بات ہے آس پاس کی

مذہبی عناصر کو عام لوگوں سے برتر تصور کر کے عوام پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔

zb0322-2284142@gmail.com

NEW DEHLI:
ابھی حال ہی میں فرانس کے ایک ہفت روزہ جریدہ جس نے داعش کے سر براہ ابوبکر البغدادی کا کارٹون بنایا تھا، اسے دہشت گردوں نے قتل کردیا۔ ایسے کارٹون تو پا کستانی ٹی وی چینیلز پر آئے روز دکھائے جاتے ہیں۔

فرانس کے ہفت روزہ جریدہ کے چیف ایڈیٹر اورکارٹونسٹ سمیت بارہ افراد کے قتل کے خلاف سارے یورپ میں فسادات پھوٹ پڑے۔ سوئیڈن میں مساجد پر حملے ہوئے اور جرمنی سمیت پورے یورپ کے متعدد شہروں میں مساجد اور گرجاؤں پر حملے شروع ہو گئے۔ صورتحال کو روکنے کے لیے لا کھوں کمیونسٹ، انارکسٹ اور سوشلسٹ اور مظاہرین میدان عمل میں کود پڑے، انتہا پسندوں کی راہوں میں رکاوٹ بن گئے اور ہاتھ جوڑ کر ان فسادات کو روکنے کی مہم شروع کر دی۔

جس کا مرکز جرمنی تھا۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اس عمل کو ملکی اور دنیا بھر کے میڈیا نے عوام کو نہیں دکھایا۔ ادھر سعودی حکومت کی جانب سے بلاگر رائف بدوی کو توہین مذہب کے الزام میں ایک ہزارکوڑوں کی سزا دی گئی ۔ جب کہ بدوی کو ہر ہفتے پچاس کوڑے مزید مارے جائیں گے۔ پہلی بار پچاس کوڑے مار ے گئے ۔ ادھر تیونس میں داعش نے دو تیونسی صحافیوں کے سرقلم کردیے۔ داعش کے مطابق وہ اسلام مخالف کام کر رہے تھے۔

سعودی حکومت اور داعش دونوں کی جانب سے بدوی اور دوصحافیوں کو دی جانے والی سزائیں تشویش ناک ہیں۔ کل جب عوام کا سمندر میدان عمل میں نکلے گا تو ان حکمرانوں کا حشر بھی فرانس کے لوئس دہم کی طرح ہو گا، جن کے سر قلم کر کے شہر میں پھرایا گیا تھا۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سترہ ہزار مدارس سے ہر سال تیس لا کھ طلبہ فارغ ہوتے ہیں۔ آخر یہ بے روزگار کیا کریں گے؟ دوسری جانب پاکستان میں ساٹھ فیصد زمین بنجر پڑی ہے اور دنیا میں سب سے کم جنگلات پاکستان میں ہیں۔ یعنی دوعشاریہ پانچ فیصد۔ جب کہ یو این او کا فیصلہ ہے کہ کم از کم جنگلات ملک کے کل رقبے کا پچیس فیصد ہونے چاہیئیں۔

اس لیے مدرسوں سے فارغ التحصیل تیس لاکھ طلبہ کو بنجر زمینوں پرکاشتکاری، جنگلات کی آبیاری اور مچھلیوں کی فارمنگ پر مامورکرکے انھیں جائز روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے ۔ مذہبی عناصر کو عام لوگوں سے برتر تصور کر کے عوام پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔عوام کو مشتعل کرنے کے مختلف النوع مواقعے مہیا ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اچھی مثال دینا چاہتا ہوں ۔ بے نظیر بھٹو نے جب لیبیا کا دورہ کیا تھا اس وقت کرنل قدافی لیبیا کے سربراہ تھے۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کالم نویس ارشاد احمد حقانی بھی تھے جمعے کی نماز کے وقت اچانک ایک چودہ سالہ نوجوان نے جینز کی پتلون، ٹی شرٹ پہنا ہوا اور سر پرکنتورہ باندھ کر جمعے کا ریاست کی جاب سے چھپا ہوا خطبہ پڑھا اور نماز پڑھائی ۔

جب نماز ختم ہو ئی تو ارشاد احمد حقانی نے پاکستانی کمیونٹی سے پوچھا کہ یہ لڑکا کیا امام صاحب کا بیٹا ہے؟ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ جمعے کی نماز اس لڑکے نے پڑھائی اور اب عصر کی نماز آپ پڑھا دیجیے گا۔ یہاں کوئی امام نہیں ہوتا۔ ارشاد احمد حقانی نے اس واقعے پرایک کالم لکھا اور اس کے اختتام پر کہا تھا کہ میں لیبیا میں مستقل امام کے بغیر نماز پڑھانے والے کو دیکھ کر حیران ہوا۔ اس عمل میں فرقہ پرستی، مطلق العنانیت اور عقل کل کی نفی ہوتی ہے، یعنی یہاں ملائیت کی کوئی منظم گروہ نہیں ہے۔ جب عوام کو مثبت بامعنی روزگار فراہم نہیں ہوگا تو لوگ کالے دھن کی جانب راغب ہونگے جیسا کہ افغانستان میں تیس ہزار ہیروئن اور چرس بنانے کی فیکٹریاں ہیں مگر آ ٹا بنانے کی فیکٹریاں نہیں ہیں، آٹا اور روٹی پا کستان سے جاتے ہیں۔


ایک جانب بھوک، افلاس، لا علاجی اور غذائی قلت سے لوگ مر رہے ہیں تو دوسری طرف اسلحے کی پیداوار اورخرید وفروخت میں کھربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ امریکا ،روس، چین اور ترکی سے بھارت، سعودی عرب، قطر، عرب امارات، پا کستان اور اسلامک اسٹیٹ سے اسلحہ خریدتے ہیں اور انھیں علا قوں میں اور اس کے آس پاس میں سب سے زیادہ قتل وغارت گری ہو رہی ہے۔ داعش ادھر فرانس میں اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر صحافیوں کا قتل عام کرتی ہے تو پاکستان کے شہر پشاور میں طالبان اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر سیکڑوں بچوں کا قتل کرتے ہیں ۔مگر بعض دانشور اور جماعتیں صرف مذہبی دہشت پسندوں کی مذمت کرتے ہیں اور امریکی سامراج کی قتل و غارت گری پر خاموش رہتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی مظاہرہ نہیں کرتے ۔ جب کہ امریکی دانشور پروفیسر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ'امریکا اب تک بلاواسطہ یا بالواسطہ اٹھاسی ملکوں میں مداخلت کر چکا ہے جسکے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔ ساحر لدھیانوی نے درست کہا تھا کہ

خون مغرب کا ہو یا مشرق کا
امن عالم کا خون ہے آخر
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

تھر پارکر، فیصل آباد اور سرگودھا میں2014ء میں تقریباً تین ہزار بچے عدم علاج، غذائی قلت اور بیماری کی وجہ سے جان سے جاتے رہے۔ ان کے لیے کوئی معاوضہ یا امداد نہیں دی گئی، موم بتی جلائی گئی اور نہ کوئی راست اقدام ہوا اور نہ دنیا بھر سے کوئی پیغامات آئے اور نہ عالمی اداروں سے کوئی وفد تعزیت کرنے آیا۔ عوام کی سوچ اب اسٹیٹ لیس سوسائٹی اور ساری دنیا کو ایک خاندان بنانے اور دنیا کی ساری ملکیت کو تمام لوگوں کی مشترکہ ملکیت بنانے کی تگ و دو شروع ہو چکی ہے۔

مثال کے طور پر ہالی ووڈ میں بننے والی فلم کی کہانی جسے سوزین کولین نے لکھا ہے کہ حکمرانوں کے ظلم وجبر کے خلاف عوام کی بغاوت کو منظر عام پر لائے،اس فلم پر امریکی حکمران ناراض نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں بننے والی فلم ' بول' میں مذہبی انتہا پسندی اور پسماندہ عقیدہ پرستی کی نفی کی گئی۔ اسی طرح ہندوستان میں حال ہی میں بننے والی فلم پی کے، جس کے ہیرو عامر خان ہیں اور مصنف راج کمار ہیرا جی اور ابھیجت جوشی ہیں نے نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں دھوم مچا دی ہے ۔ نیپال، ہندوستان اور بنگلہ دیش کی کمیونسٹ ، پارٹی ورکرز اور انارکسٹوں نے بیک وقت اس فلم کو دیکھا ۔

ہندوستان کے مذہبی انتہا پسندوں نے عامر خان اور راج کمار کے خلاف مظاہرے کیے۔ سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔راج کمار نے عدالت کو کہا کہ جو کچھ میں نے لکھا اس کا ثبوت ہمارے پاس موجود ہے۔ جب عدالت نے یہ پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم دنیا کو ایک ہی خاندان تصور کرتے ہیں۔ مذہب کے نام پر ہمارے مذہبی رہنما مفادات حاصل کرتے ہیں، جس کا ہمارے پاس ریکارڈ موجود ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آنے وا لا ہے کہ دنیا ایک ہوجائے گی ۔ قتل وغارت گری ختم ہوجائے گی، سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کرکھائیں گے،کوئی بھوکا رہے گا اور نہ کو ئی ارب پتی ہوگا۔
Load Next Story