جادوئی طاقتوں کا حصول
ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہم ساری دنیا کو صرف اپنی آنکھوں سے ہی دیکھتے ہیں۔
آدمی زندگی میں کیا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے ہمارے ملک کا ایک عام آدمی زندگی میں وہی کچھ چاہتا ہے جس کا تعلق اِس کی زندگی کے آرام وسکون، بچوں اور والدین کی صحت ، تعلیم وتربیت، روزگار کے حصول اور ترقی کے امکانات سے ہے۔ اُسے امن چاہیے۔ ایسا امن جس میں غم اور خوف ناپید ہوں۔ اُسے اردگرد ایسے انسان درکار ہوتے ہیں جو اُسے کھانے والے نہ ہوں بلکہ اس کا خیال رکھنے والے ہوں۔ جو اُسے ستانے والے نہ ہوں بلکہ اس کی مدد کرنے والے ہوں ۔
وہ ایک ایسا ماحول چاہتا ہے جس کے اندر اس کی عزت نفس اور جان و مال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔وہ ان تمام فکرات سے آزاد ہو جس طرح مہذب یا ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ عمومی طور پر آزاد رہتے ہیں۔ ایک دفعہ اس سوال کے جواب میںکہ آخر پاکستان کیوں بنایا گیا تھا کسی دانشور نے کہا تھا کہ مشترکہ ہندوستان میں پہلی پوزیشن مسلمان حاصل کرتا تھا لیکن پہلا انعام ہندو کو ملتا تھا۔ پاکستان اس لیے بنایا گیا تاکہ پہلا انعام اسی مسلمان بچے کو مل سکے جو مسلمان بچہ پہلی پوزیشن حاصل کرے۔ اب بھی اگر پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے کو پہلا انعام نہیںملتا تو پھر پاکستان بنانے کا فائدہ؟ حق تلفیوں نے جس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کو بددل کردیا تھا بالکل اسی طرح حق تلفیوںکا جاری رہنا ہمارے عام آدمی کو بد دل کررہا ہے۔
ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہم ساری دنیا کو صرف اپنی آنکھوں سے ہی دیکھتے ہیں۔ اگر ہم اپنی آنکھوں کے آگے سکہ رکھنے سے سورج نہ دیکھ سکیں تو اس سے سورج کا وجود معدوم نہیں ہوجاتا لیکن چونکہ ہماری نظر اور سورج کے درمیان سکہ آجاتا ہے اس لیے ہم سورج جیسی حقیقت سے بھی بعض اوقات منکر ہوجاتے ہیں اس میں قصور سراسر ہمارا اپنا ہوتا ہے۔
جب معاشرہ آدمی کی عام ضرور تیں تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ عمومی طور پر پوری کررہا ہو تو راوی چین کی بانسری بجاتا ہے لیکن اگر صورت حالات اس کے برعکس ہو یعنی ہر طرف محرومیاں ہی محرومیاں ہوں افراتفری کا عالم ہو تو آدمی کا حواس باختہ ہو جانا کوئی انہونی بات نہیں رہ جاتی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پرامن معاشروں میں پاگل پیدا نہیں ہوتے۔ پاگل ہر معاشرے میںہوتے ہیں۔ ہر معاشرے میں فرق صرف ان کی فیصد تعداد کا ہوتا ہے۔ جرائم وہاں بھی ہوتے ہیں جہاں کوئی غریب نہیںہوتا۔ ناانصافیاں وہاں بھی ہوتی ہیں جو انصاف کے علمبردار معاشرے کہلاتے ہیں اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے آدمی اس وقت حواس باختہ ہوتا ہے جب اسے اپنی ضرورتوں کے حصول کے سارے راستے مسدود نظر آئیں۔ قرینے سے خوشحال زندگی گذارنا ایک خواب بن جائے ۔
جب آپ کا کوئی دوست کوئی اپنا نہ رہے۔ جب آپ مکمل طور پر اکیلے رہ جائیں۔ ایسی صورت میں آپ مابعدالطبیعات قوتوں کے حصول کے بارے میں سوچنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ سوچ مثبت بھی ہوسکتی ہے اور منفی بھی۔ مثبت سوچ آپ کو سب کو ساتھ ملا کر اپنے ماحول کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق تبدیل کرنے کے قابل بنا دیتی ہے جب کہ منفی طرز فکر آپ کو پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے ۔
جس سے آپ طاقت ماورائی کے حصول کے لیے بیٹھے بیٹھے ایسی جست لگانے پر تیار ہوجاتے ہیں جو عقل وشعور سے مکمل طور پر عاری ہوتی ہے جس کا انجام صرف اور صر ف ذلت و رسوائی ہوتا ہے۔
ایک اخباری خبر کے مطابق ہالا میں جادوئی طاقت حاصل کرنے کے لیے باپ نے اپنے پانچ بچے گلادباکر ہلاک کردیے۔ علی نواز نامی شخص نے پہلے بیوی کوقتل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوگئی۔ بھائی کے مطابق ملزم اکثر چلے کاٹتا تھا۔ قتل کے بعد ملزم نے فرار ہونے کی کوشش کی جسے علاقہ مکینوں نے ناکام بنادیا۔ خبر کے مطابق پولیس نے پوسٹ مارٹم کے بعد لاشیں ہالا اسپتال بھجوادیں۔ خبر یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ پولیس نے مجرم کے ساتھ کیا کیا مقتول بچوںکے کیسے اور کس نے دفنایا۔ کیا وزیراعلیٰ سندھ نے اس واقعے کا نوٹس لیا۔ کیا کسی این جی او نے اس سلسلے میں کوئی کارروائی کی۔ کیا علاقہ مکینوں نے کوئی احتجاج کیا ۔ کیا علاقے کی مسجدوں سے اس واقعے کے خلاف کوئی آواز بلند ہوئی ۔ کیا کسی مقامی وڈیرے نے اس واقعے کی مذمت کی، کیا اس حلقے کے ایم این اے یا ایم پی اے نے موقع پر جاکر حالات کا جائزہ لیا۔ کیا کسی مذہبی یا سیاسی جماعت نے اس بارے میں بات کی، نہیں ہرگز نہیں۔
ہالا کے کسی گدی نشین کو بھی اس بارے میں کسی قسم کی تشویش نہیں ہوئی۔ اس واقعے پر کسی ٹی وی چینل نے کسی ٹاک شو کا اہتمام بھی نہیںکیا۔ اس لیے کہ ہمارے عظیم ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اہمیت لوگوں کی نہیں۔ لوگ تو صرف کیڑے مکوڑے ہیں۔ہم نے بڑی آسانی سے سن لیا یا پڑھ لیا کہ ایک باپ نے اپنے پانچ بچوں کو گلا دبا کر قتل کردیا فاقہ زدگی کی وجہ سے نہیں کسی بیماری سے تنگ آکر نہیں بے روزگاری کے باعث نہیں، غیرت کے نام پر نہیں صرف ماورائی جادوئی قوتیں حاصل کرنے کے لیے ایک باپ ہمارے معاشرے میں اپنے ہی پانچ معصوم بچوں کو خود اپنے ہاتھوں سے گلا دبا کر قتل کردیتا ہے اور کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔