پٹرول کے بحران میں شدت

پاکستان میں یہ کلچر بن چکا ہے کہ حکومت اس وقت ہوش میں آتی ہے جب بحران سنگین ہو جاتا ہے۔

پٹرول کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں شہریوں میں جھگڑے بھی ہوتے رہے، کئی جگہ ہوائی فائرنگ کے واقعات بھی ہوئے۔ فوٹو: شہباز ملک/ ایکسپریس

VEHARI:
پنجاب میں پٹرول کا بحران مزید سنگین ہوگیا ، پانچویں روز بھی پٹرول کی مسلسل قلت کے باعث شہریوں کو آمدورفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور پٹرول پمپوں پر طویل قطاریں لگی رہیں۔ لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، فیصل آباد،گوجرانوالہ، جہلم اور سرگودھا سمیت مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں صارفین پٹرول کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے ۔

اخباری اطلاعات کے مطابق پٹرول ختم ہونے پر شہری گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو دھکے لگاتے رہے، پنجاب کے 95 فیصد پٹرول پمپ بند رہے جب کہ جن پٹرول پمپوں پر پٹرول دستیاب تھا وہاں گاڑیوں کی طویل قطاریں لگی رہیں ۔صارفین کو انتہائی محدود مقدار میں پٹرول دیا جاتا رہا ، پٹرول کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں شہریوں میں جھگڑے بھی ہوتے رہے، کئی جگہ ہوائی فائرنگ کے واقعات بھی ہوئے۔

ایمبولینسز، ریسکیو اور پولیس کی گاڑیوں کو بھی پٹرول کی فراہمی کم ہوگئی جس سے مریضوں کو اسپتال پہنچانے اور پولیس کو پٹرولنگ میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ایدھی ایمبولینس سروس بھی متاثر رہی جب کہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ بھی کم رہی، موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر قانونی تیل ایجنسیاں بھی سرگرم رہیں جہاں پٹرول بلیک میں 200 روپے فی لیٹر تک فروخت کیا جاتا رہا جب کہ کچھ پٹرول پمپوں پر بھی پٹرول مہنگے داموں فروخت کیا جا تا رہا۔ اس بحران میں حکومت بے بس نظر آئی، وفاقی حکومت پٹرول کی ترسیل ممکن نہیں بنا سکی جب کہ پنجاب حکومت پٹرول کی بلیک مارکیٹنگ نہ روک سکی اور اس سارے عمل میں عوام خسارے میں رہے۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی کہ 31 جنوری تک پٹرولیم کی قلت ختم ہو جائے گی یعنی اس بحران کے خاتمے میں دو ہفتے لگیں گے۔

اس سے عوام میں مزید بے چینی پیدا ہوئی اور لوگوں نے پٹرول اسٹاک کرنا شروع کر دیا۔ جو شخص گاڑی میں 10 لیٹر پٹرول ڈلواتا ہے، وہ ٹنکی فل کرانے لگا، یوں بحران کی شدت میں مزید اضافہ ہوا۔ بعض سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ پٹرول کی قلت کی ذمے دار آئل کمپنیاں ہیں، کمپنیوں نے عالمی مارکیٹ میں گرتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر کم از کم 20 روز کا اسٹاک ذخیرہ نہیں کیا، تمام کمپنیوں کو نوٹس جاری کر دیا گیا ہے جواب ملنے کے بعد جرمانے کیے جائیں گے۔ تیل کے بحران کی عجیب بات ہے کہ یہ صرف پنجاب میں ہے جب کہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ایسا نہیں ہے۔ باقی تین صوبوں میں پٹرول آسانی سے مل رہا ہے۔


کراچی اور اندرون سندھ میں گیس کے کم پریشر کی شکایت ہے لیکن پٹرول مل رہا ہے۔ کراچی میں سی این جی کی قیمت میں اضافے سے ٹرانسپورٹروں میں بے چینی موجود ہے اور وہاں ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی کم نہیں ہوئے۔ ایسی اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ ملک میں تیل کے محفوظ ذخائر تین دن سے بھی کم وقت کے لیے رہ گئے ہیں جب کہ اس کی درآمد بند ہے۔ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو کم ازکم 100 ارب روپے درکار ہیں تاکہ ادائیگیاں کی جا سکیں۔ گزشتہ دو ہفتوں سے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی کوئی کھیپ نہیں آئی حالانکہ معمول کے مطابق ہر پندھرواڑے میں 65 ہزار ٹن سے لدے چھ سے آٹھ بحری جہاز ملک میں آتے رہے ہیں۔

پاکستان میں آئے روز کوئی نہ کوئی بحران پیدا ہوتا ہے۔ تقریباً ایک ماہ پہلے تک حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا جاری تھا۔ دھرنوں کا بحران بھی حکومت نے ختم نہیں کیا بلکہ دھرنا دینے والوں نے ہی اسے ختم کر دیا۔ اب اچانک پٹرول کا بحران شروع ہو گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی۔ اس کا کسی حد تک عوام کو فائدہ پہنچا لیکن یہ ریلیف چند روزہ رہا اور اب پانچ روز سے پٹرول کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اچھی حکومت وہ ہوتی ہے جو بحران کی پہلے سے پیش بندی کرتی ہے۔ پٹرول کا بحران اچانک پیدا نہیں ہوا۔ پالیسی ساز اداروں کو ان حالات سے آگاہی ہو گی۔ آئل کمپنیاں بھی متعلقہ حکام کو حالات سے آگاہ کرتی رہی ہوں گی۔ اس کے باوجود پٹرول کے بحران سے بچنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔اب کوئی اس بحران کی ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

یہ نااہلی نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ اب حکومت نے سی این جی اسٹیشنز کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسے کسی حد تک اچھا فیصلہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے صارفین کو فائدہ پہنچے گا لیکن یہاں بھی سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس اقدام کے سائیڈ افیکٹس کیا ہوں گے، وزیراعظم نواز شریف نے سعودی عرب سے واپسی پر لاہور ایئرپورٹ پر ہی تیل کے بحران کا نوٹس لیا ہے اور چند اہم ترین افسروں کو معطل بھی کیا گیا ہے۔

بعض اوقات غفلت اور لاپروائی معمولی بات کو بحران میں تبدیل کر دیتی ہے۔ پاکستان میں یہ کلچر بن چکا ہے کہ حکومت اس وقت ہوش میں آتی ہے جب بحران سنگین ہو جاتا ہے۔ اس وقت تیل کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ اب یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ فرنس آئل ختم ہوا تو بجلی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ صورت حال اس بحران کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر ارباب اختیار غفلت اور لاپروائی کا مظاہرہ نہ کرتے تو یہ بحران پیدا نہ ہوتا۔
Load Next Story