ترجیحات کا تعین
ہمارے یہاں ایک غلط تصور یہ عام کر دیا گیا ہے کہ فوجی حکمرانوں نے جو بھی فیصلے کیے، وہ سبھی غلط تھے۔
ISLAMABAD:
بارہ جنوری کو جب تعلیمی ادارے طویل سرمائی تعطیلات کے بعد دوبارہ کھلے تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف آرمی پبلک اسکول پشاور پہنچ گئے۔ اسکول میں ان کی آمد اور صبح کی دعا میں شرکت 16 دسمبر کو ہونے والی بدترین دہشت گردی کے بعد طلبا و اساتذہ کے ذہنوں پر چھائے خوف و ہراس کے بادل چھانٹنے اور غمزدہ والدین کو حوصلہ دینے کا سبب بنی۔
جب کہ امید کی جا رہی تھی کہ سیاسی قیادتیں بشمول اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی اپنے اپنے حلقے کے خواہ چند ہی سہی اسکولوں کا دورہ کر کے طلبا، اساتذہ اور والدین کو حوصلہ دینے کی کوشش کریں گے۔ مگر یہ خواہش خبر نہ بن سکی۔ اس تناظر میں عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ شہید بچوں کے والدین کا فطری ردعمل تھا۔ اس پر کسی کو بھی سیاست نہیں چمکانی چاہیے۔
آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحہ عظیم نے پورے ملک کے ان تمام والدین کو شدید بے چینی اور اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے، جن کے بچے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ امید یہ کی جا رہی تھی کہ حکومت اس سانحے کے بعد ایک طرف تو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی تیار کرتے ہوئے فوری طور پر پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو فعال اور مستعد بنانے پر توجہ مرکوز کرے گی۔
دوسری طرف تعلیمی اداروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے اقدامات کرے گی۔ لیکن اس سلسلے میں پھانسی کی سزا کی بحالی اور چند فوجی عدالتوں کے قیام کے علاوہ دہشت گردی کی عفریت سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں آ سکا ہے۔ لہٰذا حکومتی اقدامات محض لیپاپوتی یا نمائشی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ایک عمومی عالمگیر تصور یہ ہے کہ سیاسی رہنمائوں کی سیاسی عزم و بصیرت غیر سیاسی قیادتوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ ان میں چھوٹے چھوٹے واقعات کی نزاکتوں کو سمجھنے اور ان کی حساسیت کی مناسبت سے عمل کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان کے تجربات اس سے برعکس کہانی سناتے ہیں۔
معاملہ آج کی سیاسی قیادتوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ ابتدائی دور کی سیاسی قیادت کے معمولات بھی مختلف نہیں رہے ہیں، مثال کے طور پر ایک بیوروکریٹ چوہدری محمدعلی مرحوم کا اثر و نفوذ اس قدر زیادہ تھا کہ اس وقت کی دستورساز اسمبلی نے بغیر سوچے سمجھے مارچ 1949ء میں قرارداد مقاصد منظور کرلی۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ کسی ریاست کے مقاصد کا تعین اس کے قیام سے پہلے طے کیا جاتا ہے۔
پھر 1947ء سے 1954ء تک 7 برس کے عرصے میں دستور ساز اسمبلی کے کل 156 سیشن ہوئے، جن میں سوائے قرارداد مقاصد کی منظوری کے آئین سازی کے حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی، بلکہ اراکین اسمبلی اپنی مراعات کے لیے لڑتے جھگڑتے رہے۔ 1955ء میں سیاسی قیادت نے خواہ بیوروکریسی کے ایما پر ہی سہی ملک میں ون یونٹ قائم کر کے اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت اور عوام کے جمہوری حقوق کی کمر میں چھرا گھونپ دیا۔ رہی سہی کسر حاضر سروس جنرل کو وزیر دفاع بنا کر پوری کر دی۔ گویا اپنے ہی ہاتھوں فوجی آمریت کی راہ بھی ہموار کر دی۔
حالانکہ یہ وہی زمانہ تھا جب پڑوسی ملک میں دستور سازی کے ساتھ ساتھ ریاستی انتظامی ڈھانچہ میں اصلاحات کا عمل بھی تیزی کے ساتھ جاری تھا۔ اگر ان کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو ڈھائی برس کی قلیل مدت میں آئین نہ صرف تیار ہوا، بلکہ پارلیمان میں بحث و مباحثہ کے بعد منظور ہو کر 26 جنوری 1950ء سے نافذ بھی ہو گیا۔ اسی عرصہ میں زرعی اصلاحات کا بل منظور ہوا اور پورے ملک سے مرحلہ وار جاگیرداری اور ریاست و راجواڑوں کے خاتمے کا عمل بھی شروع ہو گیا۔
ولبھ بھائی پٹیل کی زیر قیادت قائم کمیٹی نے بیوروکریسی میں اصلاحات کی تجاویز مرتب کیں اور دسمبر 1950ء میں ان کے انتقال سے قبل ان پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے مرکزی سیکریٹری تعلیم ڈاکٹر غلام السیدین (مولانا حالی کے نواسے) کے ساتھ مل کر آزاد ہند کے لیے تعلیمی پالیسی ترتیب دی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ ملک جو 7 صدیوں تک ہمارا زیر نگیں رہا تھا، آزادی کے بعد تیزی کے ساتھ اصلاحات کرتے ہوئے ایک آزاد و خودمختار ریاست کے طور پر اپنا تشخص بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جب کہ ہم اپنی نااہلی اور کوتاہ بینی کے سبب ترقی معکوس کے مسافر بن گئے۔
ہمارے یہاں ایک غلط تصور یہ عام کر دیا گیا ہے کہ فوجی حکمرانوں نے جو بھی فیصلے کیے، وہ سبھی غلط تھے اور ان کے تمام اقدامات ناقص تھے۔ اس میں شک نہیں کہ فوجی آمریتوں نے ملک کے سیاسی و سماجی Fabric کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت یہ ہے کہ فوجی آمریتوں کے دور میں کیے گئے بعض اقدامات خاصے پائیدار اور دور رس نتائج کے حامل تھے۔ اس کی سب سے اہم مثال مقامی حکومتوں کا نظام ہے، جس کے ذریعے ان تمام حکومتوں نے عوام کو بہتر سماجی سہولیات مہیا کرنے کی کوشش کی۔
خواہ وہ ایوب خان کا بنیادی جمہوری نظام ہو یا جنرل ضیاء کا بلدیاتی ڈھانچہ یا جنرل پرویز مشرف کا مقامی حکومتوں کا نظام ہو۔ خدمات کی ادائیگی (Service Delivery) کے اعتبار سے تینوں نظام انتہائی کامیاب رہے۔ جب کہ 1973ء کے آئین میں مقامی حکومتوں کے بارے میں شقوں کی موجودگی کے باوجود سیاسی قیادتیں مختلف حیلے بہانوں سے اس نظام کے نفاذ سے بھاگتی رہی ہیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ ایک سے زاید مرتبہ اس نظام کو جاری کرنے کے بارے میں احکامات جاری کر چکی ہے، مگر کوئی بھی حکومت اس کے احکامات پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
اب جہاں تک 18 ویں ترمیم کے ذریعے طویل عرصے سے اٹکے ہوئے صوبائی خودمختاری کے مسئلے کے حل کیے جانے کا تعلق ہے، تو اس میں میں شک نہیں کہ صوبائی خودمختاری کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے کی سمت میں ایک واضح پیش رفت ہوئی ہے۔ مگر اس پر عملدرآمد کا Modus Operandi مرتب کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے اختیارات کی تقسیم اور ان کے مزید نچلی سطح تک منتقلی کا عمل ہنوز کنفیوژن کا شکار ہوچکا ہے، جب کہ مردم شماری کے عمل کو سیاسیانے (Politicise) کے باعث وسائل کی آبادی کی بنیاد پر منصفانہ تقسیم کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
اسی طرح توانائی کے بحران پر قابو پانے میں بھی سابقہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت ناکام ہے۔ سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ جب حکمران قیادت اس بحران کی نوعیت کو سمجھنے ہی سے قاصر ہو، تو اس سے ایسے کسی حساس مسئلے کے صائب اور قابل عمل حل کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے؟ یہی کچھ معاملہ خارجہ پالیسی کا ہے کہ جس میں حکومت کسی واضح سمت کا تعین کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہے۔
موجودہ حکمران جماعت بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی کہ وہ ریاستی منتظمہ کو سیاسی قیادت کے تابع لا کر انھیں منتخب حکومت کے فیصلے تسلیم کرنے پر مجبور کر دے گی۔ لیکن معاملات و مسائل کا دوراندیشی کے ساتھ ادراک کرتے ہوئے ان کی صحیح اور واضح ترجیحات کا تعین نہ کر سکنے کے سبب زمین آہستہ آہستہ اس کے پیروں کے نیچے سے سرکتی چلی گئی۔ نتیجتاً جب پانی سر سے بلند ہونے لگا تو عسکری قیادت کو ایک بار پھر بعض حساس اور فوری نوعیت کے فیصلے کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آج منتخب حکومت کی حیثیت محض نمائشی ہے اور تمامتر اہم قومی فیصلے عسکری قیادت کر رہی ہے۔ خاص طور پر دہشت گردی کے مسئلے پر سیاسی جماعتیں کافی عرصے سے منقسم چلی آ رہی تھیں، حکمران جماعت کے اندر بھی اس مسئلے پر شدید اختلافات موجود تھے، جب کہ خود وزیراعظم بھی اس مسئلے پر کنفیوژن اور ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔
اگر عسکری قیادت ضرب عضب شروع نہ کرتی اور پھر سانحہ پشاور کے بعد سیاسی قیادتوں کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل پر مجبور نہ کرتی، تو شاید اتنا کچھ بھی نہ ہوپاتا جو کچھ ہو رہا ہے۔ کیونکہ اب تک ہر جماعت اپنا اپنا راگ الاپتی رہی تھی، جب کہ حکمران جماعت سیاسی عزم کے فقدان کے باعث دہشت گردی کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام کرنے سے گریز کرتی رہی تھی، جس کی وجہ سے اس عفریت کو مزید پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔
اس بیانیہ کا مقصد کسی بھی طور عسکری قیادت کو سیاسی قیادت سے بہتر ثابت کرنا نہیں ہے، بلکہ سیاسی قیادتوں کو آئینہ دکھانا ہے، جو آج بھی قومی سطح پر ابھرنے والے مسائل کے حل کے لیے ترجیحات ترتیب دینے میں ناکام ہیں۔ اس صورتحال کا سبب سیاسی جماعتوں میں پایا جانے والا فیوڈل Mindset ہے، جو اقتدار و اختیار کی عدم مرکزیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جس کی وجہ سے منتخب حکومتیں اقتدار و اختیار میں مناسب فاصلہ پیدا کرنے کے علاوہ عوام کے وسیع تر مفاد میں کوئی ٹھوس، پائیدار اور قابل عمل پالیسی تشکیل دے کر اس پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔
موجودہ صورتحال کے تناظر میں انھیں سوچنا ہو گا کہ کس طرح خود کو Assert کرتے ہوئے حکمرانی کے موجودہ ڈھانچہ میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، تا کہ وہ عوام دوست فیصلہ سازی کرتے ہوئے ان فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنا سکیں۔ شاید یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں اور وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے غیر جمہوری قوتوں کی طرف دیکھنا بند کر دیں۔
بارہ جنوری کو جب تعلیمی ادارے طویل سرمائی تعطیلات کے بعد دوبارہ کھلے تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف آرمی پبلک اسکول پشاور پہنچ گئے۔ اسکول میں ان کی آمد اور صبح کی دعا میں شرکت 16 دسمبر کو ہونے والی بدترین دہشت گردی کے بعد طلبا و اساتذہ کے ذہنوں پر چھائے خوف و ہراس کے بادل چھانٹنے اور غمزدہ والدین کو حوصلہ دینے کا سبب بنی۔
جب کہ امید کی جا رہی تھی کہ سیاسی قیادتیں بشمول اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی اپنے اپنے حلقے کے خواہ چند ہی سہی اسکولوں کا دورہ کر کے طلبا، اساتذہ اور والدین کو حوصلہ دینے کی کوشش کریں گے۔ مگر یہ خواہش خبر نہ بن سکی۔ اس تناظر میں عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ شہید بچوں کے والدین کا فطری ردعمل تھا۔ اس پر کسی کو بھی سیاست نہیں چمکانی چاہیے۔
آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحہ عظیم نے پورے ملک کے ان تمام والدین کو شدید بے چینی اور اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے، جن کے بچے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ امید یہ کی جا رہی تھی کہ حکومت اس سانحے کے بعد ایک طرف تو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی تیار کرتے ہوئے فوری طور پر پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو فعال اور مستعد بنانے پر توجہ مرکوز کرے گی۔
دوسری طرف تعلیمی اداروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے اقدامات کرے گی۔ لیکن اس سلسلے میں پھانسی کی سزا کی بحالی اور چند فوجی عدالتوں کے قیام کے علاوہ دہشت گردی کی عفریت سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں آ سکا ہے۔ لہٰذا حکومتی اقدامات محض لیپاپوتی یا نمائشی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ایک عمومی عالمگیر تصور یہ ہے کہ سیاسی رہنمائوں کی سیاسی عزم و بصیرت غیر سیاسی قیادتوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ ان میں چھوٹے چھوٹے واقعات کی نزاکتوں کو سمجھنے اور ان کی حساسیت کی مناسبت سے عمل کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان کے تجربات اس سے برعکس کہانی سناتے ہیں۔
معاملہ آج کی سیاسی قیادتوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ ابتدائی دور کی سیاسی قیادت کے معمولات بھی مختلف نہیں رہے ہیں، مثال کے طور پر ایک بیوروکریٹ چوہدری محمدعلی مرحوم کا اثر و نفوذ اس قدر زیادہ تھا کہ اس وقت کی دستورساز اسمبلی نے بغیر سوچے سمجھے مارچ 1949ء میں قرارداد مقاصد منظور کرلی۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ کسی ریاست کے مقاصد کا تعین اس کے قیام سے پہلے طے کیا جاتا ہے۔
پھر 1947ء سے 1954ء تک 7 برس کے عرصے میں دستور ساز اسمبلی کے کل 156 سیشن ہوئے، جن میں سوائے قرارداد مقاصد کی منظوری کے آئین سازی کے حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی، بلکہ اراکین اسمبلی اپنی مراعات کے لیے لڑتے جھگڑتے رہے۔ 1955ء میں سیاسی قیادت نے خواہ بیوروکریسی کے ایما پر ہی سہی ملک میں ون یونٹ قائم کر کے اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت اور عوام کے جمہوری حقوق کی کمر میں چھرا گھونپ دیا۔ رہی سہی کسر حاضر سروس جنرل کو وزیر دفاع بنا کر پوری کر دی۔ گویا اپنے ہی ہاتھوں فوجی آمریت کی راہ بھی ہموار کر دی۔
حالانکہ یہ وہی زمانہ تھا جب پڑوسی ملک میں دستور سازی کے ساتھ ساتھ ریاستی انتظامی ڈھانچہ میں اصلاحات کا عمل بھی تیزی کے ساتھ جاری تھا۔ اگر ان کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو ڈھائی برس کی قلیل مدت میں آئین نہ صرف تیار ہوا، بلکہ پارلیمان میں بحث و مباحثہ کے بعد منظور ہو کر 26 جنوری 1950ء سے نافذ بھی ہو گیا۔ اسی عرصہ میں زرعی اصلاحات کا بل منظور ہوا اور پورے ملک سے مرحلہ وار جاگیرداری اور ریاست و راجواڑوں کے خاتمے کا عمل بھی شروع ہو گیا۔
ولبھ بھائی پٹیل کی زیر قیادت قائم کمیٹی نے بیوروکریسی میں اصلاحات کی تجاویز مرتب کیں اور دسمبر 1950ء میں ان کے انتقال سے قبل ان پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے مرکزی سیکریٹری تعلیم ڈاکٹر غلام السیدین (مولانا حالی کے نواسے) کے ساتھ مل کر آزاد ہند کے لیے تعلیمی پالیسی ترتیب دی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ ملک جو 7 صدیوں تک ہمارا زیر نگیں رہا تھا، آزادی کے بعد تیزی کے ساتھ اصلاحات کرتے ہوئے ایک آزاد و خودمختار ریاست کے طور پر اپنا تشخص بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جب کہ ہم اپنی نااہلی اور کوتاہ بینی کے سبب ترقی معکوس کے مسافر بن گئے۔
ہمارے یہاں ایک غلط تصور یہ عام کر دیا گیا ہے کہ فوجی حکمرانوں نے جو بھی فیصلے کیے، وہ سبھی غلط تھے اور ان کے تمام اقدامات ناقص تھے۔ اس میں شک نہیں کہ فوجی آمریتوں نے ملک کے سیاسی و سماجی Fabric کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت یہ ہے کہ فوجی آمریتوں کے دور میں کیے گئے بعض اقدامات خاصے پائیدار اور دور رس نتائج کے حامل تھے۔ اس کی سب سے اہم مثال مقامی حکومتوں کا نظام ہے، جس کے ذریعے ان تمام حکومتوں نے عوام کو بہتر سماجی سہولیات مہیا کرنے کی کوشش کی۔
خواہ وہ ایوب خان کا بنیادی جمہوری نظام ہو یا جنرل ضیاء کا بلدیاتی ڈھانچہ یا جنرل پرویز مشرف کا مقامی حکومتوں کا نظام ہو۔ خدمات کی ادائیگی (Service Delivery) کے اعتبار سے تینوں نظام انتہائی کامیاب رہے۔ جب کہ 1973ء کے آئین میں مقامی حکومتوں کے بارے میں شقوں کی موجودگی کے باوجود سیاسی قیادتیں مختلف حیلے بہانوں سے اس نظام کے نفاذ سے بھاگتی رہی ہیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ ایک سے زاید مرتبہ اس نظام کو جاری کرنے کے بارے میں احکامات جاری کر چکی ہے، مگر کوئی بھی حکومت اس کے احکامات پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
اب جہاں تک 18 ویں ترمیم کے ذریعے طویل عرصے سے اٹکے ہوئے صوبائی خودمختاری کے مسئلے کے حل کیے جانے کا تعلق ہے، تو اس میں میں شک نہیں کہ صوبائی خودمختاری کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے کی سمت میں ایک واضح پیش رفت ہوئی ہے۔ مگر اس پر عملدرآمد کا Modus Operandi مرتب کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے اختیارات کی تقسیم اور ان کے مزید نچلی سطح تک منتقلی کا عمل ہنوز کنفیوژن کا شکار ہوچکا ہے، جب کہ مردم شماری کے عمل کو سیاسیانے (Politicise) کے باعث وسائل کی آبادی کی بنیاد پر منصفانہ تقسیم کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
اسی طرح توانائی کے بحران پر قابو پانے میں بھی سابقہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت ناکام ہے۔ سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ جب حکمران قیادت اس بحران کی نوعیت کو سمجھنے ہی سے قاصر ہو، تو اس سے ایسے کسی حساس مسئلے کے صائب اور قابل عمل حل کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے؟ یہی کچھ معاملہ خارجہ پالیسی کا ہے کہ جس میں حکومت کسی واضح سمت کا تعین کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہے۔
موجودہ حکمران جماعت بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی کہ وہ ریاستی منتظمہ کو سیاسی قیادت کے تابع لا کر انھیں منتخب حکومت کے فیصلے تسلیم کرنے پر مجبور کر دے گی۔ لیکن معاملات و مسائل کا دوراندیشی کے ساتھ ادراک کرتے ہوئے ان کی صحیح اور واضح ترجیحات کا تعین نہ کر سکنے کے سبب زمین آہستہ آہستہ اس کے پیروں کے نیچے سے سرکتی چلی گئی۔ نتیجتاً جب پانی سر سے بلند ہونے لگا تو عسکری قیادت کو ایک بار پھر بعض حساس اور فوری نوعیت کے فیصلے کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آج منتخب حکومت کی حیثیت محض نمائشی ہے اور تمامتر اہم قومی فیصلے عسکری قیادت کر رہی ہے۔ خاص طور پر دہشت گردی کے مسئلے پر سیاسی جماعتیں کافی عرصے سے منقسم چلی آ رہی تھیں، حکمران جماعت کے اندر بھی اس مسئلے پر شدید اختلافات موجود تھے، جب کہ خود وزیراعظم بھی اس مسئلے پر کنفیوژن اور ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔
اگر عسکری قیادت ضرب عضب شروع نہ کرتی اور پھر سانحہ پشاور کے بعد سیاسی قیادتوں کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل پر مجبور نہ کرتی، تو شاید اتنا کچھ بھی نہ ہوپاتا جو کچھ ہو رہا ہے۔ کیونکہ اب تک ہر جماعت اپنا اپنا راگ الاپتی رہی تھی، جب کہ حکمران جماعت سیاسی عزم کے فقدان کے باعث دہشت گردی کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام کرنے سے گریز کرتی رہی تھی، جس کی وجہ سے اس عفریت کو مزید پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔
اس بیانیہ کا مقصد کسی بھی طور عسکری قیادت کو سیاسی قیادت سے بہتر ثابت کرنا نہیں ہے، بلکہ سیاسی قیادتوں کو آئینہ دکھانا ہے، جو آج بھی قومی سطح پر ابھرنے والے مسائل کے حل کے لیے ترجیحات ترتیب دینے میں ناکام ہیں۔ اس صورتحال کا سبب سیاسی جماعتوں میں پایا جانے والا فیوڈل Mindset ہے، جو اقتدار و اختیار کی عدم مرکزیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جس کی وجہ سے منتخب حکومتیں اقتدار و اختیار میں مناسب فاصلہ پیدا کرنے کے علاوہ عوام کے وسیع تر مفاد میں کوئی ٹھوس، پائیدار اور قابل عمل پالیسی تشکیل دے کر اس پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔
موجودہ صورتحال کے تناظر میں انھیں سوچنا ہو گا کہ کس طرح خود کو Assert کرتے ہوئے حکمرانی کے موجودہ ڈھانچہ میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، تا کہ وہ عوام دوست فیصلہ سازی کرتے ہوئے ان فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنا سکیں۔ شاید یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں اور وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے غیر جمہوری قوتوں کی طرف دیکھنا بند کر دیں۔