شہید چوک
دیکھ لیں ہماری جیت سےمخالف پارٹی کن اوچھے ہتھکنڈوں پر اُترآئی ہے کہ ہماری پارٹی کے کارکنوں کوٹارگٹ کرنا شروع کردیا ہے۔
لاہور:
مجھے ہسپتال کے اس مردہ خانے میں پڑے ہوئے 9 گھنٹوں سے اوپر ہوچکے تھے۔ اس دوران ابتک میرے علاوہ یہاں چار لوگوں کو اور لاکر ڈالا جاچکا تھا۔ ہم اس وقت جہاں پڑے تھے یہ شہر کا ایک بڑا خیراتی ہسپتال تھا، ہسپتال جتنا بڑا تھا وہاں کے عملے کی حرکتیں اتنی ہی چھوٹی لگ رہی تھیں۔
جب مجھے لایا گیا تو دو گھنٹے تک تو میں بھی ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے اسٹریچر پر پڑا تھا جہاں مریضوں کی چیخ و پکار اور مرنے والوں کے ورثاء کا رونا پیٹنا میری سماعت پر ہتھوڑوں کی طرح برس رہا تھا۔ ابھی نجانے مجھے کتنی دیر اور اس اذیت سے گذرنا پڑتا کہ اللہ بھلا کرے ایک وارڈ بوائے کا جسے پتہ نہیں مجھ پر رحم آیا تھا یا اسٹریچر کو خالی کرنے کا خیال کہ وہ مجھے لا کر یہاں مردہ خانے میں رکھ گیا۔
مگر یہاں بھی ہر تھوڑی دیر بعد جب کسی مردے کی شناخت کے لئے اُس کے گھر والوں یا عزیزوں میں سے کوئی آتا تو کپکپاتے ہاتھوں سے اس کے چہرے پر پڑی ہوئی چادر ہٹاتے تو مطلوبہ شخص نہ ہونے کے باعث اُن کے چہرے پر جو ایک اطمینان اور خوشی سی ہوتی تھی وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس بات سے بے خبر کہ شاید اگلے آنے والوں کے چہروں پر چادر ہٹانے کے بعد یہ اطمینان نہ ہو!
ابتک تین لوگ یہاں سے رخصت لے چکے تھے اور اُن کی شناخت کا مرحلہ مکمل ہونے پر جو آنے والوں نے چیخ و پکار کا طوفان اُٹھایا تھا کہ میرا بے حس دل بھی کانپ اُٹھا تھا اور اب میں پڑا ہوا سوچ رہا تھا کہ میری شناخت کو تو یہاں کوئی نہیں آئے گا پھر میرے ساتھ کیا ہوگا؟ دور خیرپور میں بیٹھی میری ماں اور چھوٹی بہن کو تو پتہ بھی نہیں ہوگا کہ مجھ پر کیا قیامت گزرچکی ہے۔
میں گذشتہ ایک سال سے کراچی میں ملازمت کررہا تھا اور میری ماں اور چھوٹی بہن وہیں خیر پور میں تھیں ملازمت اچھی تھی مگر اتنی اچھی بھی نہیں کہ میں اپنی ماں اور بہن کو بُلا کر اپنے ساتھ یہاں شہر میں رکھتا۔ بابا کے انتقال کو تو ایک عرصہ ہوچکا تھا جب میں سات سال کا تھا اور چھوٹی بہن تین سال کی تھی۔ بابا فوج میں تھے اور ہر فوجی کی طرح شہادت کا جذبہ رکھتے تھے اور یہی جذبہ اماں کا تھا کہ ایک شہید کی بیوہ کہلاؤں۔ مگر بابا چھٹیوں پر آئے ہوئے تھے جب بنا کسی محاذ کے اپنی خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئےاور اماں اُسی دشمنی سے فرار کی خاطر یہاں اپنے گاؤں خیرپور میں آکر رہنے لگیں۔
یہاں لوگوں کے کپڑے سی سی کر انھوں نے ہم دونوں بہن بھائیوں کو پڑھایا۔ اماں کی بڑی خواہش تھی کہ میں بھی بابا کی طرح فوج میں جاؤں شہید کی بیوہ تو نہ بن سکیں شاید اپنے اُسی خواب کی تکمیل کی صورت انھیں مجھ میں نظر آتی تھی۔ مگر حالات ایسے نہیں تھے لہذا میٹرک کے بعد میں نے چھوٹی کلاسوں کے بچوں کو ٹیوشن دینا شروع کیں اور اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ گریجویشن ہونے کے بعد ہی اپنے ماموں کے جاننے والے کے توسط سے برسر روزگار بھی ہوگیا۔ بس تب سے ہی میں کراچی میں تھا دو تین مہینے میں گاؤں کا بھی چکر لگا لیتا تھا۔
اچانک دروازہ کھلا میری سوچ کا سلسلہ ٹوٹ گیا آنے والوں کی قدموں کو سُن کر ہی میں سمجھ گیا اب ایک بار پھر شناخت پریڈ شروع ہوگی اور واپس اپنے خیالوں سے جُڑگیا۔
کل رات ساتھ کام کرنے والے دوست کی بہن کی شادی تھی اور اُس کے بے حد اصرار پر نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اورنگی ٹاؤن جانا پڑا تھا۔ رات زیادہ ہونے پر اُس نے مجھے بہت روکنے کی کوشش کی مگر اُس کے مہمانوں سے بھرے گھر کو دیکھ کر میں نے رخصت کو ہی ترجیح دی۔ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ یوں رخصت ہونا میری زندگی کا سبب بن جائے گا تو میں کبھی اُس کے گھر سے نکلتا ہی نہیں ۔
میں کسی رکشہ بس کے چکر میں اسٹاپ کی طرف جارہا تھا کہ اچانک شدید فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں، ایک تو رات کا پہر جس کی وجہ سے سڑکوں پر ویسے ہی سناٹا، ایک دو لوگ جو کہیں نظر آرہے تھے فائرنگ کی آواز کے ساتھ وہ بھی غائب ہوچکے تھے۔ میں نے گھبرا کر چھپنے کے لئے اپنے ارد گرد نظریں دوڑائیں تو سامنے ہی بند دکانوں میں سے ایک دکان کے باہر ایک تخت سا رکھا تھا میں جلدی سے اُس کے ہی نیچے گھس گیا مگر فائرنگ تھی کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میں اس خیال سے کہ کسی زیادہ محفوظ مقام کی طرف جاؤں وہاں سے نکل کر تھوڑی دور ہی چلا تھا کہ مجھے اپنے سر میں کوئی لوہے کی سی جلتی سلاخ گھستی محسوس ہوئی اور میں وہیں گرگیا اور اب میں یہاں بطور لاوارث رکھا ہوا تھا کیونکہ میری جیب سے نہ میرا بٹوہ نکلا تھا جس میں میرا شناختی کارڈ تھا نہ میرا موبائل جس وقت میرا جسم وہاں بے یارومددگار پڑا تھا تو شاید میری جیب کا یہ سامان کسی کی مدد کا سامان بن گیا تھا!
دروازہ ایک بار پھر کھلا اوردو آدمیوں کے ساتھ ہسپتال کا کوئی بندہ داخل ہوا اور ہمراہ آنے والے دو آدمیوں سے مخاطب ہوکر بولا جناب کل آنے والی لاشوں میں صرف تین لاشیں ہی ایسی ہیں جن کے ساتھ کوئی ایسی شے نہیں ملی جس کے تحت ان کی شناخت کی جاسکی، آپ دیکھ لیں۔ یہاں تیسرا تو میں تھا میں نے یہ سوچ کر شکربھرا کہ چلو باقی دو میں سے کم از کم کوئی ایک تو شناخت ہوکر رخصت ہوگا!
آنے والے دونوں آدمیوں نے باری باری جاکر اُن دو لوگوں کے مُنہ سے چادر اُٹھا کر دیکھی اور نفی میں سر ہلاتے ہوئے میری جانب بڑھے اور میں سوچ رہا تھا ابھی یہ مجھے بھی دیکھ کر مایوس ہی ہوں گے۔ آنے والے دونوں آدمیوں سے ایک نے میرے چہرے سے چادر اُٹھائی اور پھر اُس کے منہ سے ایک چیخ بُلند ہوئی اور وہ دھاڑیں مارتا ہوا میرے سینے سے لپٹ گیا۔ میرے فیاض بھائی میرے فیاض بھائی کہہ کر بین کرنے لگا۔ اُس کی دیکھا دیکھی دوسرا آدمی بھی قریب آکر رونے لگا اور میں سوچ رہا تھا الہی آخر یہ ماجرا کیا ہے؟
میں نے تو آج سے پہلے یہ دونوں چہرے دیکھے بھی نہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہسپتال کی کارروائیوں سے نمٹنے کے بعد ایمبولینس میں مجھے رکھے نجانے کہاں جارہے ہیں۔ ایمبولینس میں وہ دونوں ہی خاموش تھے تو میں کوئی اندازہ کرنے سے بھی قاصر تھا کہ اُن کا ارادہ کیا ہے۔ آخر کار ایک بڑے سے بنگلے پر جاکر ایمبولینس رکی اور مجھے جلدی سے اُتار کر ایک کمرے میں منتقل کردیا گیا۔ تھوڑی دیر میں ہی اُن دو آدمیوں کے ساتھ جو مجھے یہاں تک لائے تھے تیسرا شخص بھی اندر داخل ہوا تو اُس کی آواز آئی ۔۔ بندہ تو اچھی طرح دیکھ لیا ہے نا؟
تو اُن دونوں میں سے ایک بولا سرکار فکر ہی نہ کریں وہاں تین لاوارث لاشوں میں یہ کم عمر بھی تھا اور پڑھالکھا شخص لگ رہا ہے، اُن تینوں میں سے بڑی سوچ سمجھ کر ہی ہم نے اسے منتخب کیا۔ اُس تیسرے شخص نے آکر میرے چہرے سے کپڑ اہٹا کر دیکھا تو مجھے دیکھ کر اطمینان کی مسکراہٹ اُس کے چہرے پر آئی وہ اطمینان کی مسکراہٹ جو اُس وقت ابھرتی ہے جب مرنے والا اپنا نہ ہو!
پھر اُسی تیسرے شخص کی آواز اُبھری ٹھیک ہے تم اخبار والوں کو فون کرو اورسب کو یہاں بلالو اور اُس سے قبل اس کو باہر لان میں چارپائی پر رکھ دو۔ آدھے گھنٹے بعد ہی پتہ نہیں کس کس اخبار اور ٹی وی کے نمائندے وہاں موجود تھے اور وہی تیسرا شخص جس کی آواز اب آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی اخباراور ٹی والوں کو بیان دے رہا تھا۔ دیکھ لیں ہماری جیت سے مخالف پارٹی کن اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی ہے کہ اب ہماری پارٹی کے سرگرم کارکنوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ فیاض بھائی جو آپ کے سامنے پڑے ہیں۔ انتہائی پڑھے لکھے ہماری جماعت کے سرگرم کارکن تھے جن کو کل رات موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ جہاں تک ہو اس خبر کو لوگوں کے سامنے لائیں اور مخالف جماعت کا اصل چہرہ عوام کے سامنے رکھیں!
کچھ دیر بعد وہاں سے تمام مجمع چھٹ گیا اب وہاں اُسی جماعت کے لوگ تھے تھوڑی دیر میں ہی جن کا میں سرگرم کارکن بن گیا تھا گو کہ اس وقت ٹھنڈا پڑا تھا! ایک آدمی نے اُس شخص سے میرے متعلق پوچھا جس کو ابتک سب سرکار بول رہے تھے۔ سرکار اب اس کا کیا کریں؟
تو وہ جھنجھلاتے ہوئے بولا کیا کرنا ہے کیا مطلب ؟
گذشتہ دنوں ایسے ہی کسی لاوارث کو لاکر یاد ہے نا مخالف جماعت نے ہم پر کیسے کیچڑ اُچھالی تھی وہی سب اب ہم کریں گے۔ اس کی تدفین کرواؤ اور ہمارے علاقوں میں سے کسی بھی علاقے میں اس کے نام سے ایک شہید چوک بنواؤ تاکہ ہماری گنتی کی چوکوں میں ایک اور کا اضافہ ہو!
یہ سنتے ہی میری خوشی کا تو عالم ہی نہیں رہا اب نہ صرف قبر ملنے کی صورت میں میرا یہ تمام تماشہ ختم ہونے والا تھا بلکہ میرے وجود کے طفیل ایک شہید چوک بھی بن رہی تھی ۔۔۔ اور میں سوچ رہا تھا کاش آج اماں یہاں ہوتیں تو دیکھتیں کہ اُن کے بیٹے نے بناء فوج میں گئے ہی شہید کا لقب کما لیا ہے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مجھے ہسپتال کے اس مردہ خانے میں پڑے ہوئے 9 گھنٹوں سے اوپر ہوچکے تھے۔ اس دوران ابتک میرے علاوہ یہاں چار لوگوں کو اور لاکر ڈالا جاچکا تھا۔ ہم اس وقت جہاں پڑے تھے یہ شہر کا ایک بڑا خیراتی ہسپتال تھا، ہسپتال جتنا بڑا تھا وہاں کے عملے کی حرکتیں اتنی ہی چھوٹی لگ رہی تھیں۔
جب مجھے لایا گیا تو دو گھنٹے تک تو میں بھی ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے اسٹریچر پر پڑا تھا جہاں مریضوں کی چیخ و پکار اور مرنے والوں کے ورثاء کا رونا پیٹنا میری سماعت پر ہتھوڑوں کی طرح برس رہا تھا۔ ابھی نجانے مجھے کتنی دیر اور اس اذیت سے گذرنا پڑتا کہ اللہ بھلا کرے ایک وارڈ بوائے کا جسے پتہ نہیں مجھ پر رحم آیا تھا یا اسٹریچر کو خالی کرنے کا خیال کہ وہ مجھے لا کر یہاں مردہ خانے میں رکھ گیا۔
مگر یہاں بھی ہر تھوڑی دیر بعد جب کسی مردے کی شناخت کے لئے اُس کے گھر والوں یا عزیزوں میں سے کوئی آتا تو کپکپاتے ہاتھوں سے اس کے چہرے پر پڑی ہوئی چادر ہٹاتے تو مطلوبہ شخص نہ ہونے کے باعث اُن کے چہرے پر جو ایک اطمینان اور خوشی سی ہوتی تھی وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس بات سے بے خبر کہ شاید اگلے آنے والوں کے چہروں پر چادر ہٹانے کے بعد یہ اطمینان نہ ہو!
ابتک تین لوگ یہاں سے رخصت لے چکے تھے اور اُن کی شناخت کا مرحلہ مکمل ہونے پر جو آنے والوں نے چیخ و پکار کا طوفان اُٹھایا تھا کہ میرا بے حس دل بھی کانپ اُٹھا تھا اور اب میں پڑا ہوا سوچ رہا تھا کہ میری شناخت کو تو یہاں کوئی نہیں آئے گا پھر میرے ساتھ کیا ہوگا؟ دور خیرپور میں بیٹھی میری ماں اور چھوٹی بہن کو تو پتہ بھی نہیں ہوگا کہ مجھ پر کیا قیامت گزرچکی ہے۔
میں گذشتہ ایک سال سے کراچی میں ملازمت کررہا تھا اور میری ماں اور چھوٹی بہن وہیں خیر پور میں تھیں ملازمت اچھی تھی مگر اتنی اچھی بھی نہیں کہ میں اپنی ماں اور بہن کو بُلا کر اپنے ساتھ یہاں شہر میں رکھتا۔ بابا کے انتقال کو تو ایک عرصہ ہوچکا تھا جب میں سات سال کا تھا اور چھوٹی بہن تین سال کی تھی۔ بابا فوج میں تھے اور ہر فوجی کی طرح شہادت کا جذبہ رکھتے تھے اور یہی جذبہ اماں کا تھا کہ ایک شہید کی بیوہ کہلاؤں۔ مگر بابا چھٹیوں پر آئے ہوئے تھے جب بنا کسی محاذ کے اپنی خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئےاور اماں اُسی دشمنی سے فرار کی خاطر یہاں اپنے گاؤں خیرپور میں آکر رہنے لگیں۔
یہاں لوگوں کے کپڑے سی سی کر انھوں نے ہم دونوں بہن بھائیوں کو پڑھایا۔ اماں کی بڑی خواہش تھی کہ میں بھی بابا کی طرح فوج میں جاؤں شہید کی بیوہ تو نہ بن سکیں شاید اپنے اُسی خواب کی تکمیل کی صورت انھیں مجھ میں نظر آتی تھی۔ مگر حالات ایسے نہیں تھے لہذا میٹرک کے بعد میں نے چھوٹی کلاسوں کے بچوں کو ٹیوشن دینا شروع کیں اور اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ گریجویشن ہونے کے بعد ہی اپنے ماموں کے جاننے والے کے توسط سے برسر روزگار بھی ہوگیا۔ بس تب سے ہی میں کراچی میں تھا دو تین مہینے میں گاؤں کا بھی چکر لگا لیتا تھا۔
اچانک دروازہ کھلا میری سوچ کا سلسلہ ٹوٹ گیا آنے والوں کی قدموں کو سُن کر ہی میں سمجھ گیا اب ایک بار پھر شناخت پریڈ شروع ہوگی اور واپس اپنے خیالوں سے جُڑگیا۔
کل رات ساتھ کام کرنے والے دوست کی بہن کی شادی تھی اور اُس کے بے حد اصرار پر نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اورنگی ٹاؤن جانا پڑا تھا۔ رات زیادہ ہونے پر اُس نے مجھے بہت روکنے کی کوشش کی مگر اُس کے مہمانوں سے بھرے گھر کو دیکھ کر میں نے رخصت کو ہی ترجیح دی۔ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ یوں رخصت ہونا میری زندگی کا سبب بن جائے گا تو میں کبھی اُس کے گھر سے نکلتا ہی نہیں ۔
میں کسی رکشہ بس کے چکر میں اسٹاپ کی طرف جارہا تھا کہ اچانک شدید فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں، ایک تو رات کا پہر جس کی وجہ سے سڑکوں پر ویسے ہی سناٹا، ایک دو لوگ جو کہیں نظر آرہے تھے فائرنگ کی آواز کے ساتھ وہ بھی غائب ہوچکے تھے۔ میں نے گھبرا کر چھپنے کے لئے اپنے ارد گرد نظریں دوڑائیں تو سامنے ہی بند دکانوں میں سے ایک دکان کے باہر ایک تخت سا رکھا تھا میں جلدی سے اُس کے ہی نیچے گھس گیا مگر فائرنگ تھی کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میں اس خیال سے کہ کسی زیادہ محفوظ مقام کی طرف جاؤں وہاں سے نکل کر تھوڑی دور ہی چلا تھا کہ مجھے اپنے سر میں کوئی لوہے کی سی جلتی سلاخ گھستی محسوس ہوئی اور میں وہیں گرگیا اور اب میں یہاں بطور لاوارث رکھا ہوا تھا کیونکہ میری جیب سے نہ میرا بٹوہ نکلا تھا جس میں میرا شناختی کارڈ تھا نہ میرا موبائل جس وقت میرا جسم وہاں بے یارومددگار پڑا تھا تو شاید میری جیب کا یہ سامان کسی کی مدد کا سامان بن گیا تھا!
دروازہ ایک بار پھر کھلا اوردو آدمیوں کے ساتھ ہسپتال کا کوئی بندہ داخل ہوا اور ہمراہ آنے والے دو آدمیوں سے مخاطب ہوکر بولا جناب کل آنے والی لاشوں میں صرف تین لاشیں ہی ایسی ہیں جن کے ساتھ کوئی ایسی شے نہیں ملی جس کے تحت ان کی شناخت کی جاسکی، آپ دیکھ لیں۔ یہاں تیسرا تو میں تھا میں نے یہ سوچ کر شکربھرا کہ چلو باقی دو میں سے کم از کم کوئی ایک تو شناخت ہوکر رخصت ہوگا!
آنے والے دونوں آدمیوں نے باری باری جاکر اُن دو لوگوں کے مُنہ سے چادر اُٹھا کر دیکھی اور نفی میں سر ہلاتے ہوئے میری جانب بڑھے اور میں سوچ رہا تھا ابھی یہ مجھے بھی دیکھ کر مایوس ہی ہوں گے۔ آنے والے دونوں آدمیوں سے ایک نے میرے چہرے سے چادر اُٹھائی اور پھر اُس کے منہ سے ایک چیخ بُلند ہوئی اور وہ دھاڑیں مارتا ہوا میرے سینے سے لپٹ گیا۔ میرے فیاض بھائی میرے فیاض بھائی کہہ کر بین کرنے لگا۔ اُس کی دیکھا دیکھی دوسرا آدمی بھی قریب آکر رونے لگا اور میں سوچ رہا تھا الہی آخر یہ ماجرا کیا ہے؟
میں نے تو آج سے پہلے یہ دونوں چہرے دیکھے بھی نہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہسپتال کی کارروائیوں سے نمٹنے کے بعد ایمبولینس میں مجھے رکھے نجانے کہاں جارہے ہیں۔ ایمبولینس میں وہ دونوں ہی خاموش تھے تو میں کوئی اندازہ کرنے سے بھی قاصر تھا کہ اُن کا ارادہ کیا ہے۔ آخر کار ایک بڑے سے بنگلے پر جاکر ایمبولینس رکی اور مجھے جلدی سے اُتار کر ایک کمرے میں منتقل کردیا گیا۔ تھوڑی دیر میں ہی اُن دو آدمیوں کے ساتھ جو مجھے یہاں تک لائے تھے تیسرا شخص بھی اندر داخل ہوا تو اُس کی آواز آئی ۔۔ بندہ تو اچھی طرح دیکھ لیا ہے نا؟
تو اُن دونوں میں سے ایک بولا سرکار فکر ہی نہ کریں وہاں تین لاوارث لاشوں میں یہ کم عمر بھی تھا اور پڑھالکھا شخص لگ رہا ہے، اُن تینوں میں سے بڑی سوچ سمجھ کر ہی ہم نے اسے منتخب کیا۔ اُس تیسرے شخص نے آکر میرے چہرے سے کپڑ اہٹا کر دیکھا تو مجھے دیکھ کر اطمینان کی مسکراہٹ اُس کے چہرے پر آئی وہ اطمینان کی مسکراہٹ جو اُس وقت ابھرتی ہے جب مرنے والا اپنا نہ ہو!
پھر اُسی تیسرے شخص کی آواز اُبھری ٹھیک ہے تم اخبار والوں کو فون کرو اورسب کو یہاں بلالو اور اُس سے قبل اس کو باہر لان میں چارپائی پر رکھ دو۔ آدھے گھنٹے بعد ہی پتہ نہیں کس کس اخبار اور ٹی وی کے نمائندے وہاں موجود تھے اور وہی تیسرا شخص جس کی آواز اب آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی اخباراور ٹی والوں کو بیان دے رہا تھا۔ دیکھ لیں ہماری جیت سے مخالف پارٹی کن اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی ہے کہ اب ہماری پارٹی کے سرگرم کارکنوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ فیاض بھائی جو آپ کے سامنے پڑے ہیں۔ انتہائی پڑھے لکھے ہماری جماعت کے سرگرم کارکن تھے جن کو کل رات موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ جہاں تک ہو اس خبر کو لوگوں کے سامنے لائیں اور مخالف جماعت کا اصل چہرہ عوام کے سامنے رکھیں!
کچھ دیر بعد وہاں سے تمام مجمع چھٹ گیا اب وہاں اُسی جماعت کے لوگ تھے تھوڑی دیر میں ہی جن کا میں سرگرم کارکن بن گیا تھا گو کہ اس وقت ٹھنڈا پڑا تھا! ایک آدمی نے اُس شخص سے میرے متعلق پوچھا جس کو ابتک سب سرکار بول رہے تھے۔ سرکار اب اس کا کیا کریں؟
تو وہ جھنجھلاتے ہوئے بولا کیا کرنا ہے کیا مطلب ؟
گذشتہ دنوں ایسے ہی کسی لاوارث کو لاکر یاد ہے نا مخالف جماعت نے ہم پر کیسے کیچڑ اُچھالی تھی وہی سب اب ہم کریں گے۔ اس کی تدفین کرواؤ اور ہمارے علاقوں میں سے کسی بھی علاقے میں اس کے نام سے ایک شہید چوک بنواؤ تاکہ ہماری گنتی کی چوکوں میں ایک اور کا اضافہ ہو!
یہ سنتے ہی میری خوشی کا تو عالم ہی نہیں رہا اب نہ صرف قبر ملنے کی صورت میں میرا یہ تمام تماشہ ختم ہونے والا تھا بلکہ میرے وجود کے طفیل ایک شہید چوک بھی بن رہی تھی ۔۔۔ اور میں سوچ رہا تھا کاش آج اماں یہاں ہوتیں تو دیکھتیں کہ اُن کے بیٹے نے بناء فوج میں گئے ہی شہید کا لقب کما لیا ہے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔