ورلڈکپ کی کہکشاں میں جن ستاروں کی کمی محسوس ہوگی

رکی پونٹنگ کی قیادت میں آسٹریلیا نے2003ء اور 2007ء کا ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔

بولرز میں جادوگر سپنر مرلی دھرن نے ورلڈ کپ 2011ء آخری مرتبہ کھیلا۔ فوٹو: فائل

ورلڈکپ کا 11واں میلہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں سجانے کی تیاریاں مکمل ہیں،آئندہ ماہ دنیائے کرکٹ کی بہترین ٹیمیں اپنے شاندار کھیل کی بدولت شائقین کے دل اور عالمی ٹائٹل جیتنے کا عزم لئے میدان میں اتریں گی۔

تجربہ کار کرکٹرز اپنی افادیت منوانے کے لیے بیتاب ہیں تو جونیئرز اپنے روشن مستقبل کی نوید سنانے کے لیے بہتر سے بہتر کارکردگی دکھانے کا عزم لئے میدان میں اتریں گے، دوسری طرف شائقین اس کہکشاں میں چند ایسے ستارو ں کی کمی بھی شدت سے محسوس کریں گے جو گزشتہ میگا ایونٹ کی رونقیں بڑھا رہے تھے لیکن اس بار منظر عام پر نظر نہیں آئیں گے۔

بھارت میں کرکٹ دیوتا کی حیثیت رکھنے والے سچن ٹنڈولکر کے لیے ورلڈکپ2011ء آخری معرکہ ثابت ہوا، 1992ء سے مسلسل 6 عالمی کپ کھیل کر جاوید میانداد کا ریکارڈ برابر کرنے والے لٹل ماسٹر ہوم ایونٹ کی ٹرافی کا خواب پورا کرنے کے بعد کرکٹ کی دنیا کو خیرباد کہہ گئے، انہوں نے گزشتہ آخری ورلڈ کپ کے تمام 9 میچوں میں شرکت کی اور 2 سنچریوں کی مدد سے 482 رنز بنائے، وہ سری لنکن بیٹسمین دلشان کے 500 رنز کے بعد ٹورنامنٹ کے دوسرے ٹاپ سکورر رہے، بھارتی ماسٹر کو سب سے زیادہ رنز اور سب سے زیادہ سنچریاں بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے، ان کی ورلڈ کپ میں مجموعی کارکردگی بھی شاندار رہی ہے۔ سچن ٹنڈولکر نے 6 ورلڈ کپ کے 45 میچوں کی 44 اننگز میں 2278 رنز بنائے، ان میں 6 سنچریاں اور 15 نصف سنچریاں شامل ہیں۔

ان کا بہترین اسکور 152 رنزاور ان کی ایوریج 56.95 ہے۔ ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ سنچریاں بنانے کا اعزاز بھی ان کو حاصل ہے۔ اسی طرح 2003ء کے ورلڈ کپ میں ان کو سب سے زیادہ 673 رنز بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ 1996ء کے ورلڈ کپ میں بھی وہ 523 رنز کے ساتھ ٹاپ سکورر رہے تھے۔ آسٹریلیا کے رکی پونٹنگ بھی قصۂ پارینہ ہو گئے، ان کے لیے بھی 2011ء کا ورلڈ کپ آخری شو پیس ایونٹ ثابت ہوا۔ آسٹریلوی سٹار بیٹسمین نے نے اگرچہ سچن ٹنڈولکر سے ایک ورلڈ کپ کم کھیلا ہے مگر ان کو ٹنڈولکر کے 45 میچز کے مقابلہ میں 1 میچ زیادہ یعنی46 ریکارڈ میچ کھیلنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے 45.86 کی اوسط سے 5 سنچریوں اور 6 ففٹیز کی مدد سے 1473 رنز بنائے ہیں۔


رکی پونٹنگ کی قیادت میں آسٹریلیا نے2003ء اور 2007ء کا ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔ آسٹریلیا 2015ء کا ورلڈ کپ ان کے بغیر کھیلے گا۔ ورلڈ کپ میں بھارت کے گوتم گھمبیر، ظہیر خان، ہربھجن سنگھ،یوراج نظر نہیں آئیں گے۔ 20میچ کھیلنے والے جنوبی افریقہ کے کپتان گریم سمتھ کے لیے بھی2011ء کا میگا ایونٹ الوداعی ثابت ہوا۔ ان کھلاڑیوں کی بھی کرکٹ میں زبردست خدمات ہیں۔ بھارت کے وریندر سہواگ اور جنوبی افریقہ کے جیک کیلس بھی اس مرتبہ نہیں ہوں گے۔

بولرز میں جادوگر سپنر مرلی دھرن نے ورلڈ کپ 2011ء آخری مرتبہ کھیلا۔ انہوں نے اس کے9 میچوں میں 291 رنز کے عوض 15 وکٹیں حاصل کیں۔ ان کی ٹیم نے فائنل میں رسائی حاصل کی۔ مرلی دھرن نے گزشتہ 5 ورلڈ کپ میں شرکت کی اور 40 میچوں میں 68 کھلاڑیوں کو شکار کیا۔ آسٹریلیا کے بریٹ لی نے بھی 2011ء کے بعد ریٹائر ہوگئے اس ایونٹ میں انہوں نے 235 رنز کے عوض 13 وکٹیں حاصل کیں۔ جبکہ ورلڈ کپ کے 17 میچوں میں ان کی وکٹوں کی تعداد 35 ہے۔ پاکستان کے سپیڈ سٹار اور دنیا کے سب سے زیادہ تیزبولر شعیب اختر کے لیے 2011 ء کا ورلڈکپ ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ پورے ٹورنامنٹ میں وہ صرف 3 میچ کھیل سکے اور قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں ان کی پٹائی ہوئی۔ اتفاق سے وہ ان کے کیریئر کا آخری میچ ثابت ہوا۔ شعیب اختر نے ورلڈ کپ کے 19 میچوں میں 30 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔

اپنے وقت کے کئی عظیم کھلاڑی اب ماضی کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں، ان کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ کئی اور کھلاڑی مثلاً انگلینڈ کے کیون پیٹرسن، پاکستان کے عبدالرزاق، عمرگل سمیت کئی کھلاڑی ورلڈ کپ 2011ء میں جلوہ گر نہیں ہورہے۔ بلاشک و شبہ 2015ء کا ورلڈ کپ ان عظیم کھلاڑیوں کی غیر حاضری سے پھیکا پھیکا رہے گا لیکن ورلڈ کپ کی رونقیں اب بھی ماند نہیں پڑیں گی کیونکہ چلتی کا نام گاڑی ہے اور اس گاڑی میں سوار آج کے بچے کل کے بڑے بڑے سپر سٹار بن کر نکلیں گے، جن کے کارنامے بھی ماضی کے عظیم کھلاڑیوں سے بہتر نہ سہی ان جیسے یا ان کے قریب قریب ہوں گے۔

asif.riaz@express.com.pk
Load Next Story