دانۂ گندم یا گلوٹین الرجی

دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی اولین ترجیحات صحت اور تعلیم ہوتی ہیں۔


Raees Fatima January 17, 2015
[email protected]

دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی اولین ترجیحات صحت اور تعلیم ہوتی ہیں۔ جن کے بارے میں وہ نہ صرف ہمیشہ باخبر رہتی ہیں بلکہ ان کے منفی اور مثبت اثرات کا بھی جائزہ لیتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ایجادات اور تجربات پہ گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے تجرباتی پھل پیدا کیے۔

بالخصوص سیبوں کی بڑھوتری کے لیے پودوں میں انجکشن کے ذریعے دوائیں دی گئیں۔ نتیجے میں ان کا سائز عام سیبوں کے مقابلے میں بہت بڑھ گیا۔ پھر انھوں نے جائزہ لیا تو یہ منفی نتیجہ سامنے آیا کہ سیب بے ذائقہ ہوگئے تھے۔ انھوں نے فوری طور پر یہ سلسلہ بند کر دیا۔ اسی طرح درد دور کرنے والی معروف دوا اپنے ذیلی مضر اثرات کے باعث بند کر دی گئی۔ لیکن افسوس کہ پاکستان میں یہ دوا اب بھی ڈاکٹر حضرات نسخوں میں تجویز کر رہے ہیں۔ ہمارے حکمران تو تاجر ہیں ہی، کہ پورا ملک تجارت کے اصول پر چلایا جا رہا ہے اور تجارت کا پہلا اصول منافع ہے۔

خواندگی کا کم ہونا، مطالعے کی عادت نہ ہونا، اخبار بینی سے دور ہونا۔ ان تینوں باتوں نے صحت کے حوالے سے جو ستم ڈھائے ہیں، وہ بہت ہولناک ہیں۔ مغربی ممالک کے بچوں میں بڑھتے ہوئے مٹاپے کی اصل وجہ جان کر فاسٹ فوڈ پہ تقریباً پابندی لگا دی گئی ہے کہ انھیں اپنی قوم کے معماروں کی صحت کی فکر والدین سے بھی زیادہ ہے۔ یہاں تجاوزات اور پتھارے اس لیے نہیں اٹھائے جاتے کہ پولیس کی اضافی آمدنی ختم ہو جائے گی۔ اسی لیے میڈیا کو دکھانے کے لیے ایک دن اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے اور چند گھنٹوں بعد ہی معاوضے میں اضافے کے بعد پوری آب و تاب سے ٹھیلے اور پتھارے دوبارہ پرانی جگہوں پہ نظر آتے ہیں۔

ابتدا میں ان دواؤں کی بات کی گئی تھی جنھیں مضر اثرات کی بنا پر دنیا بھر میں ختم کر دیا گیا۔ لیکن پاکستان میں وافر مقدار میں فروخت ہو رہی ہیں۔ صحت کے حوالے سے ایک بڑی ہی تشویش ناک خبر ایک طبی جریدے نے دی ہے۔ مطالعے کے دوران بڑی حیران کن معلومات ملیں۔ جسے میں قارئین تک پہنچانا چاہوں گی۔ ایوب خان کے زمانے میں دیسی گندم کا دانہ تبدیل کر دیا گیا تھا کیونکہ ہماری دیسی گندم جو ذائقے اور قوت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی، لیکن ایک ایکڑ میں یہ دانۂ گندم حد سے زیادہ بائیس من پیدا ہوتی تھی۔

جب کہ امریکی گندم جس کے بیج کی ساخت تبدیل کر کے اگانے کا رجحان پیدا ہوا اور لیبارٹری میں تیار اور تجربہ کر کے جو بیج ہر جگہ بھیجا گیا اس کا مقصد گندم کی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا تا کہ غذائی قلت کے شکار ممالک قحط سے دوچار نہ ہوں۔ یہ امریکی گندم دیسی گندم کے مقابلے میں زیادہ پیداوار دیتی تھی۔ تقریباً ایک ایکڑ میں 80 من گندم پیدا ہوتی تھی۔

لہٰذا ایوب خان نے امریکی گندم کے دانے کو خوش آمدید کہا اور یوں ہم سب دیسی گندم سے محروم ہو گئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری والدہ، دادی اور والد اکثر یہ شکایت کرتے پائے جاتے کہ روٹی میں سے ذائقہ کیوں ختم ہو گیا۔ آج ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا خوش نصیب ہو جو دیسی گندم کی روٹی کھا چکا ہو، ہمیں تو اس کی خوشبو اور ذائقہ دونوں میں سے کسی کا پتہ نہیں۔ میری بڑی بہن اکثر کہتی تھیں کہ دہلی الٰہ آباد اور شملہ میں جو روٹی وہ پکاتی تھیں وہ ٹھنڈی ہو کر اور بھی خوش ذائقہ ہوجاتی تھی، لیکن پتہ نہیں یہاں ایسا کیوں نہیں ہے۔

اسی امریکی دانہ گندم سے پیدا ہونے والی ایک بیماری کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو آہستہ آہستہ پاکستان میں جگہ بنا رہی ہے، لیکن افسوس کہ وزیر صحت اور وزارت صحت میں سے کسی کو اس بیماری کے بارے میں شاید کچھ نہیں پتہ۔ ویسے بھی وہ لوگ میڈیا پہ جلوہ آرائی اور ایک دوسرے کے گریبان پھاڑنے میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ انسانی صحت کی فکر کر کے وہ دماغوں کو (اگر ہیں تو) تھکانا نہیں چاہتے۔ دانۂ گندم کے استعمال سے پیدا ہونے والی بیماری ''گلوٹین الرجی'' کہلاتی ہے۔ حالانکہ اس بیماری کی شرح پاکستان میں بہت کم ہے، لیکن ہے تو؟ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض کے لیے گندم سے بنی ہوئی کسی بھی غذا کا مسلسل استعمال ایک طرح سے ''سلو پوائزننگ'' ہے جو آہستہ آہستہ انسان پہ اثر کرتا ہے۔

اس بیماری میں بچوں کا قد اور وزن ان کی عمر کے حساب سے نہیں بڑھ پاتا۔ عام طور پر ڈاکٹر حضرات بھوک لگنے کی دوائیں اور شربت تجویز کر دیتے ہیں۔ لیکن جب بچوں کو اس سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہ ہو تو فوراً کسی اچھے ڈاکٹر کے مشورے سے مطلوبہ ٹیسٹ کروانے چاہئیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو گندم کے اندر موجود ایک پروٹین ''گلوٹین'' (Gluten) کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ ''دانۂ گندم'' کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا جائے۔ مگر کیونکر گندم ہماری غذا کا لازمی جزو ہے۔ روٹی، کیک، دلیہ، حلیم، بسکٹ، مٹھائی، ہر ایک میں گندم موجود۔ کریں تو کیا کریں۔

لہٰذا اس کی موجودگی کو کس طرح ختم کیا جائے؟ ایک تو یہ کہ جو چنا، بیسن، باجرہ اور مکئی کا استعمال کیا جائے۔ وہ بھی خود گھریلو طور پر کیونکہ جریدہ کی تحقیق کے مطابق جب اس بیماری کی موجودگی کا پتہ چلا تو مارکیٹ میں ''گلوٹین فری آٹا'' ملنے لگا۔ ڈاکٹر ہما ارشد نے حیدرآباد کی ایک فلور مل کا احوال لکھا ہے کہ فلورمل کا مالک دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی مل میں گلوٹین فری آٹا اور بسکٹ مل جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ ڈاکٹر صاحبہ کے پاس بھی آیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس آٹے کو ٹیسٹ کروانے کے لیے امریکا اور کینیڈا بھیجیں گی تا کہ سچ پتہ چل سکے۔ تب اس شخص نے کہا کہ یہ PCSIR سے تصدیق شدہ ہے۔ اگر ڈاکٹر ہما ارشد بھی تصدیق کر دیں اور دستخط کر دیں تو وہ یہ آٹا مارکیٹ میں لے آئے گا۔ لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے نہایت ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے آٹے کے نمونے کینیڈین فوڈ ایسوسی ایشن کے پاس ٹیسٹ کے لیے بھیجے۔

دو ماہ کے بعد جو نتائج انھیں موصول ہوئے اس کے مطابق اس آٹے میں گلوٹین کی مقدار 800-PPM ہے جو بہت ہی زیادہ ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ان صاحب کو یہ نتائج بتائے تو وہ بالکل نہیں مانے۔ افسوس کہ جس طرح ''منرل واٹر'' کے نام پر فلٹر واٹر فروخت کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح آیندہ گلی، گلی ''گلوٹین فری آٹا'' بھی دستیاب ہو گا۔ حیدرآباد میں یہ آٹا خوب فروخت ہو رہا ہے اور گلوٹین کے مریض بلاتامل اس فلورمل کے بسکٹ وغیرہ کھا رہے ہیں جو آیندہ ان کی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بیماری کسی بھی فرد کو کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے۔

نیز یہ کہ اگر ایک بچہ اس بیماری میں مبتلا ہے تو دوسرے بچوں کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اگر اس بیماری میں گندم کا استعمال ترک نہ کیا جائے تو مرگی، قد کا نہ بڑھنا، جگر کی بیماریاں، بلوغت کا وقت پر نہ ہونا، تھائیرائیڈز اور ہڈیوں کا کمزور ہونا بھی شامل ہے۔ اس بیماری کے سبب مردوں اور عورتوں میں بے اولادی کا مسئلہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ گلوٹین الرجی گندم سے بنی ہوئی کوئی بھی غذا کھانے سے ہوتی ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بیماری میں اب مسلسل اور تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ بطور خاص بچوں کے امراض معدے کی معالج ہیں۔ ہم ان کے اور طبی جریدے کے شکرگزار ہیں کہ ان کی بدولت آج ہمارے قارئین گلوٹین الرجی سے واقف ہوئے۔ اس آگاہی کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

یقینا قارئین کو یہ جان کر دکھ ہو گا کہ امریکا میں جوں ہی دانۂ گندم کے نقصانات بصورت ''گلوٹین الرجی'' کے سامنے آئے انھوں نے اس کے بیج کو صحت کے لیے نقصان دہ قرار دے کر اس کی کاشت پر پابندی لگا دی، لیکن بدقسمتی سے ہم آج بھی یہی گندم استعمال کر رہے ہیں۔ کاش ہمیں وہ گندم کھانے کو ملتی جو 1958ء تک موجود تھی۔ کیا یہ گندم دوبارہ نہیں اگائی جا سکتی۔ بالکل نہیں۔ کیونکہ حکومتوں کو پانچ سال پورے کرنے کے لیے دوسرے کام کرنے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں