دیکھا ایران میں سندھ
روزگار ملنے کی دوسری وجہ یہ مزدور بتاتے ہیں کہ ”ایرانی کام چور ہیں، اس لیے کام پر دوسروں کو رکھا جاتا ہے۔“
اپنے ہم راہی کا انکشاف مجھے مسرت میں لپٹی حیرت سے دوچار کرگیا۔ میں سندھ کا رہواسی، تنگ نظری کے اندھے کنوئیں سے آتی یہ "ٹرٹرٹر" سُن سُن کر عاجز آچکا تھا،"سندھی کاہل ہوتے ہیں، homesickness ایسی کہ اپنا گاوں چھوڑنے کو بھی تیار نہیں، دریا پار جانے کا تو ان کے ہاں تصور ہی ناپید ہے۔ لیکن آج یہ سارے الزامات ایران کی خاک چاٹ رہے تھے۔
شیرمحمد کھاوڑ کے سندھڑی آم سے میٹھے مہکتے لہجے میں یہ انکشاف سنتے ہی میں ان "تہرانی سندھیوں" سے ملنے کے لیے بے تاب ہوگیا۔ سفرایران کے سارے لطف پر یہ ایک حیرت بھاری تھی۔ جب ایران میں انقلاب برپا کرنے والے آیت اﷲ خمینی کی برسی کی تقریب میں شرکت کے لیے خانہ فرہنگ نے میرے نام کو بھی اپنی فہرست میں جگہ دی تو وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہاں ایک سوندھی خوشی اجرک اوڑھے میری منتظر ہے۔
تہران کے کوثرہوٹل پہنچ کر ہم پاکستانی مختلف گروپوں میں تقسیم ہوگئے۔ میں شیرمحمد کھاوڑ، سراج احمد اور انعام شیخ کی ٹولی کا چوتھا رکن تھا۔ شیرمحمد کھاوڑ اور سراج احمد جیسے سنیئر صحافیوں اور انعام شیخ جیسے دانشور کی سنگت کے وہ دن ہمیشہ یاد رہیں گے۔ شاید ہمارے قیام کا تیسرا دن تھا جب ہم نے تہران کے مضافات کی راہ لی، جہاں ایک ننھا مُنا سا سندھ یا چھوٹا سا پاکستان آباد تھا۔
کوئی سوا گھنٹے کی مسافت کے بعد منزل آگئی۔ جینز کی پینٹس بنانے کا ایک کارخانہ، جس کی مشینوں کو چلاتے، کپڑے کو رنگتے اور لباس کا روپ دیتے چالیس کے قریب سارے کے سارے مزدور سندھی۔ ہم فیکٹری کے اونچے دروازے سے گزر کر ایک بڑے سے ہال میں پہنچے جو اس فیکٹری میں کام کرنے والوں کی اوطاق بھی تھی اور خواب گاہ بھی۔
ہمیں دیکھ کر ہر چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا اور بازو کھل گئے۔ وسیع کمرے میں سندھی لفظوں کی خوشبو مہک رہی تھی، رعونت زدہ فارسی سُن سُن کر بوجھل ہوجانے والی طبعیت بحال ہوگئی۔ زمین پر بچھی رِلّی اور فضا میں گھلی سوندھی میٹھی سندھی میں بھول ہی گیا کہ پردیس میں ہوں۔
ایرانی مالک کی یہ کارگاہ ان مزدوروں کی جائے روزگار بھی ہے اور رہائش گاہ بھی، جہاں اس وسیع وعریض ہال سمیت جس میں ہم بیٹھے تھے، رہائش کے لیے دو اور کمرے بھی ہیں اور اس بستی کا سربراہ ہے مظفرعلی۔
مظفر علی اس کارخانے کا پہلا پاکستانی مزدور تھا۔ یہاں کام کرتے دیگر مزدوروں نے اسی کے ذریعے اس کارخانے سے ناتا جوڑا، بل کہ وہ مظفر علی ہی کی دعوت پر ایران آئے۔ مظفر صرف اس کارگاہ کے مزدوروں کے نگہبان نہیں، بلکہ وہ ایران میں روزی روٹی کمانے کے لیے آنے والے سندھ کے تمام محنت کشوں کا مددگار ہے۔ روزگار کی تلاش میں ایران آنے والے سندھی اس سے رابطہ کرتے ہیں اور پھر وہ انھیں کسی کام پر لگانے کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ جس وقت ہم وہاں موجود تھے اس وقت بھی سندھ سے آنے والے بیس افراد مظفر علی کی مہربان چھاوں میں بے روزگاری کے دن کاٹ رہے تھے جن کی روزی کے بندوبست کے لیے وہ سرگرداں تھا۔
ہمیں بتایا گیا کہ تہران میں بڑی تعداد میں سندھی مزدور کارخانوں کی مشینوں کو اپنا پسینہ پلارہے ہیں، جن میں جینز کے علاوہ پلاسٹک کی اشیاء بنانے کے کارخانے بھی شامل ہیں۔ ایران میں غیرقانونی قیام کی وجہ سے یہ لوگ ان سہولتوں اور مراعات سے محروم ہیں جو ایرانی مزدوروں کو میسر ہیں۔ ان کی تنخواہیں بھی مقامی محنت کشوں سے کہیں کم ہیں اور وہ بارہ بارہ گھنٹے کام کرکے جینے کا سامان کرتے ہیں۔ روزگار ملنے کی دوسری وجہ یہ مزدور بتاتے ہیں کہ "ایرانی کام چور ہیں، اس لیے کام پر دوسروں کو رکھا جاتا ہے۔"
ان محنت کشوں کا تعلق لاڑکانہ، خیرپور، رتوڈیرو اور شہداد کوٹ سمیت سندھ کے مختلف علاقوں سے ہے۔ زیادہ تر بھٹو خاندان کی نگری لاڑکانہ اور اس شہر کے اطراف سے روزگار کے لیے ایران پہنچے ہیں۔ تہران میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدور بھی خون پسینہ ایک کر رہے ہیں، مگر پاکستانی محنت کشوں میں غالب اکثریت سندھی پاکستانیوں کی ہے۔
کارخانے کے ہال میں رکھا ایک چھوٹا سا ٹی وی سیٹ ہی ہے جو مظفرعلی اور اس کے ساتھیوں کو اپنے وطن سے جوڑے ہوئے ہے یا پھر ہر 14اگست کو کارخانے کی چاردیواری جشن آزادی مناکر وہ پاکستان سے اپنے رشتہ تازہ کرلیتے ہیں۔
سندھ کے پاکستانیوں کی مشقت تہران کے کارخانوں ہی میں کام نہیں آرہی، ان کے ہاتھ ایرانی زمین بھی سینچ رہے ہیں۔ ہمارا قافلہ مظفر علی کے اضافے کے ساتھ کارخانے سے ان کھیتوں کی طرف روانہ تھا جہاں سندھی کسانوں کے ہاتھوں کا جادو فصلوں کی صورت لہلہا رہا ہے۔ ہم جب وہاں پہنچیں تو یوں لگا جیسے لاڑکانہ یا دادو کا کوئی گوٹھ اٹھا کر ایرانی سرزمین پر سجا دیا گیا ہو۔ سانولے سلونے دمکتے چہرے اپنے ہم وطنوں کی آمد پر کچھ اور چمک اٹھے۔ یہ تہران کے مضافات میں بسا "سندھی گوٹھ" ہے، جہاں ڈیڑھ سو کے قریب گھر ہیں، جن میں رہنے والوں میں سے کوئی100 گھرانے رضاشاہ پہلوی کے دور سے آباد مگر شہریت سے محروم ہیں۔ یہ کاشت کار، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، گندم، چاول اور سبزیاں اُگاکر ایرانیوں کے لیے خوراک کا اہتمام کرتے ہیں۔
"یہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی"۔ گاوں کے باسیوں سے کھچا کھچ بھری چھوٹی سی اوطاق میں بیٹھے ہر میزبان کی زبان پر پاکستان اور ایران کے حالات میں امتیاز کے لیے یہ جملہ تھا۔
روزی کی خاطر چھہ سال قبل اپنی مٹی چھوڑ کر پردیس جابسنے والوں میں امیرعلی بھی شامل ہے جو اسکول ٹیچر تھا۔ تنخواہ جب تیزرفتار مہنگائی کے پیچھے دوڑتے دوڑتے ہانپنے لگی تو حالات سے مجبور امیرعلی نے سرکاری ملازمت کے ساتھ وطن بھی چھوڑ دیا اور اب یہ استاد تہران کے گاوں میں کھیتی باڑی کر رہا ہے۔
ہم پیار بھرے معانقوں کے ساتھ رخصت ان پیارے لوگوں سے رخصت ہوئے۔ ہمارے ٹیکسی مضافات سے شہر کے طرف گام زن تھی۔ "سندھ" کی ہوا "پاکستان" کی فضاء پیچھے رہ گئی تھی، ہم ایک بار پھر ایران میں اجنبی تھے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
شیرمحمد کھاوڑ کے سندھڑی آم سے میٹھے مہکتے لہجے میں یہ انکشاف سنتے ہی میں ان "تہرانی سندھیوں" سے ملنے کے لیے بے تاب ہوگیا۔ سفرایران کے سارے لطف پر یہ ایک حیرت بھاری تھی۔ جب ایران میں انقلاب برپا کرنے والے آیت اﷲ خمینی کی برسی کی تقریب میں شرکت کے لیے خانہ فرہنگ نے میرے نام کو بھی اپنی فہرست میں جگہ دی تو وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہاں ایک سوندھی خوشی اجرک اوڑھے میری منتظر ہے۔
تہران کے کوثرہوٹل پہنچ کر ہم پاکستانی مختلف گروپوں میں تقسیم ہوگئے۔ میں شیرمحمد کھاوڑ، سراج احمد اور انعام شیخ کی ٹولی کا چوتھا رکن تھا۔ شیرمحمد کھاوڑ اور سراج احمد جیسے سنیئر صحافیوں اور انعام شیخ جیسے دانشور کی سنگت کے وہ دن ہمیشہ یاد رہیں گے۔ شاید ہمارے قیام کا تیسرا دن تھا جب ہم نے تہران کے مضافات کی راہ لی، جہاں ایک ننھا مُنا سا سندھ یا چھوٹا سا پاکستان آباد تھا۔
کوئی سوا گھنٹے کی مسافت کے بعد منزل آگئی۔ جینز کی پینٹس بنانے کا ایک کارخانہ، جس کی مشینوں کو چلاتے، کپڑے کو رنگتے اور لباس کا روپ دیتے چالیس کے قریب سارے کے سارے مزدور سندھی۔ ہم فیکٹری کے اونچے دروازے سے گزر کر ایک بڑے سے ہال میں پہنچے جو اس فیکٹری میں کام کرنے والوں کی اوطاق بھی تھی اور خواب گاہ بھی۔
ہمیں دیکھ کر ہر چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا اور بازو کھل گئے۔ وسیع کمرے میں سندھی لفظوں کی خوشبو مہک رہی تھی، رعونت زدہ فارسی سُن سُن کر بوجھل ہوجانے والی طبعیت بحال ہوگئی۔ زمین پر بچھی رِلّی اور فضا میں گھلی سوندھی میٹھی سندھی میں بھول ہی گیا کہ پردیس میں ہوں۔
ایرانی مالک کی یہ کارگاہ ان مزدوروں کی جائے روزگار بھی ہے اور رہائش گاہ بھی، جہاں اس وسیع وعریض ہال سمیت جس میں ہم بیٹھے تھے، رہائش کے لیے دو اور کمرے بھی ہیں اور اس بستی کا سربراہ ہے مظفرعلی۔
مظفر علی اس کارخانے کا پہلا پاکستانی مزدور تھا۔ یہاں کام کرتے دیگر مزدوروں نے اسی کے ذریعے اس کارخانے سے ناتا جوڑا، بل کہ وہ مظفر علی ہی کی دعوت پر ایران آئے۔ مظفر صرف اس کارگاہ کے مزدوروں کے نگہبان نہیں، بلکہ وہ ایران میں روزی روٹی کمانے کے لیے آنے والے سندھ کے تمام محنت کشوں کا مددگار ہے۔ روزگار کی تلاش میں ایران آنے والے سندھی اس سے رابطہ کرتے ہیں اور پھر وہ انھیں کسی کام پر لگانے کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ جس وقت ہم وہاں موجود تھے اس وقت بھی سندھ سے آنے والے بیس افراد مظفر علی کی مہربان چھاوں میں بے روزگاری کے دن کاٹ رہے تھے جن کی روزی کے بندوبست کے لیے وہ سرگرداں تھا۔
ہمیں بتایا گیا کہ تہران میں بڑی تعداد میں سندھی مزدور کارخانوں کی مشینوں کو اپنا پسینہ پلارہے ہیں، جن میں جینز کے علاوہ پلاسٹک کی اشیاء بنانے کے کارخانے بھی شامل ہیں۔ ایران میں غیرقانونی قیام کی وجہ سے یہ لوگ ان سہولتوں اور مراعات سے محروم ہیں جو ایرانی مزدوروں کو میسر ہیں۔ ان کی تنخواہیں بھی مقامی محنت کشوں سے کہیں کم ہیں اور وہ بارہ بارہ گھنٹے کام کرکے جینے کا سامان کرتے ہیں۔ روزگار ملنے کی دوسری وجہ یہ مزدور بتاتے ہیں کہ "ایرانی کام چور ہیں، اس لیے کام پر دوسروں کو رکھا جاتا ہے۔"
ان محنت کشوں کا تعلق لاڑکانہ، خیرپور، رتوڈیرو اور شہداد کوٹ سمیت سندھ کے مختلف علاقوں سے ہے۔ زیادہ تر بھٹو خاندان کی نگری لاڑکانہ اور اس شہر کے اطراف سے روزگار کے لیے ایران پہنچے ہیں۔ تہران میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدور بھی خون پسینہ ایک کر رہے ہیں، مگر پاکستانی محنت کشوں میں غالب اکثریت سندھی پاکستانیوں کی ہے۔
کارخانے کے ہال میں رکھا ایک چھوٹا سا ٹی وی سیٹ ہی ہے جو مظفرعلی اور اس کے ساتھیوں کو اپنے وطن سے جوڑے ہوئے ہے یا پھر ہر 14اگست کو کارخانے کی چاردیواری جشن آزادی مناکر وہ پاکستان سے اپنے رشتہ تازہ کرلیتے ہیں۔
سندھ کے پاکستانیوں کی مشقت تہران کے کارخانوں ہی میں کام نہیں آرہی، ان کے ہاتھ ایرانی زمین بھی سینچ رہے ہیں۔ ہمارا قافلہ مظفر علی کے اضافے کے ساتھ کارخانے سے ان کھیتوں کی طرف روانہ تھا جہاں سندھی کسانوں کے ہاتھوں کا جادو فصلوں کی صورت لہلہا رہا ہے۔ ہم جب وہاں پہنچیں تو یوں لگا جیسے لاڑکانہ یا دادو کا کوئی گوٹھ اٹھا کر ایرانی سرزمین پر سجا دیا گیا ہو۔ سانولے سلونے دمکتے چہرے اپنے ہم وطنوں کی آمد پر کچھ اور چمک اٹھے۔ یہ تہران کے مضافات میں بسا "سندھی گوٹھ" ہے، جہاں ڈیڑھ سو کے قریب گھر ہیں، جن میں رہنے والوں میں سے کوئی100 گھرانے رضاشاہ پہلوی کے دور سے آباد مگر شہریت سے محروم ہیں۔ یہ کاشت کار، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، گندم، چاول اور سبزیاں اُگاکر ایرانیوں کے لیے خوراک کا اہتمام کرتے ہیں۔
"یہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی"۔ گاوں کے باسیوں سے کھچا کھچ بھری چھوٹی سی اوطاق میں بیٹھے ہر میزبان کی زبان پر پاکستان اور ایران کے حالات میں امتیاز کے لیے یہ جملہ تھا۔
روزی کی خاطر چھہ سال قبل اپنی مٹی چھوڑ کر پردیس جابسنے والوں میں امیرعلی بھی شامل ہے جو اسکول ٹیچر تھا۔ تنخواہ جب تیزرفتار مہنگائی کے پیچھے دوڑتے دوڑتے ہانپنے لگی تو حالات سے مجبور امیرعلی نے سرکاری ملازمت کے ساتھ وطن بھی چھوڑ دیا اور اب یہ استاد تہران کے گاوں میں کھیتی باڑی کر رہا ہے۔
ہم پیار بھرے معانقوں کے ساتھ رخصت ان پیارے لوگوں سے رخصت ہوئے۔ ہمارے ٹیکسی مضافات سے شہر کے طرف گام زن تھی۔ "سندھ" کی ہوا "پاکستان" کی فضاء پیچھے رہ گئی تھی، ہم ایک بار پھر ایران میں اجنبی تھے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔