نظریاتی اور فکری تصادم

آزادی اور مساوات کے تصورات چرچ اور معاشرے کی حاکمیت کے خلاف سمجھے جاتے تھے۔


Aftab Ahmed Khanzada January 16, 2015

اٹھارویں صدی میں فرانس میں نظریات کی جنگ کاآغاز ہوا ۔ یہ نظریاتی تصادم اس دور کے عظیم مفکر والٹیئر اور دیگر فرانسیسی مفکرین کے درمیان تھا۔ مذہب کے قدیم عقائد اور سماجی رویوں کو چیلنج کردیاگیا تھا سب سے بڑی بات یہ تھی کہ نئے نظریات بڑی بے باکی سے پیش کیے جارہے تھے لیکن اس طرح کی سیاسی اور نظریاتی سوچ زیادہ ترفرانس تک محدود تھی اس دوران جمہوریت کا تصور پھیل گیا اور امریکی قرارداد آزادی اور فرانسیسی قرارداد حقوق کے مسحور کن لفظوں اور جملوں نے لوگوں کو ہیجان میں مبتلا کر دیا۔

لاکھوں استحصال زدہ اور بے کس و مجبور لوگوں کے لیے یہ ایک سنسنی اور نجات کا پیغام تھا۔ دونوں قراردادیں آزادی، مساوات اورتمام لوگوں کے لیے خوشی اورآسودگی کے حق کی بات کرتی تھیں۔ یورپ اور دنیا بھر میں عیسائیت سمیت تمام مذاہب کا قدیم عقیدہ تھا کہ گناہ اور دکھ ناگزیر طور پر لوگوں کی قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں ۔ مذہب دنیا میں غربت اور بدحالی کو ایک مستقل بلکہ احترام کا مقام دینا چاہتا تھا وعدے وعید اور اجر دوسری دنیا اور آخرت سے وابستہ تھے، اس دنیا میں صبر اور شکر کے ساتھ تمام مصائب اور محرومیوں کو برداشت کرنے کا درس دیا جاتا تھا خیرات کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔ غریبوں میں بچا کھچا بانٹنا نیکی تصور کیاجاتا لیکن غربت کے خاتمے کے لیے کبھی کچھ سوچا نہ جاتا۔

آزادی اور مساوات کے تصورات چرچ اور معاشرے کی حاکمیت کے خلاف سمجھے جاتے تھے جمہوری نظرئیے کے ارتقا کا ایک ظاہری نتیجہ یہ نکلا کہ ہر آدمی کو مقتدر اسمبلی یا پارلیمنٹ کے ارکان منتخب کرنے کا حق یعنی ووٹ دینے کا اختیار مل گیا۔ ووٹ سیاسی قوت کی علامت تھا یہ باور کر لیاگیا کہ اگر ہر ایک کو ووٹ کا اختیار مل جاتا ہے تو اس طرح ہر ایک سیاسی قوت و اقتدار میں حصے دار بن جاتا ہے۔ ووٹ جدید دور کی سب سے بڑی طاقت کا نام ہے ۔

بقول لنکن ووٹ کی طاقت بندوق کی گولی سے زیادہ ہے۔ آج ووٹ انقلاب کا دوسرا نام ہے دنیا نے ووٹ کی طاقت کے ذریعے ہی ترقی اور خو شحالی کی منزلیں طے کی ہیں۔ ووٹ کا احترام دنیا میں مذہب کی طرح کیا جاتا ہے جب کہ ہماری سیاسی تاریخ میں ووٹ کی جتنی بے حرمتی کی گئی اس کی مثال آپ کو مشکل ہی سے ملے گی ۔ ووٹ زندگی ہے تو اس کی بے حرمتی خودکشی ہے اور ہم ایک دفعہ بنگلہ دیش کی صورت میں اجتماعی خود کشی کے مرتکب ہو چکے ہیں جب آپ ووٹ کی بے حرمتی کرتے ہیں تو آپ لاکھوں لوگوں کو ایک ساتھ ناامیدی کی قبر میں دفن کر رہے ہوتے ہیں۔

ووٹ کی بے حرمتی نے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی بڑھانے میں ایندھن کا کام کیا ظاہر ہے جب آپ لوگوں کے حق پر شب خون اور ڈاکا ماریں گے تو پھر لوگ مایوس ہوکر دوسری سمت دیکھنے پر مجبور ہونگے دوسری طرف جب مذہبی جماعتوں کو اس بات پر یقین ہوگیا کہ وہ کبھی بھی ووٹ کی طاقت کے ذریعے اقتدار میں نہیں آسکیں گے تو پھر انھوں نے لوگوں سے مایوس ہو کر دوسرا راستہ اختیار کر لیا اورجمہوریت کو برا بھلا کہنے لگ گئے اور اتنے غصے میں آگئے کہ اسے کفر کا نظام ہی کہنے لگ گئے اور وہی کھیل کھیلنا شروع کردیا جو کلیسا نے اٹھارویں صدی میں یورپ میں کھیلا تھا ۔

آج پاکستان میں واضح طور پر دو مختلف سوچیں اور مختلف نظریات الگ الگ سمت میں اپناکام کر رہے ہیں ایک سوچ وہ ہے جو ہمیں واپس اٹھارویں صدی میں لے جانا چاہتی ہے اور دوسری سوچ وہ ہے جس کی منزل وہ خوشحالی ترقی اور استحکام ہے جو بڑی جدوجہد کے بعد یورپ ، امریکا اوردیگر ممالک نے حاصل کیا۔ جہاں انسان آزاد ہے خوشحال ہے ہماری نجات ،خوشحالی اور ترقی کا انحصارخود ہماری سوچ،کوشش اور جدوجہد پر ہوتا ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم آیا واپس ماضی کی سمت سفر کرنا چاہتے ہیں یا آگے کی سمت سفر کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اصل مسئلہ ہی سوچ کا اور نظریے کا ہے ،اندھیرے کی سوچ اور نظریہ والے ہم سب پر جبراً اپنی سوچ اور نظریہ مسلط کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس سلسلے میں تشدد اور ہر حربے کو جائز سمجھتے ہیں وہ جنت کا وعدہ کر کے ہماری زندگی کو جہنم بنانا چاہتے ہیں ۔

فیصلہ خود ہم نے کرنا ہے کہ آیا ہم واپس اٹھارہویں صدی میں جانا چاہتے ہیں یا اپنے ملک کو ہی جنت بنانا چاہتے ہیں ۔ نپولین ہل کہتا ہے کہ انسان جو کچھ سوچ سکتا ہے ذہن وہ ہی کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ ایک نوجوان نے سقراط سے پو چھا کہ کامیابی کا رازکیا ہے۔ سقراط نے اسے کہا مجھے کل صبح دریا کے کنارے آکر ملنا اگلی صبح ان کی ملاقات ہوئی تو سقراط نے کہا آؤ میرے ساتھ دریا کی طرف چلو وہ چلتے چلتے دریا میں اتر گئے مگر آگے بڑھتے رہے جب پانی گردن تک پہنچا تو سقراط نے نوجوان کو پکڑکر اسے پانی میں غوطہ دے دیا ۔نوجوان نے اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی لیکن سقراط اس سے زیادہ طاقتور تھا اس لیے نوجوان کامیاب نہیں ہوا۔

سقراط نے اسے پانی میں ڈبوئے رکھا جب نوجوان کا حال خراب ہوگیا تو سقراط نے اسے پانی سے نکال لیا۔ نوجوان نے پانی سے سر نکالتے ہی منہ کھول کر لمبا سانس لیا۔ سقراط نے نوجوان سے پوچھا جب تم پانی کے نیچے تھے تو تمہیں سب سے زیادہ کس چیز کی خواہش تھی۔ نوجوان نے کہا ہوا کی ۔ سقراط نے کہا یہ ہی کامیابی کا راز ہے۔ جب تم کامیابی کی اس طرح شدید خواہش کرتے ہو جس طرح پانی میں ڈوبے ہوئے نوجوان نے ہوا کی خواہش کی تھی تب تم کامیاب ہوجاتے ہو۔ جس طرح تھوڑی سی آگ زیادہ حرارت نہیں دے سکتی اسی طرح کمزور خواہش عظیم نتائج کو جنم نہیں دے سکتی۔

خوشحالی، ترقی اور کامیابی ہماری سوچوں اور فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہیں، کامیابی اتفاقاً نہیں ملتی بلکہ یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ خدارا ماضی کے مزاروں سے نکل آؤ، مستقبل کے خیابانوں کی طرف دیکھو۔ انسان کی آنکھیں اس کے سر کے اگلے حصے میں ہوتی ہے پچھلے حصے میں نہیں گویا فطرت یہ چاہتی ہے کہ انسان پیچھے نہ دیکھے آگے کی طرف دیکھے۔ ہم پرانے زمانے کی رجعت اور قدامت پرست ، آمرانہ روایات سے آگے بڑھ چکے ہیں اب نئی سر زمینیں ہیں نئے لوگ ہیں اور نئے افکار ہیں تو آئیے ہم اٹھارویں صدی کی نقل کرنے یا ان کے نقش قدم پر چلنے سے انکار کر دیں ہم نئی دنیاؤں کو دیکھیں اور نئی روایتیں بنائیں دوسروں کے پیروکار اور چیلا بننے سے انکار کردیں اس کے بجائے اپنی دنیا خود بنائیں۔ یاد رکھو کہ ایک شخص کی نجی زندگی کو تاریخ کی کسی سلطنت سے زیادہ بلند مرتبہ اور نامور بنایا جاسکتا ہے۔

آپ جو بھی ہیں بس یہ جان لیجیے کہ اس ساری دنیا کا وجود آپ کے لیے ہے۔ آئیے نفرت ، تعصب ، غلامی کا پردہ تار تار کرڈالیں اپنے آپ کو منوائیے دوسروں سے الگ تھلگ ہوکر نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ مل کر جو کچھ آدم کے پاس تھا اور جو کچھ سیزر کر سکتا تھا وہ آپ کے پاس ہے اور آپ بھی وہ سب کچھ کر سکتے ہیں، ذہن کی زنجیریں توڑ دیں اپنے ذہن کو آزاد کریں اور اپنے آپ کو جانیں اس انسان کے طور پر جو آپ بن سکتے ہیں جو آپ کا مقدر ہے انسان کے پاس امکانات بے پناہ ہیں ان کی کوئی حد نہیں ہے پھر آپ نے کیوں خود پر بے بسی طاری کر رکھی ہے۔

اپنے امکانات کو کیوں زنجیروں میں باندھ رکھا ہے ۔ یہ بے معنی زنجیریں ہیں آپ جب چاہیں ان کو توڑ سکتے ہیں یہ زندگی آپ کی ہے اپنے بارے میں فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے نہ کہ مٹھی بھر افراد نے ۔ آئیں مٹھی بھر افراد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔ اور انہیں بتا دیں ہماری زندگیوں کا فیصلہ آپ نہیں بلکہ ہم خود کریں گے پھر دیکھیں خوشحال ، ترقی، آزادی کس طرح چپکے سے آپ کے گھر میں داخل ہوجاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں