دہشتگردی کے خلاف جنگ
سانحہ پشاور سےلےکر اب تک حکومتی اعلانات اور عملی اقدامات کے درمیان اگر کچھ نظر آرہا ہے تو وہ فوجی عدالتوں کا قیام ہے۔
زندگی کی کتاب کے اوراق کو پلٹیں تو شب و روز کے گرد سارا منظر ہی دھندلا دھندلا دکھائی دیتا ہے، ایک پراسراریت ہر طرف نظر آتی ہے، ماحول کی سفاکیت کو دیکھ کر اپنے سائے سے ڈر لگنے لگتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے پیشہ ور بدمعاش، اجرتی قاتل، رسوائے زمانہ دہشت گرد اور ابن الوقت لٹیرے.... قانون، انصاف اور تحفظ فراہم کرنیوالے ادارے، سب آپس میں جڑے، ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ایک ہی مشن پر گامزن ہیں۔
یہ کیا ہورہا ہے؟ کون کررہا ہے؟ کس کی خاطر ہورہا ہے؟ کب تک ہوتا رہے گا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا کسی کے پاس جواب نہیں۔ قانون کے لبادے میں لاقانونیت کو دندناتا دیکھ کر طرح طرح کے جو سوالات ذہن میں اٹھتے ہیں بظاہر اتنے احمقانہ سے لگتے ہیں کہ خود پر ہنسی آنے لگتی ہے، مگر سنجیدگی سے ان کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔گزشتہ ماہ پشاور میں پیش آنیوالے افسوسناک سانحے نے ملکی فضا کو خاصا سوگوار کردیا تھا۔
مذمتی بیانات کی تابڑ توڑ بوچھاڑ کے ساتھ حکومت کے انقلابی اعلانات بھی سننے کو ملے، آرمی چیف فوراً افغانستان چلے گئے، وزیراعظم نے سزائے موت پر عائد پابندی فوری ختم کرنے کے احکامات جاری کردیے، آل پارٹیز کانفرنس، پھر کمیشن اور کمیٹیاں، اجلاسوں پر اجلاس، ایک افراتفری اور پرانی پنجابی فلموں کے ڈائیلاگ سن کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے بس اب ملک میں کوئی دہشت گرد تو کیا کوئی غنڈہ اور بدمعاش بھی باقی نہیں بچے گا، ابھی ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ راولپنڈی میں ایک اور سانحہ پیش آگیا۔ اگرچہ اس سلسلے میں سیکیورٹی ادارے روایتی کارکردگی سے ہٹ کر فعال نظر آرہے ہیں مگر حکومتی اقدامات اس کے اعلانات کی درست عکاسی نہیں کرپا رہے۔
حکومت نے عمران خان کے دھرنا ختم کرنے کو ہی شاید ریلیف سمجھ لیا ہے، دوسری طرف عمران خان بھی اگلی عید سے پہلے تبدیلی لانے میں کامیاب ہوگئے، وہ نیا پاکستان تو نہیں بنا سکے البتہ اپنی نئی زندگی کا آغاز انھوں نے کردیا ہے۔ سانحہ پشاور سے لے کر اب تک حکومتی اعلانات اور عملی اقدامات کے درمیان اگر کچھ نظر آرہا ہے تو وہ فوجی عدالتوں کا قیام ہے۔ سیلاب آئے یا زلزلہ، اندرونی سیکیورٹی کی بات ہو یا پولیو قطرے پلانے کی، عام انتخابات ہوں یا مردم شماری، جو کام حکومتی مشینری نہیں کرپاتی وہ فوج کے ذمے ہی لگایا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی عوام کو انصاف کی فراہمی میں مکمل طور پر اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ فوجی عدالتیں قائم کی ہیں، بلکہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے تو اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ دہشتگردوں کو بیس روز کے اندر اندر سزا مل جانی چاہیے۔
حکومت کی 'بے بسی' جسے ہم 'بے حسی' سمجھتے ہیں، کا اصل تقاضا تو 'عدالتی امور' کے بجائے 'انتظامی امور' فوج کے حوالے کرنے کا تھا، کیونکہ اس وقت ملک میں سول عدالتوں سے موت کی سزاؤں کے منتظر مجرموں کی تعداد سات ہزار سے بھی زائد ہے، اور جس رفتار سے ان سزاؤں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے، تمام مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے نصف صدی سے بھی زائد کا عرصہ درکار ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر عملدرآمد کا کام فوج کے سپرد پہلے کردیا جاتا اور تمام موجودہ مجرموں کو نشان عبرت بنانے کے بعد انصاف کی فراہمی کے نئے تجربے کا آغاز کیا جاتا۔ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ بہتر نہ ہوتا کہ پہلے عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کے لیے آئینی ترامیم پارلیمنٹ سے منظور کرالی جاتیں؟
اپنے مقاصد کے حصول کو ہی یہ نام نہاد سیاستدان اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ قانون کی عملداری پاکستانی قوم کے لیے ایک خواب تھا، ایک خواب ہے اور ایک خواب ہی رہے گا، یہاں حکومت 'نام نہادوں' کی ہو یا اسٹبلشمنٹ کی، جو بھی اقتدار میں ہوگا اس کا مقصد مخصوص قوتوں کے مفادات کا تحفظ اور اپنے لیے مال جمع کرنا ہی رہے گا، اگر کوئی مخلص ہوا بھی تو اردگرد کا ماحول اسے کبھی عوامی مفاد کے تحت کام نہیں کرنے دے گا۔مجرموں کی سزاؤں پر عملدرآمد سے ہٹ کر غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے لیے حکومت نے جس عزم کا اظہار کیا تھا وہ اور اس پر عملدرآمد بھی سابق حکومت کے اعلان سے مختلف ثابت نہ ہوا، جیسے سابقہ حکومت نے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو پندرہ روز میں پاکستان چھوڑنے کا حکم دے کر چپکے سے چپ سادھ لی تھی۔
مقتدر حلقے اگر سنجیدگی سے غور کریں تو غیر قانونی تارکین وطن کی رجسٹریشن کا معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن ہی نہیں بلکہ تمام پاکستانی شہریوں کے مکمل کوائف کی رجسٹریشن دہشتگردی جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اہم سنگ میل ہے،جسے عبور کرنے کے لیے سب سے پہلے شہریوں کے کوائف کی رجسٹریشن پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ اصل کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈزکا پتہ چلاکر اصل پاکستانی شہریوں اور رشوت کے عوض پاکستانی شہریت حاصل کرنے والوں میں فرق کو واضح کرنا ہوگا، ان کارڈز کے ذریعے غیر ملکیوں کا پتہ چلاکر ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے، جب تک اس گھناؤنے کھیل کی حوصلہ شکنی نہیں کی جائے گی، اس وقت تک ملک میں مکمل اور دیرپا امن کا قیام خواب ہی رہے گا۔
ملکی سیاسی قیادت ثابت کرچکی ہے کہ وہ ملک و قوم کے مفادکے لیے اقدامات میں کتنی سنجیدہ ہے، ایسی صورتحال میں یہ کام بھی پاک فوج ہی کو کرنا ہوگا۔ حالیہ دنوں کراچی کے تاجر و صنعتکار جو پچھلے کئی سال سے حکومت کے آگے رو پیٹ رہے تھے، کورکمانڈر کراچی سے ملاقات میں غیر قانونی سموں کی تصدیق کا معاملہ اٹھایا تو اگلے ہی روز پیش رفت کے واضح امکانات پیدا ہوگئے۔
تمام ٹیلی کام کمپنیاں ایک صفحے پر آگئیں اور تصدیق کا عمل بھی شروع کردیا، ورنہ چیئرمین پی ٹی اے تو یہ بیان جاری کرچکے تھے کہ ملک میں کوئی ایک سم بھی غیر قانونی نہیں ہے۔ اسی طرح چیئرمین نادرا نے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے روبرو بیان دیا تھا کہ غیر قانونی شناختی کارڈ کا اجرا ممکن ہی نہیں ہے، یقیناً تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد کسی بھی غیر ملکی کو شناختی کارڈ جاری کیا جاتا ہے، مگر کیا اس جعل سازی کے ذریعے قانونی تقاضے پورے کرنے سے شناختی کارڈ بھی 'اصل' اور 'قانونی' ہوجائے گا؟
اس میں شک نہیں کہ افغان مہاجرین ہمارے بھائی ہیں اور پاکستان نے تیس برس سے زائد عرصے تک اپنے افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کی ہے، بلکہ ان کی آڑ لے کر پاکستان آنے والے ازبک، قازک اور دوسری وسط ایشیائی ریاستوں کے تارکین کے ناز بھی اٹھائے ہیں، یہاں تک کہ ہم نے اپنا قومی تشخص بھی اپنے ان بھائیوں پر قربان کردیا۔ ہمارے حکمران بنگالی بھائیوں کے نام پر پاکستانی بچوں کا مستقبل میانمر (برما)، سری لنکا، نیپال اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے غیر قانونی تارکین وطن پر نچھاور کرتے چلے آرہے ہیں، اب جب کہ دنیا بہت بدل چکی ہے، چھوٹے سے چھوٹا ملک بھی اپنے فیصلوں میں آزاد نظر آتا ہے، ہماری حکومت میں کسی اہم فیصلے کی جرأت نہیں، ہمارے حکمراں قومی مفاد کے فیصلوں کے لیے بھی اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کی جانب دیکھتے ہیں، انھیں جب تک وہاں سے حکم نہیں ملے گا، وہ پاکستان کو اسی آگ میں جلتا دیکھتے رہیں گے۔