تلخ معاشرتی سچائیوں کو اپنے افسانوں کے قالب میں ڈھالنے والے منٹو کو بچھڑے 60 برس بیت گئے

منٹو کے شہرہ آفاق افسانوں میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں اور کالی شلوار جیسی تخلیقات شامل ہیں

منٹو نے اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کی تلخ سچائیوں کو دکھایا فوٹو: فائل

معاشرے کی تلخ سچائیوں کو افسانوں اور کہانیوں کے قالب میں ڈھال کر اسے امر کرنے والے عظیم ادیب سعادت حسن منٹو کو مداحوں سے بچھڑے 60 برس بیت گئے۔


11 مئی 1912 کو لدھیانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے سعادت حسن منٹو کا بچپن امرتسر میں گزرا، والد کی سختی کے باعث گھر میں سعادت حسن منٹو ایک سہمے ہوئے بچے کی طرح رہتے تھے لیکن اپنے علاقے کے گلی کوچوں میں وہ غیر معمولی شرارتیں کرکے دوستوں کو چونکا دیتے تھے۔ وہ ابتدا ہی سے تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے۔ میٹرک کے امتحان میں 3 مرتبہ فیل ہونے کے بعد انھوں نے 1931 میں یہ امتحان پاس کیا۔

منٹو نے ابتدا میں ترقی پسند نظریات کے حامل افسانے لکھے جس کے بعد ان کے اسلوب اور تخلیق میں مسلسل نکھار آتا گیا اور پھر ان کی ہر تحریر آنے والے وقت کا ادبی معیار بنتی گئی۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کی ان تلخ سچائیوں کو دکھایا جسے لوگ گمراہ لوگوں کی دنیا گردان کر اسے درخوراعتناء ہی نہیں سمجھتے تھے۔ وہ اپنے افسانوں اور کہانیوں میں تیسری دنیا کے پسماندہ معاشروں کے تضادات کو انتہائی واضح طور پر دکھاتے تھے، اردو کے عظیم ادیب کو ہم سے سے بچھڑے 60 برس بیت گئے لیکن ان کی تحریریں آج بھی دنیا کو اس عظیم مصنف کی باریک بین آنکھ اور ان کے خیالات و مشاہدات سے متعارف کراتی ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اردو زبان لکھی، پڑھی اور بولی جاتی رہے گی۔
Load Next Story