نوجوانوں کو سپر اسٹار بننے کا موقع مل گیا مصباح اور یونس کو عمران اور میانداد جیساکردار ادا کرنا ہوگا

حالات سازگار نہیں مگر قوم کی توقعات آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی ہیں


Saleem Khaliq January 18, 2015
حالات سازگار نہیں مگر قوم کی توقعات آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی ہیں۔ فوٹو : فائل

INDIA: ''مشن امپاسیبل'' کی تکمیل کا خواب آنکھوں میں سجائے پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ روانگی کے لیے پر تول رہی ہے۔

حالات سازگار نہیں مگر قوم کی توقعات آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی ہیں، غیر مستحکم بیٹنگ، کمزور بولنگ، مشکل آسٹریلوی کنڈیشنز اور رینکنگ میں ساتویں پوزیشن کو بھلا کر لوگ گرین شرٹس سے ورلڈکپ کی امیدیں وابستہ کر رہے ہیں، یہ کام مشکل ضرور ہے مگر کرکٹ میں کچھ بھی ناممکن نہیں،اگر کھلاڑیوں نے صلاحیتوں سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی تو مجھ جیسے نام نہاد تجزیہ نگاروں کو غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔

یہ میگا ایونٹ بھی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہو گا جہاں ہماری ٹیم 1992میں چیمپئن بن چکی،اس وقت ہمیں عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم،رمیز راجہ، مشتاق احمد اور انضمام الحق جیسے کھلاڑیوں کا ساتھ حاصل تھا، اب گوکہ بڑے نام موجود نہیں مگر نوجوان کھلاڑی عمدہ کھیل سے عالمی سطح پر اپنی پہچان ضرور بنا سکتے ہیں، سب سے بڑی ذمہ داری مصباح الحق اور یونس خان کے کندھوں پر ہو گی، دونوں کو اپنی کارکردگی سے ٹیم کے لیے وہی کردار ادا کرنا ہوگا جو 1992میں عمران اورمیانداد نے نبھایا،اسی کے ساتھ ہمیں ٹیم سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر کے اسے دباؤ کا شکار نہیں کرنا چاہیے،آپ اس حقیقت کو مانیں کہ مصباح ون ڈے سائیڈ کو یونٹ کی صورت میں ڈھالنے میں ناکام رہے ہیں، گذشتہ برس ہماری کارکردگی انتہائی ناقص رہی، اس وقت ہم رینکنگ میں ساتویں نمبر پر موجود اور آٹھویں پر تنزلی کا سامنا ہے۔



سارا سال کچھ نہیں پڑھیں اور پھر امتحان میں فرسٹ آنے کی توقع باندھ لیں یہ تو درست نہیں ہوگا، شائقین ابتدا میں کم توقع رکھیں اور پھر بتدریج اسے بڑھاتے رہیں، ایونٹ کا فارمیٹ کچھ ایسا ہے کہ گرین شرٹس کوارٹر فائنل میں تو پہنچ ہی جائیں گے،اس کے بعد قسمت کا بھی عمل و دخل ہو گا، ابتدا میں فائنل ایٹ کو ہی ذہن میں رکھنا چاہیے، اسی کے ساتھ پلیئرز بھی بلند وبانگ دعوؤں سے گریز کریں، میں نے اب تک بھارتی کپتان مہندرا دھونی کا بھی کوئی ایسا بیان نہیں دیکھا جس میں انھوں نے گرین شرٹس کے چھکے چھڑانے کی بات کہی ہو مگر ہمارے بچے بچے پلیئرز روز بیانات دے رہے ہیں کہ کوہلی نشانے پر ہوگا۔

بھارتیوں کو ہرانے میں اہم کردار ادا کروں گا وغیرہ، انھیں میرا مشورہ ہے کہ ان کا کام بیٹ اور گیند کا استعمال ہے، لفظی فائرز کا کام ہم جیسے میڈیا پرسنز پر چھوڑ دیں،ابھی سے بڑی بڑی باتیں کر کے وہ خود پر دباؤ مزید بڑھا رہے ہیں، یہیں محسوس ہوتا ہے کہ بورڈ میڈیا مینجمنٹ پر بالکل بھی توجہ نہیں دیتا، ورنہ پریس کانفرنس سے قبل کھلاڑیوں کو بتایا جاتا کہ کس سوال کا کیا جواب دینا ہے، اپنے الفاظ سے جتنی انکساری کا مظاہرہ کریں گے اتنی ہی کامیابیاں ملیںگی، صرف بیانات دینے سے کام چلتا تو آج بہت سے قومی کرکٹرز بریڈ مین اور ٹنڈولکر سے بھی آگے نکل چکے ہوتے۔



اس ورلڈکپ میں کئی باتیں ہمارے حق میں نہیں، ایونٹ سے قبل ہی سعید اجمل پر پابندی عائد ہو گئی، ٹیم خصوصاً کپتان مصباح الحق کا زیادہ تر انحصار انہی پر ہوتا تھا، عدم موجودگی سے سارا پلان چوپٹ ہو گیا، اسی کے ساتھ سونے پہ سہاگہ محمد حفیظ کی بولنگ پر پابندی لگنے سے ہوا، یوں ٹیم دونوں آف اسپنرز سے محروم ہو گئی، سلیکٹرز نے بطور متبادل لیگ اسپنر یاسر شاہ کا انتخاب کر کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا، اسکواڈ میں شاہد آفریدی ویسے ہی موجود ہیں، ایک طرز کے 2بولرز کا ساتھ کھیلنا مشکل ہوگا،ایسے میں یاسر کو ساتھ بھیجنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی، یہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے حالیہ ٹیسٹ سیریز میں عمدہ پرفارم کیا مگر ون ڈے اور پانچ روزہ میچ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، اسی طرح ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ حارث سہیل پارٹ ٹائم بولر ہیں، وہ یواے ای میں توکامیاب رہے مگر آسٹریلوی کنڈیشنز میں کوہلی جیسے بیٹسمین ان کا حشر نشر کر سکتے ہیں،شاید اس بارے میں سلیکٹرز نے زیادہ غور نہیں کیا۔



اسپن اٹیک تو کمزور ہے ہی پیس بولنگ تو بالکل بھی کارآمد نہیں لگتی،آسٹریلوی پچز سے روایتی طور پر پیسرز کو مدد ملتی ہے مگر ہمارے مین بولرز جنید خان اور محمد عرفان کی فٹنس مثالی نہیں ہے، جنید حال ہی میں فٹ ہو کر واپس آئے مگر پھر کیمپ کے دوران انجرڈ ہو گئے، گوکہ بورڈ کے مطابق انجری خطرناک نہیں اور وہ ٹیم کے ساتھ جائیں گے مگر ہمیشہ ایک دھڑکا ضرور لگا رہے گا، اسی طرح نازک مزاج عرفان بھی ان فٹ ہونے میں دیر نہیں لگاتے،وہاب ریاض برسوں سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیل رہے ہیں مگر میچ وننگ کارکردگی نہیں دکھائی،ان کا ٹیلنٹ صرف وقار یونس کو ہی نظر آتا ہے، سہیل خان بیچارے کو اب تک یقین نہیں آیا ہوگا کہ وہ قومی ٹیم میں شامل ہو چکے ہیں۔

چند روز قبل پینٹنگولر کپ کے دوران چیف سلیکٹر معین خان نے ان سے کہا کہ اپنی کٹ محمدسمیع کو دے دو، مگر پھر ایک اور ٹیم کے پیسر کی دستبرداری کے سبب سمیع کو وہاں بھیج دیا،ایسے میں سہیل نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا تو سلیکٹرز انھیں قومی اسکواڈ میں جگہ دینے پر مجبور ہو گئے، اسی کو قسمت کہتے ہیں قائد اعظم ٹرافی کا ٹاپ بولر ہونے کے باوجود جو ورلڈکپ کے ابتدائی 30کھلاڑیوں میں شامل نہ ہو سکا۔



اب بزنس کلاس سے سفر کر کے نیوزی لینڈ و آسٹریلیا جائے گا،راشد لطیف ان کے ٹیلنٹ کی کافی عرصے سے نشاندہی کر رہے تھے مگر کسی نے توجہ نہ دی مگر پھر آخرکار منتخب کرنا ہی پڑا، ویسے اگر میرٹ پر دیکھا جائے تو اس وقت چیف سلیکٹر کی پوزیشن کے لیے بہترین انتخاب راشد ہی ہیں، اپنی ایمانداری اور ڈومیسٹک کرکٹ پر گہری نظر کی وجہ سے وہ نیا ٹیلنٹ سامنے لا سکتے ہیں، مگر کیا کریں ایسے لوگ ارباب اختیار کو پسند نہیں آتے، اسی لیے وہ اس پوزیشن پر ٹک کر کام نہیں کر سکے۔

راشد اگر ہوتے تو سہیل جیسے کئی حقدار پہلے ہی ٹیم میں جگہ بنا چکے ہوتے، افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت ہمارے فاسٹ بولنگ اٹیک میں شامل صرف وہاب ریاض ہی ایسے بولر ہیں جنھوں نے میچ میں 5 وکٹیں لیں، انھوں نے بھی یہ اعزاز گذشتہ ورلڈکپ میں بھارت کے خلاف شکست پر ختم ہونے والے میچ میں حاصل کیا، اس کے بعد چار برس بیت گئے اب اگلا میگا ایونٹ آ گیا مگر وہ خود کو نہ منوا سکے، عرفان نے 38میچز کھیل لیے مگر صرف ایک بار 4 پلیئرز کو آؤٹ کیا، سہیل خان کو صرف 5اور احسان عادل کو2میچز کا ہی تجربہ حاصل ہے، جنید نے 48میچز میں 3 بار 4 وکٹیں لی ہیں، اب سازگار پچزپر ان سب کو صلاحیتوں کا اظہار کرنا چاہیے البتہ اس کے لیے فٹنس کا زیادہ خیال رکھنا ہوگا، ماہرین بتاتے ہیں کہ آسٹریلوی گراؤنڈز پر کھیلتے ہوئے انجری کے چانسز بھی بڑھ جاتے ہیں۔

اعدادوشمار کے لحاظ سے تو ہمارا پیس اٹیک زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دیتا مگر جذبے جوان ہوں تو کچھ بھی ناممکن ہے، یقینا اپنے وقتوں کے معروف کوچ وقار یونس اس حوالے سے کوشش تو کر رہے ہوں گے، یہ اور بات ہے کہ اب تک وہ کسی بولر کو اپنے سے آدھے معیار کا بھی نہیں بنا سکے، ون ڈے کرکٹ میں بطور کوچ وہ ناکام دکھائی دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ٹیم ان کے موجودہ دور میں سری لنکا،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے تینوں سیریز ہار چکی، گذشتہ ورلڈکپ میں گوکہ ان کی زیرکوچنگ گرین شرٹس سیمی فائنل میں پہنچے مگر بھارت سے شکست کو فراموش نہیں کیا جا سکتا،اسی کے ساتھ کپتان شاہدآفریدی اور شعیب اختر سے ان کے تعلقات بھی کشیدہ رہے۔

اس سے قبل بطور کھلاڑی ورلڈکپ وقار یونس کے لیے انتہائی مایوس کن ثابت ہوا،1992میں وہ اپنی خطرناک بولنگ کے سبب حریف بیٹسمینوں کے لیے دہشت کی علامت بنے ہوئے تھے مگر انجرڈ ہو کر آسٹریلیا سے واپس آ گئے،1996کے کوارٹر فائنل میں وہ بھارتی بیٹسمین اجے جڈیجا کی جارحیت کا شکار ہوئے، جنھوں نے ان کے ایک اوور میں 22 رنز بنا دیے، اسی طرح1999کے ورلڈکپ میں کپتان وسیم اکرم نے انھیں صرف ایک ہی میچ میں موقع دیا لیکن کچھ نہ کر سکے، اب وقار یونس کو موقع ملا ہے کہ ٹیم کو بطور کوچ کامیابی دلا کر ان محرومیوں کا ازالہ کریں، اگر ایسا نہ ہوا تو ان کے شاندار کیریئر پر ہمیشہ ایک داغ لگا رہے گا۔

پاکستانی بیٹنگ کا جائزہ لیں تو اوپننگ کا شعبہ کمزور دکھائی دیتا ہے، صرف 2 اسپیشلسٹ اوپنرز کے ساتھ کام چلانا آسان نہیں ہوگا، مصباح ذہنی طور پر سرفراز احمد کو بطور اوپنر قبول کرنے کو تیار نہیں،ایسے میں اگر خدانخواستہ احمد شہزاد اور محمد حفیظ کی فارم نے ساتھ نہ دیا تو کیا ہو گا،ٹیم کو اگر میگا ایونٹ میں آگے جانا ہے تو احمد شہزاد کا کردار خاصا اہم ہو گا، وہ انتہائی باصلاحیت بیٹسمین ہیں، اگر اچھا آغاز دینے میں کامیاب رہے تو ٹیم کے کام آئیں گے،اسی طرح بطور بولر اگر حفیظ کلیئر نہ ہو سکے تو ان پر پرفارمنس کے لیے خاصا دباؤ ہوگا مگر وہ تجربہ کار پلیئر اور اس قسم کی صورتحال سے نبردآزما ہو سکتے ہیں،1992 کی پاکستانی مہم میں عمران خان اور جاوید میانداد کا اہم کردار تھا، جیسے پہلے ذکر کیا کہ اب وہی کام مصباح اور یونس کو کرنا ہوگا، البتہ دونوں کے لیے اسٹرائیک ریٹ پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔

اب قوانین تبدیل ہو چکے، ابتدا میں روکو بعد میں پٹائی کی پالیسی شاید کامیاب نہ رہے،ان کی سست بیٹنگ نے 2011میں ٹیم کو نقصان پہنچایا لہٰذا اب ان غلطیوںکو دہرانے سے گریز کرنا ہوگا، یونس اور مصباح پر نہ صرف خود پرفارم کرنے کی ذمہ داری عائد ہوگی بلکہ انھیںجونیئرز کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔پاکستانی فتح کی کنجی شاہد آفریدی ثابت ہو سکتے ہیں، وہ آسٹریلوی پچز پر کھیلنے کا خاصا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔



ان کی بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ ٹیم کے بہت کام آئے گی،مصباح کی طرح آفریدی ورلڈکپ کے بعد ون ڈے سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکے لہٰذا ایونٹ کو اپنی عمدہ پرفارمنس سے یادگار بنا سکتے ہیں۔ حارث سہیل اور سرفراز احمد نے حالیہ عرصے میں عمدہ کارکردگی دکھائی ہے انھیں بھی اس کا معیار برقرار رکھنا ہوگا،اسی طرح صہیب مقصود اپنے آئیڈیل انضمام الحق کی طرح آسٹریلوی پچز پر ورلڈکپ میں پرفارم کر کے نام کما سکتے ہیں، عمر اکمل کے پاس بھی ناکامیوں کے ازالے کا اچھا موقع ہو گا۔

پی سی بی ورلڈکپ میں چیف سلیکٹر معین خان کو بھیج کر نئی روایت قائم کر رہا ہے، چیئرمین نے پہلے انھیں نیوزی لینڈ نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا مگر پھر سفارشیں آنے سے نرم پڑ گئے، چند روز قبل جب معین نے لاہور جا کر احتجاج کیا تو شہریارخان نے ایک اور یوٹرن لیتے ہوئے ان کے لیے بھی نیوزی لینڈ کا ٹکٹ بک کرانے کا حکم صادر کر دیا، ہمیں اب آف فیلڈ ایکشن کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے، کراچی میں 15 کھلاڑی چنتے ہوئے معین خان، مصباح الحق اور وقار یونس میں اتفاق نہ ہو سکا، کپتان اور کوچ میٹنگ سے ناخوش واپس چلے گئے، بعد میں بورڈ چیف نے معاملہ حل کرایا، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب ٹورز میں کیا ہوگا، جو لوگ 15پلیئرز پر متفق نہ تھے وہ 11میں کیسے ہوں گے، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں ٹیم کا باس کون ہوگا یہ اہم سوال ہے۔

کسی صورت وقار اور مصباح سلیکشن میں معین کی مداخلت پسند نہیں کریں گے اور اگر چیف سلیکٹر سلیکشن کے عمل میں شریک نہیں تو انھیں بھیجنے کا کیا فائدہ، انھیں بھیج کر بورڈ ایک نیا محاذ کھول رہا ہے، امید ہے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوگا۔ سب کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ کوئی مفت میں کام نہیں کر رہے، انھیں بھاری معاوضہ ملتا ہے،پاکستانی ٹیم کسی کی جاگیر نہیں، اگر وہ جیتی تو سب کا ہی نام ہو گا،اس وقت ہمارا اسکواڈ زیادہ مضبوط نہیں اور آف دی فیلڈ مسائل برداشت نہیں کر سکتا،صرف اتحاد کی صورت میں ہی عمدہ کھیل کا خواب حقیقت کا روپ دھارسکے گا، پلیئرز، کوچ، کپتان، چیف سلیکٹر جو بھی ہوں سب اپنے ذاتی اختلافات بھول کر ملک کا نام روشن کرنے کا عزم رکھیں، اسی صورت ناممکن کو ممکن بنایا جا سکے گا۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں