کاروبار کے لیے سازگار ممالک
پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے کاروبار کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
غیرملکی سرمایہ کار ترقی پذیر ممالک کے ان ہی شعبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جہاں کوئی رسک بھی نہ ہو اور زیادہ سے زیادہ منافعے کی توقع بھی ہو۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ اگر محسوس ہو کہ حالات سازگار نہیں جا رہے تو فوری طور پر تمام سرمایہ یا اس کا بڑا حصہ فوراً نکالا جاسکے۔کئی ترقی پذیر معیشتوں کی مثالیں موجود ہیں جہاں کسی بھی ہنگامی صورت حال کے پیش نظر ان ملکوں سے فوری طور پر سرمایہ نکال لیا گیا۔
جس کے باعث ان ممالک کی معیشتیں زبردست بحران کا شکار ہوکر رہ گئیں۔ انھیں اپنی معاشی حالت کو سہارا دینے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کرنا پڑا۔ وہاں بیروزگاری کا سیلاب آکر رہ گیا۔ بڑی بڑی کمپنیوں نے ڈاؤن سائزنگ کو معمول بنالیا۔ جس کے باعث لوگوں کی آمدن بھی گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی اب تک ترقی نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں بعض شعبے ایسے ہیں جہاں سرمایہ کاری کم سے کم ہو رہی ہے جب کہ بعض شعبے ایسے ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ منافعے کے حصول کی خاطر بیرونی سرمایہ کار اس طرف زیادہ مائل رہتے ہیں ۔
لہٰذا ترقی پذیر ممالک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح بھی ملک میں سرمایہ کاری ہوتی رہے تاکہ معیشت میں جمود کی کیفیت نہ پیدا ہوجائے بلکہ معیشت میں حرکت ہوتی رہے۔ کیونکہ بعض ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ اگر کوئی ملک متوازن سرمایہ کاری کے نظریے پر عمل نہیں کرسکتا تو بہتر راستہ یہی ہوسکتا ہے کہ جن شعبوں میں غیرملکی سرمایہ کار زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، وہاں ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ ایسے ملکوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ چند مخصوص شعبے جہاں غیر ملکی سرمایہ کار متوجہ ہوسکتے ہیں اس کے لیے انھیں ترغیب دی جائے تاکہ معیشت آگے کی طرف متحرک رہے۔
اسی متحرک ہونے کے نتیجے میں بالآخر ترقی ہوسکے گی، کیونکہ کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے ۔ملک کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے یہاں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری سے مراد صنعتی یا زرعی شعبے یا کسی پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری ہے کیونکہ سرمایہ کاری ہوتی رہے تو اس کے نتیجے میں مزید سرمایہ کاری کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے کاروبار کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ حکومت جسے بزنس فرینڈلی بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس بات کی کوشش میں ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کی جانب متوجہ کیا جائے لیکن کوئی بھی صنعتکار یا سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری سے پہلے ملکی حالات کو مدنظر رکھتا ہے وہاں بجلی، پانی، گیس، روٹی اور دیگر بہت سی باتوں پر دھیان دیتا ہے۔ پھر کہیں جاکر اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ اس ملک میں کاروبار کے لیے حالات سازگار ہیں یا نہیں۔ کسی بھی ملک میں کاروبار کرنے کے حوالے سے عالمی بینک ہر سال کاروبار کے لیے سازگار ممالک کی ایک فہرست جاری کرتا ہے جس میں بہت سی ایسی باتوں کی طرف توجہ دی جاتی ہے جوکہ کاروبار کرنے سے متعلق ہوتی ہیں۔
اس عالمی رینکنگ میں کاروبار کے آغاز پر کسی بھی قسم کی تعمیرات کے لیے کس قسم کے اجازت ناموں کی ضرورت پڑتی ہے، بجلی کیسے حاصل کی جاتی ہے، جائیداد کیسے خریدنی ہے اور پھر ان کی رجسٹری اور دیگر قانونی مراحل۔ قرض کیسے حاصل کیا جاتا ہے، ٹیکس کی ادائیگی کی بابت اس کے علاوہ کئی اور باتوں کی وضاحت کے بعد اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کاروبار کے لیے کسی بھی ملک کا کیا درجہ ہے۔ پاکستان گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق 189 ممالک میں سے 128 ویں نمبر پر ہے۔ جب کہ اس سے قبل پاکستان کا درجہ 127 ویں نمبر پر تھا۔ یعنی اب اس کی ایک درجے کی تنزلی واقع ہوئی ہے۔
رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی کاروبار کو شروع کرنا ہو تو اس کے لیے 19 دن لگتے ہیں۔ جب کسی کمپنی کا آغاز کیا جاتا ہے تو اس کی رجسٹریشن کرانی پڑتی ہے اس کے مختلف مراحل ہیں جس کے لیے 10 مختلف طریقوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں گودام تعمیر کرنا ہو تو اس کے لیے بھی 10 مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے لیے ڈھائی سو یوم درکار ہوتے ہیں اور برآمدات کرنے میں 20 روز اور فی کنٹینر برآمدی لاگت 600 ڈالر آتے ہیں اور درآمدات میں 17 یوم اور فی کنٹینر درآمدی لاگت 725 ڈالر۔
عالمی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے قبل اس رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کاروبار کے حوالے سے تعمیراتی اجازت نامے اور بجلی کے کنکشن، جائیداد کی رجسٹری، قرض کے حصول اور دیگر کئی حوالوں سے پاکستان کی پہلے سے تنزلی دکھائی گئی ہے۔ دوسری طرف حکومت اس بات کی خواہش مند رہتی ہے کہ کسی طرح سے غیرملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کیا جائے۔ شاید اس بات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ہے کہ عالمی ادارے یا عالمی قوتوں کے زیر اثر چلنے والے ادارے پاکستان کے متعلق کس قسم کی درجہ بندی میں مصروف ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ملک میں اس بات کی طرف فوری توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں کاروبار کے لیے انتہائی سازگار حالات پیدا کیے جائیں۔
بہت سی باتوں میں ہم اپنی کارکردگی بہتر بناسکتے ہیں۔ کئی مسائل یا رکاوٹیں ایسی ہیں جنھیں راتوں رات دور کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہو کیونکہ نصف کروڑ کے لگ بھگ افراد کو روزگار کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت میں اتنا تنوع پیدا نہیں ہو رہا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو کھپایا جاسکے۔ لہٰذا ایسے میں بیرونی سرمایہ کاروں کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اگر وہ ملک میں ایسی صنعتوں میں سرمایہ کاری کریں جس میں زیادہ سے زیادہ لیبرز کی کھپت ہوسکے تو لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوگا۔ اس کے لیے ملک میں عوامی خدمات کے حوالے سے بھی انتظامات کو بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ نقل و حمل کے ذرائع، رسل و رسائل، قانون کا نفاذ، انتظامیہ کی کارکردگی، ملک سے کرپشن کا خاتمہ۔ صرف کرپشن کو ہی لے لیجیے تو پاکستان بہت ہی آگے ہے۔ لہٰذا بعض اوقات غیر ملکی صنعتکار ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن کو مدنظر رکھ کر سرمایہ کاری کے لیے کسی اور ملک کا رخ کرلیتا ہے۔
اس کے علاوہ ملک میں امن وامان کی صورت حال کے باعث صنعتی ممالک اپنے شہریوں کو بار بار آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستان کا سفر کرنے سے گریز کریں۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر سب سے زیادہ منفی اثرات نائن الیون کے بعد مرتب ہوئے۔ جب ملک میں امن وامان کی صورت حال بگڑ رہی تھی اس کے ساتھ ہی سرد بازاری نے بھی بہت سی غیرملکی کمپنیوں کو ملک سے کوچ کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ خطے کے دیگر ملکوں میں حالات کو سازگار پاتے ہوئے بہت سی کمپنیوں نے اپنا سرمایہ یہاں سے نکال لیا۔ اس کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاروں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ یہاں صرف ان ہی شعبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جہاں زیادہ اور فوری منافع حاصل ہو۔ جس کے باعث ملکی صنعت کو فروغ بھی نہیں ملتا اور ملک سے ڈالر بڑے پیمانے پر منتقلی کے باعث بعض اوقات ڈالر کی قلت پیدا ہوتی رہی ہے۔
جس کی وجہ سے ڈالر کی قدر بھی بڑھتی رہی ہے۔ حکومت کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ملک میں کاروبار کے لیے سازگار حالات پیدا کیے جائیں۔ نیز جس منفی پروپیگنڈے کا شکار پاکستان کو بنایا جا رہا ہے اس سے بھی گلوخلاصی کی تدابیر اختیار کی جائیں تاکہ بیرونی سرمایہ کار ملک میں آئیں اور یہاں ان شعبوں اور صنعتوں میں سرمایہ کاری کریں جن میں لوگوں کے لیے بھی روزگار کے مواقعے فراہم ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں تاکہ پاکستان کاروبار کے لیے سازگار ممالک کی فہرست میں بہتر سے بہتر پوزیشن حاصل کرسکے۔
جس کے باعث ان ممالک کی معیشتیں زبردست بحران کا شکار ہوکر رہ گئیں۔ انھیں اپنی معاشی حالت کو سہارا دینے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کرنا پڑا۔ وہاں بیروزگاری کا سیلاب آکر رہ گیا۔ بڑی بڑی کمپنیوں نے ڈاؤن سائزنگ کو معمول بنالیا۔ جس کے باعث لوگوں کی آمدن بھی گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی اب تک ترقی نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں بعض شعبے ایسے ہیں جہاں سرمایہ کاری کم سے کم ہو رہی ہے جب کہ بعض شعبے ایسے ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ منافعے کے حصول کی خاطر بیرونی سرمایہ کار اس طرف زیادہ مائل رہتے ہیں ۔
لہٰذا ترقی پذیر ممالک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح بھی ملک میں سرمایہ کاری ہوتی رہے تاکہ معیشت میں جمود کی کیفیت نہ پیدا ہوجائے بلکہ معیشت میں حرکت ہوتی رہے۔ کیونکہ بعض ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ اگر کوئی ملک متوازن سرمایہ کاری کے نظریے پر عمل نہیں کرسکتا تو بہتر راستہ یہی ہوسکتا ہے کہ جن شعبوں میں غیرملکی سرمایہ کار زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، وہاں ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ ایسے ملکوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ چند مخصوص شعبے جہاں غیر ملکی سرمایہ کار متوجہ ہوسکتے ہیں اس کے لیے انھیں ترغیب دی جائے تاکہ معیشت آگے کی طرف متحرک رہے۔
اسی متحرک ہونے کے نتیجے میں بالآخر ترقی ہوسکے گی، کیونکہ کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے ۔ملک کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے یہاں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری سے مراد صنعتی یا زرعی شعبے یا کسی پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری ہے کیونکہ سرمایہ کاری ہوتی رہے تو اس کے نتیجے میں مزید سرمایہ کاری کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے کاروبار کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ حکومت جسے بزنس فرینڈلی بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس بات کی کوشش میں ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کی جانب متوجہ کیا جائے لیکن کوئی بھی صنعتکار یا سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری سے پہلے ملکی حالات کو مدنظر رکھتا ہے وہاں بجلی، پانی، گیس، روٹی اور دیگر بہت سی باتوں پر دھیان دیتا ہے۔ پھر کہیں جاکر اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ اس ملک میں کاروبار کے لیے حالات سازگار ہیں یا نہیں۔ کسی بھی ملک میں کاروبار کرنے کے حوالے سے عالمی بینک ہر سال کاروبار کے لیے سازگار ممالک کی ایک فہرست جاری کرتا ہے جس میں بہت سی ایسی باتوں کی طرف توجہ دی جاتی ہے جوکہ کاروبار کرنے سے متعلق ہوتی ہیں۔
اس عالمی رینکنگ میں کاروبار کے آغاز پر کسی بھی قسم کی تعمیرات کے لیے کس قسم کے اجازت ناموں کی ضرورت پڑتی ہے، بجلی کیسے حاصل کی جاتی ہے، جائیداد کیسے خریدنی ہے اور پھر ان کی رجسٹری اور دیگر قانونی مراحل۔ قرض کیسے حاصل کیا جاتا ہے، ٹیکس کی ادائیگی کی بابت اس کے علاوہ کئی اور باتوں کی وضاحت کے بعد اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کاروبار کے لیے کسی بھی ملک کا کیا درجہ ہے۔ پاکستان گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق 189 ممالک میں سے 128 ویں نمبر پر ہے۔ جب کہ اس سے قبل پاکستان کا درجہ 127 ویں نمبر پر تھا۔ یعنی اب اس کی ایک درجے کی تنزلی واقع ہوئی ہے۔
رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی کاروبار کو شروع کرنا ہو تو اس کے لیے 19 دن لگتے ہیں۔ جب کسی کمپنی کا آغاز کیا جاتا ہے تو اس کی رجسٹریشن کرانی پڑتی ہے اس کے مختلف مراحل ہیں جس کے لیے 10 مختلف طریقوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں گودام تعمیر کرنا ہو تو اس کے لیے بھی 10 مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے لیے ڈھائی سو یوم درکار ہوتے ہیں اور برآمدات کرنے میں 20 روز اور فی کنٹینر برآمدی لاگت 600 ڈالر آتے ہیں اور درآمدات میں 17 یوم اور فی کنٹینر درآمدی لاگت 725 ڈالر۔
عالمی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے قبل اس رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کاروبار کے حوالے سے تعمیراتی اجازت نامے اور بجلی کے کنکشن، جائیداد کی رجسٹری، قرض کے حصول اور دیگر کئی حوالوں سے پاکستان کی پہلے سے تنزلی دکھائی گئی ہے۔ دوسری طرف حکومت اس بات کی خواہش مند رہتی ہے کہ کسی طرح سے غیرملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کیا جائے۔ شاید اس بات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ہے کہ عالمی ادارے یا عالمی قوتوں کے زیر اثر چلنے والے ادارے پاکستان کے متعلق کس قسم کی درجہ بندی میں مصروف ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ملک میں اس بات کی طرف فوری توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں کاروبار کے لیے انتہائی سازگار حالات پیدا کیے جائیں۔
بہت سی باتوں میں ہم اپنی کارکردگی بہتر بناسکتے ہیں۔ کئی مسائل یا رکاوٹیں ایسی ہیں جنھیں راتوں رات دور کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہو کیونکہ نصف کروڑ کے لگ بھگ افراد کو روزگار کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت میں اتنا تنوع پیدا نہیں ہو رہا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو کھپایا جاسکے۔ لہٰذا ایسے میں بیرونی سرمایہ کاروں کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اگر وہ ملک میں ایسی صنعتوں میں سرمایہ کاری کریں جس میں زیادہ سے زیادہ لیبرز کی کھپت ہوسکے تو لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوگا۔ اس کے لیے ملک میں عوامی خدمات کے حوالے سے بھی انتظامات کو بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ نقل و حمل کے ذرائع، رسل و رسائل، قانون کا نفاذ، انتظامیہ کی کارکردگی، ملک سے کرپشن کا خاتمہ۔ صرف کرپشن کو ہی لے لیجیے تو پاکستان بہت ہی آگے ہے۔ لہٰذا بعض اوقات غیر ملکی صنعتکار ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن کو مدنظر رکھ کر سرمایہ کاری کے لیے کسی اور ملک کا رخ کرلیتا ہے۔
اس کے علاوہ ملک میں امن وامان کی صورت حال کے باعث صنعتی ممالک اپنے شہریوں کو بار بار آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستان کا سفر کرنے سے گریز کریں۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر سب سے زیادہ منفی اثرات نائن الیون کے بعد مرتب ہوئے۔ جب ملک میں امن وامان کی صورت حال بگڑ رہی تھی اس کے ساتھ ہی سرد بازاری نے بھی بہت سی غیرملکی کمپنیوں کو ملک سے کوچ کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ خطے کے دیگر ملکوں میں حالات کو سازگار پاتے ہوئے بہت سی کمپنیوں نے اپنا سرمایہ یہاں سے نکال لیا۔ اس کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاروں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ یہاں صرف ان ہی شعبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جہاں زیادہ اور فوری منافع حاصل ہو۔ جس کے باعث ملکی صنعت کو فروغ بھی نہیں ملتا اور ملک سے ڈالر بڑے پیمانے پر منتقلی کے باعث بعض اوقات ڈالر کی قلت پیدا ہوتی رہی ہے۔
جس کی وجہ سے ڈالر کی قدر بھی بڑھتی رہی ہے۔ حکومت کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ملک میں کاروبار کے لیے سازگار حالات پیدا کیے جائیں۔ نیز جس منفی پروپیگنڈے کا شکار پاکستان کو بنایا جا رہا ہے اس سے بھی گلوخلاصی کی تدابیر اختیار کی جائیں تاکہ بیرونی سرمایہ کار ملک میں آئیں اور یہاں ان شعبوں اور صنعتوں میں سرمایہ کاری کریں جن میں لوگوں کے لیے بھی روزگار کے مواقعے فراہم ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں تاکہ پاکستان کاروبار کے لیے سازگار ممالک کی فہرست میں بہتر سے بہتر پوزیشن حاصل کرسکے۔