گھر کی بہو
خدارا!! رشتے کی تلا ش کے نام پر کسی لڑکی کے ساتھ قربانی کے جانور جیسا سلوک تو نہ کرو۔
صرف زبان سے کہہ دینے سے کیا ہوتا ہے صاحب!!، کرنے والے تو وہی کرتے ہیں جو ہمارے ہاں بقرعید پر ہوا کرتا ہے ۔۔۔ یاد نہیں ۔۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے بقرعید کے مو قع پر قربانی کے جانورکی کیسے تلاش ہورہی تھی؟؟
دن ڈھلتے ہی پہلے سے منتظر بچوں کا ہاتھ پکڑا اور چل دیئے مویشی منڈی اور شروع کی اپنے پسند کے اور رینج کے مطابق جانورکی تلاش ۔۔۔ اب یہاں سے ایک نئی کہانی شروع ہوتی ہے ۔۔۔ ابھی چند قدم چلے کہ بچے نے ہاتھ کھینچا ۔۔۔ بابا اس'کاؤ' کا کلر اچھا نہیں ہے، اِدھر چلیں، وہاں کیوٹ سی ہیں۔ اتنے میں دوسرا بچہ سامنے آکر بتاتا ہے کہ اس کے ایک اسکول فرینڈ کے ابو قربانی کا جانور لائے ہیں بیوٹی فل، سفید رنگ۔ پھر وہ ان کی خصوصیات گنوانا شروع کردیتا ہے اور ضد کرتا ہے کہ ایسی ہی گائے لی جائے۔ بچے کی فرمائش اپنی جگہ مگر گھر والوں کی مجبوری اپنی جگہ اور شاید اِسی لیے اِدھر گھر کے سربراہ پریشان کہ کیا کریں، کیا نہ کریں؟؟
خیر، یہ تو رہا بقرعید کا معاملہ۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ سوسائٹی میں یہی حرکت، یہی رویہ، یہی انداز، یہی سوچ زندگی کے اہم ترین مرحلے، فیصلے ۔۔ یعنی رشتے کی تلاش کے موقع پر بھی ہوتی ہے؟
دیکھا نہیں!! اماں اپنے لئے بہو اور بہنیں بھابھی کی تلاش کے لئے کس طرح مختلف اسٹینڈرڈز کی دوربین، خورد بین سے مسلح ہوکر گھر سے نکلتے ہیں۔ کبھی کسی یہاں چائے سے جی بہلانے اور کبھی کسی کے پاس پیٹ کو حلق تک بھرنے بعد لڑکی کو دیکھنے کی غرض سے نگاہوں میں ایسا تولا، ناپا اور جائزہ لیا جاتا ہے کہ شرم کو بھی پسینہ آجائے۔
لگتا ہے نیا خاندان آباد کرنے کے لئے ایک لڑکی نہیں قربانی کی گائے پسند کی جارہی ہے۔ اس کا قد چھوٹا تھا، اُس کا رنگ پکا تھا، اس کی چال میں یہ مسئلہ تھا، بالوں میں یہ مسئلہ تھا، ہنستے ہوئے دانت نظر آتے تھے، اماں کو لڑکی کی ناک پچکی ہوئی معلوم ہوتی ہے، بہنوں کو اس کے ہونٹ موٹے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مرحلہ مکمل ہونے بعد خاندان کے دیگر لوگ اس لڑکی کا جیتے جی پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔ اس کے نام، کام، بال، چال، ڈھال، ناک نقشہ کا خوب جائزہ لیتے ہیں اور ۔۔۔۔۔ اور آخر میں خاموشی سے ٹھینگا دکھا دیتے ہیں۔
اس ساری ایکسرسائز کے دوران ان میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ خدارا!! رشتے کی تلا ش کے نام پر کسی لڑکی کے ساتھ قربانی کے جانور جیسا سلوک تو نہ کرو، پسند نا پسند اپنی جگہ لیکن کسی کی عزت کا اس طرح تو تماشہ نہ بناؤ۔۔ یہ گھر کی بہو ڈھو نڈرہے ہویا ؟؟؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
دن ڈھلتے ہی پہلے سے منتظر بچوں کا ہاتھ پکڑا اور چل دیئے مویشی منڈی اور شروع کی اپنے پسند کے اور رینج کے مطابق جانورکی تلاش ۔۔۔ اب یہاں سے ایک نئی کہانی شروع ہوتی ہے ۔۔۔ ابھی چند قدم چلے کہ بچے نے ہاتھ کھینچا ۔۔۔ بابا اس'کاؤ' کا کلر اچھا نہیں ہے، اِدھر چلیں، وہاں کیوٹ سی ہیں۔ اتنے میں دوسرا بچہ سامنے آکر بتاتا ہے کہ اس کے ایک اسکول فرینڈ کے ابو قربانی کا جانور لائے ہیں بیوٹی فل، سفید رنگ۔ پھر وہ ان کی خصوصیات گنوانا شروع کردیتا ہے اور ضد کرتا ہے کہ ایسی ہی گائے لی جائے۔ بچے کی فرمائش اپنی جگہ مگر گھر والوں کی مجبوری اپنی جگہ اور شاید اِسی لیے اِدھر گھر کے سربراہ پریشان کہ کیا کریں، کیا نہ کریں؟؟
خیر، یہ تو رہا بقرعید کا معاملہ۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ سوسائٹی میں یہی حرکت، یہی رویہ، یہی انداز، یہی سوچ زندگی کے اہم ترین مرحلے، فیصلے ۔۔ یعنی رشتے کی تلاش کے موقع پر بھی ہوتی ہے؟
دیکھا نہیں!! اماں اپنے لئے بہو اور بہنیں بھابھی کی تلاش کے لئے کس طرح مختلف اسٹینڈرڈز کی دوربین، خورد بین سے مسلح ہوکر گھر سے نکلتے ہیں۔ کبھی کسی یہاں چائے سے جی بہلانے اور کبھی کسی کے پاس پیٹ کو حلق تک بھرنے بعد لڑکی کو دیکھنے کی غرض سے نگاہوں میں ایسا تولا، ناپا اور جائزہ لیا جاتا ہے کہ شرم کو بھی پسینہ آجائے۔
لگتا ہے نیا خاندان آباد کرنے کے لئے ایک لڑکی نہیں قربانی کی گائے پسند کی جارہی ہے۔ اس کا قد چھوٹا تھا، اُس کا رنگ پکا تھا، اس کی چال میں یہ مسئلہ تھا، بالوں میں یہ مسئلہ تھا، ہنستے ہوئے دانت نظر آتے تھے، اماں کو لڑکی کی ناک پچکی ہوئی معلوم ہوتی ہے، بہنوں کو اس کے ہونٹ موٹے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مرحلہ مکمل ہونے بعد خاندان کے دیگر لوگ اس لڑکی کا جیتے جی پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔ اس کے نام، کام، بال، چال، ڈھال، ناک نقشہ کا خوب جائزہ لیتے ہیں اور ۔۔۔۔۔ اور آخر میں خاموشی سے ٹھینگا دکھا دیتے ہیں۔
اس ساری ایکسرسائز کے دوران ان میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ خدارا!! رشتے کی تلا ش کے نام پر کسی لڑکی کے ساتھ قربانی کے جانور جیسا سلوک تو نہ کرو، پسند نا پسند اپنی جگہ لیکن کسی کی عزت کا اس طرح تو تماشہ نہ بناؤ۔۔ یہ گھر کی بہو ڈھو نڈرہے ہویا ؟؟؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔