیں۔ ہم ان ثمرات سے دن رات فیض یاب ہونے کے باوجود ان ھی نظریات سے اجتناب کرتے ہیں۔ ڈارون کے نظریات تفکر، دلائل اور باریک بینی کے ساتھ مشاہدات کا ایک ایسا عظیم کارنامہ ہے جسے جانے بغیر فکر انسانی کی عظمت کا ادراک مکمل نہیں ہو سکتا۔ اعجاز احمد نے اس کتاب کا ترجمہ کر کے اردو زبان کے قارئین پر احسان کیا ہے جس پر ان کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔ یہ کتاب اٹلاٹس پبلی کیشنز نے شائع کی ہے اور 300 روپے میں دستیاب ہے۔